بہار الیکشن 2020ء اور ملک کے دانشوروں کی ذمہ داری ۔۔

ملک کے حالات کس قدر اچھے یا خراب ہیں یہ کسی با شعور شہری سے پوشیدہ نہیں، یہ حالات کب تک ایسے ہی رہیں گے اس کا بھی کسی کو صحیح  اندازہ نہیں ، ایسے میں بہار میں ہونے والا اسمبلی الیکشن 2020ء ،ووٹروں کو بہت کچھ سوچنے ، سمجھنے اور بہت زیادہ غور و فکر کرنے پر دعوت دیتا رہا ہے ۔ اس لئے اس یعنی الیکشن پر پورے ملک کے علماء و دانشوران کو عموما اور علمائے بہار اور دانشوران بہار کو خصوصا توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ بعد الیکشن صرف ارادوں اور اشاروں سے کچھ نہیں ہوگا ۔

قارئین !

  بہار الیکشن 2020 کے لئے ایک ماہ سے بھی کم وقت ہے مگر بہار کے ووٹروں کی افراتفری نہایت تشویشناک ہے، بہار میں اس وقت جن مسائل کى طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے، ان پر ابھی تک توجہ نہیں دی جا رہی ہے ، حد تو یہ ہے کہ بعض ووٹر حضرات اس  پرخصوصی توجہ دینے کے بجائے صرف میرے  امیدوار اور قریبی رشتہ دارجیتے کی" فکـــر" کر رہے ہیں، ایسے اندھے ووٹر جس کے پاس ووٹنگ کا کوئی مقصد نہ ہو اور وہ صرف اپنے خود ساختہ امیدوار کی فکر کرے یقینا یہ الیکشن کے منشاء کے خلاف ہے ۔

  یوں تو بہار کے لوگوں کے بنیادی مسائل میں روزگار ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ پریشان رہے، اور ایک بہاری سو بیماری تک کے طعنے سننے پر مجبور ہوئے اور ہو رہے ہیں ، حالیہ کويڈ 19 کے دنوں کی پریشا نیاں زندہ مثال ہیں،اگر بہار سرکار روزگار پر توجہ دیتی تو بہاریوں کو یہ نعرہ سننا نہیں پڑتا اور نہ ہی وہ بار بار گجرات ،ہریانہ ، لودھیانہ اورمہاراشٹر وغیرہ سے بھگائے جاتے ۔

بہار کا مشہورضلع کشن گنج یا پھر پورے علاقئہ سیمانچل ہی کو لے لیجئے ،یہاں مسائل کا انبار ہے،یہاں کے شہری کو صاف ستھرا پانی نصیب نہیں، یہاں کی متعدد بستیوں کے پانی میں آئرن کی مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ ڈاکٹر اس سے بچنے کا مشورہ دیتے ہیں، یہاں فیکٹریوں کی قلت کا حال یہ ہے کہ بچہ دسویں پڑھنے کے بعد فورا باہر جانے کے بارے میں پوچھنے لگتا ہےکیوں کہ اسے معلوم ہے کہ بہار میں روزگار کا فقدان ہے ، یہاں  کئی ایسی بستیاں بھی ہیں جو ہر سال سیلاب سے متاثر ہوتی ہیں ،یہاں کے سرکاری دفتروں میں علاقائی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد انگلی میں شمار کی جا سکتی ہے ، یوں تواس علاقے کی گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا میں مشہور ہے، پٹنہ کی طرح یہاں متعدد مقامات پر مسجد و مندر بہت  قریب قریب ہیں مگر لوگوں میں اخوت و بھائى چارگی قائم رہی ہے، لیکن  ماضی کے چند برسوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے علاقے کی شبیہ خراب کی گئی ہے ، اور لوگوں میں دوریاں ہونے لگی ہے،

اس لئےوہاں کے ہر ووٹر کے پیش نظر چند چیزیں اہم ہونی چاہئے :۔

  • روزگار کے لئے فیکٹریاں قائم کرنے والی پارٹی کو ووٹ دیں
  • فرقہ وارانہ ماحول کو کنٹرول میں رکھنے میں جس امیدوار نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے اسی کو ووٹ دیں۔
  • ہر ووٹر ،حالیہ الیکشن کے امیدوار سے ضرور پوچھے کہ الیکشن بعد بھی یہی رواداری رہے گی یا نہیں، اگر نہیں، تو ،تم بھی ہمارے ایم ایل اے نہیں ۔
  • بہار الیکشن سے قبل بھاجپا سرکار آسام میں مدارس کےتعلق سے جو نوٹفیکشن جارى کرنے والی ہے وہ نوٹیفیکشن بھی ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے ۔
  • بہار میں پہلے اردو زبان کا سکہ چل رہا تھا ، ،قیوالہ 《registry agreement》وغیرہ میں اردو کے الفاظ کثرت سے استعمال کئے جاتے تھے، مگر نتیش کمار سرکار کے دور میں قیوالہ کا پورا نقشہ ہی بدل گیا ہے، اردو کے الفاظ اکثر بدل دئے گئے ہیں، اور ابھی حالیہ تجویز میں اردو کو اسکولوں میں اختیاری زبان کے زمرے میں رکھا گیا ہے، جبکہ وہ سرکاری طور پر دوسری سرکاری زبان ہے۔
  • ریاست کے دلتوں کا حال بھی اچھا نہيں ، اس مساوات کے دور میں بھی چھوٹی ذات کی برادری کو بڑی ذات والے حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، یہ بیچارے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان سے رابطہ مضبوط کرنے کے لئے امیدواروں کے پاس کیا منصوبے اور اجنڈے ہیں ،اس کی بھی خبر لی جانی چاہئے  ،وہاں کے آدیواسیوں کو  ہو رہی پریشانیوں کی روک تھام کے لئے غیر آدیواسیوں کو بھی کوشش کرنی چاہئے۔
  • کوئی ضروری نہیں ہے کہ آپ صرف بول بچن والے پرانے نیتا کو ہی ووٹ کریں گے تو آپ کا علاقہ یا آپ کی ریاست ترقی کرے گی بلکہ کسی ایماندار نئے چہرے کو بھی "ٹھوک بجا "کر بنا پیسہ لئے میدان میں اتارسکتے ہیں، كمپٹیشین کیجئے ، نیتاؤں میں مقابلہ موازنہ کیجئے ۔

  ایسی صورت حال میں علماء و دانشوروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود کسی لالچ میں نہ آئیں اور عوام کو للچانے والوں کی چال سے بچائیں،

یاد رکھئے ! ووٹ پانچ دن کے  روٹی بوٹی کی پریشانی کے حل کرنے کے لئے نہیں بلکہ پوری ریاست میں پانچ سال تک حفظ و امان، ترقی، تعلیمی بیداری، اخوت و بھائی چارگی، مذہبی ہمہ آہنگی ، فروغ جمہوریت کے لئے کیا جاتا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ  کوئی پانچ دن یا پانچ ماہ کی روٹی بوٹی کے لئے کسی غلط پارٹی کو ووٹ دینے کا مشورہ دے کر ووٹروں کو بہکا ئے ،اگر ایسا ہوا یا ووٹر ایسا کئےتو وہ دن بھی آسکتا ہے جب تمہیں اس کی بیش از قیمت چکانی پڑے گی ۔

محمد اختر علی واجد القادری

جامعہ اسلامیہ میراروڈ ممبئ

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter