وندے ماترم ایک تاریخی بیانیہ

جس ’وندے ماترم‘ کے نام پر آج ملک میں ’حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ‘ بانٹا جا رہا ہے، اسی’وندے ماترم‘ کو لکھنے والا خود کبھی بھی محب وطن نہیں رہا، نہ ہی ملک کی آزادی کے لئےکبھی کسی تحریک کا حصہ بنا۔ خود انگریزوں کی غلامی کی، اور لوگوں کو ’قوم پرستی‘ کا سبق پڑھایا۔ یہی کردار ان کے والد نے بھی ادا کیا تھا۔

بتادیں کہ بنکم چندر چٹوپادھیائے کی پیدائش 27 جون 1838 کو ایک خوشحال خاندان میں ہوئی۔ ان کے والد یادو (یا جادب) چندر چٹوپادھیائے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈپٹی مجسٹریٹ تھے۔ بنکم چندر چٹوپادھیائے خود بھی برطانوی حکومت کی صوبائی سول سروس میں مقرر ہوئے اور ڈپٹی مجسٹریٹ کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے انگریزوں سے مکمل وفاداری نبھائی اور پوری دیانت داری کے ساتھ ان کے ماتحت کام کیا۔ انگریز حکام ان کی کارکردگی سے خوش ہوئے اور انہیں ’رائے بہادر‘ کا خطاب اور C.I.E (کمپینین آف دی انڈین ایمپائر) جیسے نوآبادیاتی اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ 1891 میں سبکدوش ہوئے اور 8 اپریل 1894 کو ان کا انتقال ہوا۔ اس طرح ان کی پوری زندگی برطانوی حکومت کی خدمت اور اسی نظام کے اندر تسلیم کئے جانے سے وابستہ رہی۔ اور انگریزوں کی غلامی کرتے ہوئے ہی وہ اپنے ادبی کام کے ذریعے سماج میں’زہر‘ گھولتے رہے۔

پروفیسر عرفان احمد 1996 میں لکھے گئے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”بنکم چندر چٹوپادھیائے نے وندے ماترم کا گیت 1875 میں تحریر کیا۔ بعد میں، جب انہوں نے اپنا مشہور ناول’آنند مٹھ‘ مکمل کیا، تو اس گیت کو کہانی کے اندر شامل کر دیا۔ ناول میں شامل ہونے کے بعد اس گیت کو اپنے سیاق و سباق سے ایک نیا سیاسی مفہوم حاصل ہو گیا۔ یہ ایک ایسی کہانی کا لازمی حصہ بن گیا جو ایک کمزور ہندو راشٹر کے تصور پر مبنی تھی، جس میں مسلمان بار بار منفی حوالوں کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اس لئے اس گیت کو ناول کے سیاسی پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاق کے بغیر کوئی بھی متن محض ایک پریوں کی کہانی بن کر رہ جاتا ہے۔“

عرفان احمد یہ بھی لکھتے ہیں کہ ”وندے ماترم صرف نوآبادیاتی اقتدار کے خلاف قوم پرستوں کا جنگی نعرہ نہیں تھا، بلکہ ہندو-مسلم تشدد کے دوران گایا جانے والا ایک طاقتور ہندو نعرہ بھی تھا۔“ انہوں نے مورخ تنیکا سرکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ 1926 کے فسادات کے دوران اس کا نعرہ لگایا گیا تھا۔

یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ناول ’آنند مٹھ‘ براہ راست برطانوی حکومت کو دشمن کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اس ناول میں دیوی درگا کو بھارت ماتا کی علامت کے طور پر دکھایا گیا ہے، تاہم بعض اہل علم کا خیال ہے کہ وندے ماترم کے گیت میں بنکم صاحب نے براہ راست ’درگا‘ کا ذکر کیا ہے (اگرچہ یہ بند آج قومی ترانے کے طور پر منظور شدہ حصے میں شامل نہیں ہے) اس کے ساتھ ساتھ، ناول میں بھارت ماتا کی طاقت کے پیکر کے طور پر جس درگا کا بالواسطہ ذکر ملتا ہے، وہ دراصل ان کی اپنی والدہ تھیں، جن کا نام درگا دیوی تھا۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter