امت مسلمہ کی شیرازہ بندی: فاضل بریلوی کی تعلیم کے روشنی میں
یہ کافی دیرینہ وپارینہ عنوان ہے۔ اس موضوع پر کافی خامہ فرسائی کیا جا چکا ہے۔اتنا مواد دستیاب ہے کہ اگر کوئی محقق اس عنوان پر تحقیق کرنا چاہے تو بڑی آسانی سے مجلدات در مجلدات تیار کر سکتا ہے۔ بھلے یہ عنوان کافی پرانا ہے۔ لیکن آج بھی عملی طور پر جائزہ لیا جائیں تو یہ کافی تشنہ عنوان ہے۔ ہر کوئی امت کے باہمی انتشار وخلفشار کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اتحاد واتفاق کے ذریعے خوشگوار ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ بقول حضور حافظ ملت اتحاد زندگی اور اختلاف موت ہے۔ یہ چھوٹا سا جملہ اپنے دامن میں کافی معنی کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ انسانی جسم کو مثال لے لیجئے کہ جب روح اور بدن میں اختلاف ہوجاتا ہے تو انسان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جس طرح جسم وروح کے اختلاف کی وجہ سے زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے کچھ یوں ہی اختلاف وانتشار سے سماج کی زندگی تہس نہس ہوجاتی ہے۔
جس امت کو اتحاد واتفاق کا پیغام دیا گیا تھا آج وہی قوم باہمی انتشار میں پھنسی ہوئی ہے۔ اسی کا نتیجہ کہئے کہ آج امت کا رعب ودبدبہ ختم ہوگیا ہے۔ قرآن اسی کی عکاسی کرتے ہوئے کہتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور آپس میں جھگڑو نہیں کہ پھر بزدلی کرو گے اور تمہاری بندھی ہوئی ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بےشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے (سورۃ الانفال :46 )
ان آیات کریمہ کے ذریعے اللہ تبارک وتعالی عمومی حالات میں مسلمانوں کو باہمی اختلاف سے بچنے کی تلقین کررہا ہے اور اتفاق و اتحاد کا راستہ اختیار کرنےپر زور دیں رہا ہے۔ کفار کے ممالک تو آپس میں متحد ہیں لیکن افسوس کہ مسلمانوں میں باہمی اتحاد نظر نہیں آتا بلکہ ان کا حال یہ ہو چکا ہے کہ اگر کفار کسی مسلمان ملک پر ظلم و ستم کریں تو دوسرے ملک کے مسلمان اپنے مسلم بھائیوں کا ساتھ دینے اور ان کافروں کے خلاف بر سر پیکار ہونے کی بجائے وہ بھی کافروں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کی زندہ جاوید مثال ہمارے سامنے فلسطین اور اسلامی ممالک ہیں۔ فلسطین اور اہل فلسطین کی مدد کرنے کے بجائے وہ اسرائیل کی حمایت میں برسرِ پیکار ہیں۔ خدا ان مسلم حکمرانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ چلئے اب ہم فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تعلیمات کا بھی سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی بھر امت کی شیرازہ بندی کے لیے کام کیا۔ اپنے ماننے والوں کو آپسی اختلافات اور باہمی خلفشار سے دور رہنے کی تعلیم دیتے رہے۔
فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ خالص اہلسنت کی ایک قوتِ اجتماعی کی ضرور ضرورت ہے مگر اس کے لئے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے ۔
(1) علماء کا اتفاق
(2) تحمل شاق قدر بالطاق (یعنی بقدر طاقت مشقت کو برداشت کرنا)
(3) امراء کا انفاق لوجہ الخلاق (یعنی اہلسنت کے مالدار اور وسائل رکھنے والے افراد کا اللہ کی رضا کے لئے مال خرچ کرنا)
یہ تین باتیں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ جب مسلم قوم میں علماء کا اتفاق ہو جائے گا تو سمجھئے کہ قوم ایک پلاٹ فارم پر جمع ہو جائے گی۔ انتشار اور خلفشار کے پیچھے علماء کے آپسی جھگڑے فساد ہی کارفرما ہیں۔ ذاتی ونجی معاملات کو دین سے جوڑ کر اسے مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے درمیان خانقاہ سے لیکر مدرسے تک اختلاف ہی اختلاف ہیں۔ مشربی اختلاف کو مسلکی رنگ دے دیا جاتا ہے پھر کیا۔ دونوں فریق کے مابین فتویٰ بازیاں ہوتی رہتی ہیں۔ تفسیق سے شروع ہوکر تکفتر تک پہنچ جاتا ہے۔
آج کے ان سنگین حالات میں مسلم قوم بنام اسلام متحد ہونا ناگزیر ہے۔ ورنہ عالمی نقشے سے اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی خفیہ سازشیں ہورہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسلام کو مٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دباؤ گے
فاضل بریلوی فرماتے ہیں کہ بقدرِ طاقت مشقت کو برداشت کیا جائیں۔ آج ہماری قوم اتنی غافل اور متساہل ہے کہ پوچھو مت۔ تکلیف ومشقت تو دور تھوڑا درد بھی برداشت کرنے تیار نہیں ہیں۔ بڑے آرام پسند اور لالچی ہوچکے ہیں۔ آزمائشوں کو مصیبت سمجھتے ہیں۔ بلاؤں کو آفت۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خوف و ہراس کے شکار ہیں۔ سرکار اس طرف اشارہ بھی فرمایا تھا آقائے دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں۔”قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں“ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، بلکہ تم اس وقت بہت ہو گے، لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں «وہن» ڈال دے گا“ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! «وہن» کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے (مسند احمد)
آخری کی بات بڑی ہی اہمیت کے حامل ہے۔ اس قوم کے مخیر حضرات دینی امور میں اپنی دولت وثروت کو خرچ کریں۔مال وزر کے بغیر دین کا کام انجام نہیں دیا جاسکتا۔ خود فاضل بریلوی اپنے دس نکاتی پروگرام میں آخری نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ "آپ کےمذہبی اخبار شائع ہو ں اور وقتا فوقتا ہر قسم کے حمایت مذہب میں مضامین تمام ملک میں بقیمت و بلاقیمت روزانہ یا کم سے کم ہفتہ وار پہنچاتے رہیں حدیث کا ارشاد ہے آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے ہوگا اور کیوں نہ ہو صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے۔
آج ہم جن سنگین ودردناک صورتحال سے گزر رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ بالخصوص ہندوستان میں ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔ ہمارے عبادت گاہوں سے لیکر ہمارے گھر تک غیر محفوظ ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے اندر کے باہمی اختلافات اور انتشار ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم بنام ملت متحد ہوکر اپنے حقوق اور اپنے مذہب کی حفاظت کریں اور غیروں کو بولنے کا موقع نہ دیں۔ جب متحد ہوں گے تو یہ حالات بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ کیا خوب کہا شاعر نے
متحد ہوتو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہوتو مرو چلاتے کیوں ہو۔
خدا برتر سے دعا ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد واتفاق پیدا فرمائے۔