اہل فلسطین کی زبوں حالی اور ہماری زبانی جمع خرچیاں
نوک قلم شرمسار ہے۔ آنکھیں نم دیدہ ہیں۔ احساس پژمردہ ہے۔ شعور و آگہی شرمندہ ہیں کہ لکھیں تو کیا لکھیں؟؟؟ دل چاہتا ہے کہ تنہائی میں بیٹھ کر سینہ پیٹ پیٹ کر نوحہ گری کریں۔ غم سے دل بھی پریشان ہے۔ احساس و خیال کے جھروکے پر پیہم مصیبت وآفت کا دبیز پردہ پڑا ہوا ہے۔ یہ الفاظ کی کرشمہ سازی یا ہیرا پھیری نہیں بلکہ سسکتے بلکتے ہچھکتے دل کا غم والم ہے جو الفاظ کا پیرہن پہن کر آپ کے سامنے شرمندگی کے ساتھ نڈھال ہوکر در بدر کی ٹھوکریں کھاکر آپ کے سامنے کھڑا ہے۔ اس وقت میرے حاشیہ خیال پر ایک معنی خیز شعر گردش کررہا ہے۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
اس وقت تویوں لگتا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے
مہتاب نہ سورج، نہ اندھیرا نہ سویرا
شاید آپ سمجھ گئے ہوں گے ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی آہ وفغاں ہمیں بے چین کررہی ہیں۔ وہاں سے شور ہی شور، پکار ہی پکار سنائی دے رہی ہے کہ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں؟؟؟ ہمارا کوئی غمخوار نہیں؟؟؟ ہمارا کوئی مسیحا نہیں؟؟؟ ہمارے درد کو سمجھنے والا کوئی انسان ہی نہیں۔ واٹس ایپ کے ذریعے بے شمار اہل فلسطین اور فلسطین کی زبوں حالی پر ویڈیوز وائرل ہو رہے ہیں۔ ہمت نہیں ہوتی کہ ان ویڈیوز کو مکمل دیکھا جائے۔ جب بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی دل ہمت ہار بیٹھتا ہے اور درد وکرب سے کراہنے لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ماتم کا ماحول ہے۔ ایک جزائری بہن جس کا نام رنا یازجی ہے جو شہید فلسطینی بھائی مرحوم فائق نعمان یازجی کی زوجہ ہیں۔ اس بیوہ بہن کی درد بھری ویڈیو گردش کرتے کرتے ہمارے پاس بھی پہنچی جس میں وہ بیوہ بہن کہہ رہی تھیں کہ میرے سرتاج وشوہر فائق کے چلے جانے کے بعد میرے تین معصوم بچوں کی دیکھ ریکھ کون کرے گا؟؟؟ میں جزائری ہوں اور میرے سرتاج فائق غزہ کے باشندے تھے۔ ان درندوں کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔جب ظالموں نے ان پر حملہ کیا تب ہم انہیں علاج کے لیے ہسپتال لے گئے۔ لیکن وہاں صرف عمارت باقی تھی علاج کا کوئی سازوسامان بھی نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ہم خدا کے شکر گزار ہیں۔
یہ ایک فلسطینی بہن کی درد بھری کہانی ہے۔ وہاں کتنے لاکھوں کروڑوں لوگ ہیں جن کے پریوار کا پورا چمن اجڑ گیا۔ آبادیاں کھنڈر بن گئیں۔ فلک شگاف عمارتیں ان ظالموں کی مسلسل بمباری کی وجہ سے زمین بوس ہو گئیں۔ جنگ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ بظاہر اقوام متحدہ جنگ بندی کا مسلسل مطالبہ کررہی ہے لیکن یہ درندے جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ رمضان بھی ان بھائیوں کے لیے آزمائش کی گھڑی ہیں۔ چند دن قبل ایک درد بھری ویڈیو دیکھنے کو ملی جس میں ایک فلسطینی ماں اپنے نونہال کو افطاری کے وقت ہری گھانس پانی میں ابال کر کھلا رہی تھیں۔ ایسے کئی روح فرسا ویڈیوز آپ نے بھی مشاہدہ کیے ہوں گے۔ مسلسل جنگ بندی کے مطالبات کے باوجود اسرائیلی جابر وظالم و سفاک وزیراعظم بنیامن نتن یاہو قرار داد ماننے کو تیار نہیں۔ اخبارات میں مسلسل یہ رپورٹ شائع ہو رہی ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکورٹی فورسز جنگ بندی قرار داد پر منظوری دے چکی ہے، وغیرہ وغیرہ، اس کے باوجود نتن یاہو اپنی ہٹ دھرمی اور سفاکیت پر قائم ہے۔ اور بے گناہ معصوم بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کتنے گھر اجڑ گئے۔ کتنے خاندان گھر سے بے گھر ہوگئے۔ کتنے بچے یتیم ہوگئے۔ کتنی مائیں اور بہنیں بیوہ ہو گئیں۔ کتنے شہید ہوگئے۔ کتنے زندگی وموت کے درمیان تڑپ رہے ہیں۔ کتنے زخمی ہوکر بے علاج کے لیے تڑپتے تڑپتے موت کے گھاٹ اتر گئے۔ ہم ہیں کہ بائیکاٹ بائیکاٹ کرتے رہے۔ سڑکوں پر صدائے احتجاج بلند کرنے کے علاوہ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں ۔ اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ بھی ہوئی تو صرف قولی طور پر عملی طور پر ہم آج بھی اسرائیلی مصنوعات کا بےدریغ استعمال کر رہے ہیں۔
رمضان کا مہینہ چل رہا ہے۔ ہمارے دسترخوان رنگ برنگے پھلوں سے سجے ہوئے ہیں۔ اس پر مزید چٹ پٹے گوناگوں کبابوں سے جی بھرتا بھی نہیں۔ کچھ بد نصیب لوگ افطاری میں اتنا ٹھوستے ہیں کہ پھر عشاء بھی قضا اور تراویح بھی گل۔ یہ ہماری حالت زار ہے۔ وہاں افطاری نہیں سحری نہیں۔ ہمہ وقت ان کی بھوکی پیاسی زبانیں خدا کے شکر وذکر سے رطب اللسان ہیں۔ کتنے مظلوموں کو دیکھا کہ پریوار کا پریوار، کنبے کا کنبہ راہ خدا میں شہید ہوگیا پھر بھی زبان پر حرف شکایت نہیں۔ زبان پر کبھی گلہ لیتے ہی نہیں۔ اسی اثناء ایک درد بھرا استفتاء بھی نظروں سے گزرا جسے پڑھ کر جسم کے رونگٹے گھڑے ہوگئے۔ احساس درد کے مارے نڈھال ہوگیا شاید آپ کی نظروں سے بھی ضرور گزرا ہوگا ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس استفتاء کو بافادۂ عام یہاں نقل کریں تاکہ ہم سب کے جذبات جاگ اٹھے۔ انسانیت بیدار مغز ہوکر فلسطین کے تئیں کچھ کرنے کا عزم مصمم کریں سینہ پہ ہاتھ رکھ کر پوری انسانیت وہمدردی کے ساتھ پڑھئے۔استفتاء کچھ یوں ہیں:
سوال: السلام علیکم! میری ٹانگیں سخت تھکاوٹ اور مشقت کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں اور بہت زیادہ کھڑے رہنے سے میرے پاؤں کےجوڑوں میں درد ہوتا ہے، اس لیے میں درد کی وجہ سے اپنے جوتے نہیں اتار سکتا، اور اگر اتاروں تو میں ان کو پہن نہیں سکتا، کیونکہ ان سے خون بہتا ہے... اور بعض اوقات درد کی شدت کی وجہ سے میرے آنسو نکل آتے ہیں اور رات کو سردی سے میرے ہاتھ پھٹ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مجھے نماز کے دوران خاص طور پر فجرکی نماز میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا میں وضو کے بجائے تیمم کر سکتا ہوں؟ واضح رہے کہ پانی زخموں کو خراب کر دیتا ہے، اور اگر پانی ہمیں دستیاب ہوتا تو ہم اسے پیتے ہیں۔
مفتی صاحب نے جواب دیا
جواب: میری جان آپ کے قدموں پر قربان، میرے بھائی! ہمارے لیے کیا ہی مقام افسوس ہے، ہم ساری رات نرم بستر پر، نرم، گرم پاؤں کے ساتھ سوتے ہیں، اور صبح کی نماز ادا کرنے کے لیے سکون سے اٹھتے ہیں جب کہ ہم کسی آزمائش میں مبتلا بھی نہیں ہیں ۔ اگر آپ جیسا کوئی مجاہد محصور ہو، تھکا ہوا ہو اور لڑتے لڑتے تھک گیا ہو اور اکثر بھوک، پیاس اور سردی سے دوچار ہو اور درج بالا ایسا سوال پوچھے کہ تو ہم کیا کہیں گے؟؟؟... للہ المشتکی ولاحول ولاقوة الاباللہ.. تیمم کرلیجیے... اے امت کی آنکھ کےتارے اور علماء اور ائمہ کےسروں کے تاج! تیمم کرلیجے میرے محبوب۔
(اے پروردگار ہمیں معاف فرما ان کے جوتوں کی دھول ہم سے کہیں بہتر ہے) آمین ثم آمین...!
اگر ہوسکے تو یہ استفتاء باربار پڑھیں اور ان فلسطینوں کی قربانیوں اور دین و عبادت سے لگن و لگاؤ کو سمجھنے کی کوشش کریں اور دین وشریعت کے تئیں جو جذبہ وولولہ ان میں ہے وہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اس زمانے میں اگر کوئی دین پر مکمل استقامت کے ساتھ قائم ہے تو وہ اہل فلسطین ہیں۔ ان روح فرسا وسنگین حالات میں بھی وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آزمائشوں پر آزمائشیں آنے کے باوجود وہ زبان پر حرف شکایت تک نہیں لا رہے ہیں۔ بزدل عرب حکمرانوں کو ان سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہم جیسوں کو بھی۔ رمضان کے ان مبارک گھڑیوں میں انہیں یاد کریں۔ ان کے لیے دعائیں کریں۔ اگر ممکن ہوتو امدادی ریلیف اور خورد ونوش کے اشیاء پہچانے کی کوشش کریں۔ اتنا ہی نہیں علاج ومعالجہ کے لیے دوائیاں اور دیگر ضروری اشیاء بھی ان تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری کاوشیں رنگ لائیں اور انہیں یہ ریلیف پہنچ جائیں۔ اب مزید گھڑیالی آنسو بہانے کی ضرورت نہیں۔ یہ ڈھکوسلے نعرے بھی بند کریں۔ ہماری زبانی جمع خرچیاں زیادہ اور عملی اقدامات کم ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی کہ زمینی سطح پر اتر کر کام کریں۔ آرام پسندی چھوڑیں۔ تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے حالات بہتر ہوں گے۔ شرط صرف اتنی کہ
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
مسلمانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ
آہ، کس کی جُستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے
راہ تُو، رہرو بھی تُو، رہبر بھی تُو، منزل بھی تُو
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تُو
دیکھ آ کر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تُو
وائے نادانی کہ تُو محتاجِ ساقی ہو گیا
مے بھی تو، مِینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تُو
شُعلہ بن کر پھُونک دے خاشاکِ غیر اللہ کو
خوفِ باطل کیا کہ ہے غارت گرِ باطل بھی تُو
بے خبر! تُو جوہرِ آئینۂ ایّام ہے
تُو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
رب قدیر سے دعا ہے کہ اللہ تعالی فلسطین اور اہل فلسطین کی غیبی مدد فرمائے۔ اسرائیل اور ظالم وجابر صیہونیوں کو نیست ونابود کرے۔ یہودیوں کے شاطر شکنجوں سے بیت المقدس کو آزادی عطا فرمائے۔ ہمیں انسانیت اور ہمدردی عطا فرمائے۔ رمضان کے تمام انوار وبرکات سے مالا مال فرمائے بالخصوص اس عشرۂ مغفرت میں ہماری بخشش کرے. آمین!