نظامِ حکومت اور مودی حکومت کے گیارہ سال
انسان ایک معاشرتی مخلوق ہے جو تنہا زندگی گزارنے کے قابل نہیں۔ جب لوگ مل کر کسی مخصوص علاقے میں زندگی بسر کرنے لگتے ہیں تو ان کے درمیان تعلقات و معاملات، لین دین، فیصلے اور اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ ان تعلقات کو منظم رکھنے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے کسی ایسے نظام کی ضرورت پیش آتی ہے جو قانون نافذ کرے، فیصلے صادر کرے، امن و امان قائم رکھے اور تمام لوگوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ یہی نظام "حکومت" کہلاتا ہے۔ حکومت ایک ایسا ادارہ ہے جو ریاست میں اقتدار اعلیٰ کا حامل اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ "حکومت" عربی زبان کا لفظ ہے جو "حکم" سے نکلا ہے جس کے معنیٰ ہیں "فیصلہ کرنا" "اقتدار" یا "فرمان جاری کرنا"۔ اصطلاح میں حکومت سے مراد وہ ادارہ ہے جو کسی ریاست کے اندر اختیارات رکھتا ہو، عوام کے لیے قوانین بناتا ہو، ان پر عمل درآمد کراتا ہو، انصاف فراہم کرتا ہو اور ریاستی نظم و نسق کو برقرار رکھتا ہو۔ حکومت عوامی معاملات کو منظم کرتی ہے اور ریاست کے تمام ادارے اسی کے زیرِ نگرانی کام کرتے ہیں۔ حکومت کے بغیر کوئی بھی ریاست قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ حکومت قوانین بناتی ہے اور ان پر عمل درآمد کرواتی ہے تاکہ ہر شہری کی آزادی اور حق محفوظ رہے۔ حکومت ہی کے تحت پولیس، فوج اور دیگر حفاظتی ادارے کام کرتے ہیں جو ملک کے اندر اور بیرون ملک سے آنے والے خطرات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ حکومت ٹیکس جمع کرتی ہے، بجٹ بناتی ہے، ترقیاتی منصوبے شروع کرتی ہے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام کو تعلیم، صحت، پانی، بجلی، سڑکیں اور دیگر بنیادی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے۔ کسی بھی حکومت کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے اس کے چند اہم اجزاء ہوتے ہیں انہیں میں سے ایک ادارہ مقننہ بھی ہے جو قوانین بناتا ہے۔ مثال کے طور پر قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی۔ دوسرا ادارہ ہے جو قوانین پر عمل درآمد کرواتا ہے۔ مثلاً:صدر، وزیر اعظم، وزراء، بیوروکریسی وغیرہ۔ تیسرا ادارہ عدلیہ ہے جو قانون کی تشریح اور انصاف فراہم کرتا ہے۔ جیسے عدالتیں۔
دنیا میں مختلف ممالک میں مختلف اقسام کی حکومتیں رائج ہیں جیسے جمہوری حکومت یہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق، ہر فرد کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اس جمہوریت میں طاقت کا اصل سر چشمہ عوام ہوتے ہیں۔ دوسرا آمریت اس میں تمام اختیارات ایک شخص یا گروہ کے پاس ہوتے ہیں جو طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرتا ہے۔ عوام کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔
تیسرا بادشاہت یہ ایسی حکومت ہے جہاں اقتدار موروثی طور پر منتقل ہوتا ہے یعنی بادشاہ یا ملکہ حکمرانی کرتی ہے۔ یہ مطلق العنان بھی ہو سکتی ہے اور آئینی بھی۔ چوتھی آئینی حکومت یہ ایسی حکومت ہے جو کسی تحریری یا غیر تحریری آئین کے تحت چلتی ہے۔ اس میں حکمران کے اختیارات محدود ہوتے ہیں اور وہ قانون کے تابع ہوتا ہے۔ پانچویں مثالی حکومت۔ مثالی حکومت وہ ہوتی ہے جس میں شفاف یعنی عوامی امور کو صاف اور کھلے انداز میں چلایا جاتا ہے جو عوامی مسائل کو بروقت حل اور قانون کی بالا دستی کو یقینی بناتی ہے۔ جو اقلیتوں،خواتین،بچوں،مزدوروں اور تمام طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر مثبت کردار ادا کرتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت کا بنیادی مقصد عدل و انصاف قائم کرنا، حقوق العباد کی ادائیگی کو یقینی بنانا، ظلم و ناانصافی کا خاتمہ کرنا اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔ حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی الله عنہ کا قول ہے: "دریا کے کنارے اگر ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔" یہ اسلامی حکومت کا تصور پیش کرتا ہے کہ حکومت صرف انسانوں کی ہی نہیں بلکہ جانوروں کے حقوق کی بھی ذمہ دار ہے۔ حکومت کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک منظم، شفاف، ذمہ دار اور بااختیار حکومت ہی عوام کو ان کے حقوق دلا سکتی ہے اور معاشرے میں عدل و انصاف قائم کر سکتی ہے۔ حکومت اگر اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھائے تو ایک خوشحال، پرامن اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ موجودہ دور میں حکومتوں کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی اہم فیصلے لینے ہوتے ہیں اس لیے ہر حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کو مقدم رکھے،قانون کی پاسداری کرے اور سماجی انصاف کو یقینی بنائے۔
اس وقت مرکز میں مودی حکومت اپنی کامیابی کے گیارہ سال کی تکمیل کے جشن میں لگی ہوئی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے کہ اس حکومت کا تیسرا دور آغاز سے ہی ناکام نظر آ رہا ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ دس سالوں میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے یہ بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اس دس سالہ دور حکومت میں ملک کو کمزور، لاچار اور عالمی سطح پر غیر مؤثر بنا دیا ہے۔ وزیر اعظم کا تیسرا دور شروع ہو چکا ہے مگر پہلے ہی سال میں کوئی نمایاں کامیابی نظر نہیں آئی بلکہ صرف سیٹوں کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ باقی سب وعدے اور منصوبے ادھورے رہ گئے۔ یہ سال بظاہر بے مثال قرار دیا جا رہا ہے لیکن زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ملک کی سمت اور حالت بگڑ چکی ہے۔ اس سال کئی خواتین بیوہ ہوگئیں مگر وزیر اعظم خاموش ہیں۔ سرحد پار کے خلاف کئی بار جنگ کے بیانات دیے گئے لیکن عملی اقدام کیا ہوا قارئین بخوبی جانتے ہیں۔ بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ستر سالوں میں ہندوستان نے کبھی اتنی بے بسی محسوس نہیں کی جتنی اب کر رہی ہے۔ ملک چھوٹے چھوٹے ممالک کے سامنے جھک رہا ہے حتیٰ کہ کینیڈا کے آگے بھی۔ خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ پاکستان کو چین، روس، ترکی، آذربائیجان، امریکہ، آئی ایم ایف اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی حمایت حاصل ہوئی ہے لیکن ہندوستان اس کا مؤثر جواب دینے میں ناکام رہا۔ ماضی میں جب بھی سرحد پر کوئی گڑبڑ ہوتی اور ہندوستانی فوجیوں کی موت واقع ہوتی تو اس مرحلہ میں بی جے پی کے لوگ یہ دعویٰ کرتے کہ وہ ایک سر کے بدلے دس سر لے آئیں گے لیکن گزشتہ گیارہ سالوں کے دوران نہ جانے کتنی بار پاکستان، چین وغیرہ نے ہندوستانی فوجیوں پر حملہ کیا اور ان کی جانیں لیں لیکن ہندوستان کی طرف سے ان حملوں کا مؤثر جواب دینے کے لیے کوئی مؤثر حکمت عملی نہیں دیکھی گئی۔ بار بار یہ انکشاف کہ سیاسی مداخلت کے سبب ملک کے دفاعی نظام کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی افواج کو کمزور کرنے کی کوشش باہر سے نہیں بلکہ اندر سے ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو اقتدار میں بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہیں وہ افواج کو جدید جنگی ہتھیارات اور ساز و سامان فراہم کرنے کے بجائے ان سودوں میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ اس کے باوجود عوام میں اس قدر ہَوّا کھڑا کیا جاتا ہے کہ یہی اس ملک کے محافظ ہیں۔ یاد رکھیں کہ جھوٹ کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، سچائی کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتی ہے۔ یکے بعد دیگرے ہر جھوٹ بے نقاب ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جھوٹ کو ملک کے عوام سمجھنے کی کوشش کریں اور وہ فیصلے لیں جو ملک کے مفاد میں ہوں۔
تیسری میعاد کے پہلے سال کی تکمیل پر حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر جے پی نڈا نے بلند و بانگ دعوے کرتے ہوئے اپنی حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کا ذکر کیا۔ انہوں نے مودی حکومت کی حصولیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ گیارہ سالوں کے دوران ان کی حکومت نے آرٹیکل 370 منسوخ کیا، طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دیا اور وقف قانون میں ترمیم کی۔ گیارہ سالہ رپورٹ کارڈ میں ایک مخصوص طبقہ کے آئینی و مذہبی حقوق اور آزادی سلب کرنے کو اگر مودی حکومت اپنا کارنامہ، کامیابی اور حصولیابی قرار دیتے ہوئے اس پر فخر کا اظہار کر رہی ہے تو یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ اس کی ترجیحات کیا ہیں اور ملک و قوم کے جو اصل بنیادی مسائل ہیں ان پر حکمراں بھاجپا کی پالیسی کیا ہے؟ خدمت اور مؤثر حکمرانی کے لیے وقف گیارہ سال کے عنوان کے ساتھ بھاجپا صدر نڈا نے رپورٹ کارڈ پیش کیا۔ اسی رپورٹ میں کورونا جیسی مہلک وبا کے دوران اپنے شہریوں کو کورونا سے محفوظ رکھنے کے لیے حکومت کی ٹیکہ کاری مہم کو مودی حکومت اپنا کارنامہ قرار دے رہی ہے تو یہ سوال حق بجانب ہے کہ کو رونا کی لہر کے دوران لاکھوں ہندوستانی شہریوں کی اموات اور ملک کی ایک ریاست سے دوسری ریاست سیکڑوں کلومیٹر کا پیدل سفر کرنے والے افراد کی مشکلات و مصائب اور مسائل پر قابو پانے میں نا کام کیوں ثابت ہوئی؟ ملک بھر کے اسپتالوں میں جب آکسیجن اور بستر کی اشد ضرورت تھی، ان مسائل پر بھی مودی حکومت قابو نہیں پاسکی محض آکسیجن کی کمی کے سبب ایسے ہزاروں مریض لقمۂ اجل بن گئے جنہیں بہتر انتظامات کے ذریعہ موت سے محفوظ رکھا جا سکتا تھا۔
مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا گیارہ سالہ دور اقتدار ملک کے سب سے بڑے اقلیتی طبقہ مسلمانان ہند کے لیے بے حد آتشی ثابت ہوا۔ ان گیارہ برسوں میں مسلمانوں کی خوراک پر پابندی عائد کی گئی، گائے بیل کے ذبیحہ پر پابندی کی مسلمانوں نے مخالفت نہیں کی کیونکہ مسلمانان ہند ہمیشہ قانون کی پاسداری کرتے رہے ہیں۔ گئو ہتیا کے نام پر مسلمانوں کو اس وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ اب تک درجنوں مسلمان جاں بحق ہوچکے ہیں۔ صرف گوشت کی حمل و نقل کے شبہ میں مسلمان تشدد کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں حالانکہ ماب لنچنگ پر سپریم کورٹ نے مرکز و ریاستوں کو سخت احکامات صادر کیے۔ اس کے باوجود مرکز کی مودی اور ریاستوں کی بھاجپا حکومتیں مسلم دشمن بھگوا دہشت گردوں پر لگام لگانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ حکومت گیارہ سالوں میں صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے مسلمانوں کی مذہبی، آئینی آور شہری آزادی پر قدغن لگانے کے لیے قانون سازی کا ہتھیار بھی استعمال کیا۔ بی جے پی صدر نڈا نے جب مودی حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی کا ذکر کیا تو انہیں ملک کو عالمی سطح پر شرمسار کرنے والے ان کرتوت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت ملک کی جو صورتحال ہے اسے پوری دنیا کے انصاف پسند تنقید کرتے ہوئے مودی حکومت سے سوال کر رہے ہیں۔ گزشتہ گیارہ برسوں میں امریکہ و یورپ کے متعدد ملک ہر برس مسلم مخالف جرائم اور نفرت انگیز معاملات پر اعداد و شمار کے ساتھ رپورٹس جاری کر رہے ہیں اس کے باوجود مودی حکومت ملک کی سیکولر شناخت پر کاری ضربیں لگارہی ہے۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے جب مودی حکومت کی گیارہ سالہ کارکردگی پر رپورٹ کارڈ پیش کیا تو اس کا فوری جواب کانگریس نے دیا۔ کانگریس سر براہ مالکار جن کھڑگے نے مودی حکومت کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے گیارہ سالہ دور اقتدار میں ملک کی جمہوریت ، معیشت اور سماجی تانے بانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ معیشت کا حوالہ دیتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ مودی حکومت نے جی ڈی پی شرح ترقی کو 6-5 فیصد کی عادت ڈال دی جو یو پی اے کے دوران آٹھ فیصد اوسطاً ہوا کرتی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کا ذکر کرتے ہوئے کھڑگے نے کہا کہ مودی حکومت جمہوریت کو کمزور کر رہی ہے۔ غیر بی جے پی ریاستوں کے ساتھ سوتیلے سلوک پربھی کھڑکے نے مودی حکومت کو ہدف تنقید بنایا۔ کانگریس سربراہ نے الزام عائد کیا کہ سماج میں نفرت، دھمکی اور خوف کا ماحول پھیلانے کی کوششیں لگا تار جاری ہیں۔ دلت، قبائلی، پسماندہ، اقلیت و کمزور طبقات کا استحصال مستقل بڑھ رہا ہے۔ کانگریس صدر نے یہ بھی کہا کہ منی پور کا نہ تھمنے والا تشد د بی جے پی کی حکومتی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ملک میں بیروزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی عام شہری کی زندگی اجیرن کر رہ رہی ہے۔
*کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت یو.پی
iftikharahmadquadri@gmail.com