رمضان میں تراویح کی روحانی اہمیت

فرض روزوں اور مختلف مسنون عبادات سے بھر پور برکتوں اور خوشحالیوں والے ایام لے کر رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ہم پر سایہ فگن ہوچکاہے۔ ان عبادات میں سے"نماز تراویح "رمضان المبارک کے دوران ادا کی جانے والی سب سے زیادہ بابرکت عبادات میں سے ایک ہے۔ علمائے کرام نے اسے 'قیام رمضان' کے طور پر متعارف کرایا ہے، جو اس مقدس ماہ کی شب میں خصوصی طور پر ادا کی جانے والی ایک عظیم سنت نماز ہے۔
 یہ ضروری ہے کہ تراویح کو محض ایک رسم کے طور پر نہ دیکھا جائے۔ بلکہ روزے داروں کے لیے یہ ایک خاص فضیلت اور اجر و ثواب کی حامل عبادت ہے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺکا فرمانِ عظمت نشان ہے کہ:"جس نے رمضان کا قیام ایمان کے ساتھ اور اس کا اجر طلب کرتے ہوئے کیا تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے" (بخاری، مسلم، ترمذی)۔ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کے روزے فرض کیے ہیں اور نمازتراویح کو سنت کے طور پر قائم کیا ہے(نسائی)۔ جو لوگ ایمان کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور اجر کے طالب ہوتے ہیں ان سے بخشش کا وعدہ کیا جاتا ہے، اللہ عزوجل انہیں اس دن کی طرح معصوم اور پاکیزہ بناتا ہے جس دن ان کی ماؤں نے انہیں جنم دیا تھا۔ امام نووی اور علامہ کرمانی جیسے علماء نے تصریح کی ہے کہ ان احادیث میں مذکور نماز خاص" تراویح" ہے۔
 یہ عبادت رمضان میں عشاء کی نماز کے بعد اور فجر سے پہلے اداکی جاتی ہے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے باجماعت نماز ِتراويح کی اجازت دی گئی ہے، خواتین کو گھروں میں اور مردوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ تراویح، عربی لفظ 'ترویح' سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب آرام ہے، اس کا تاریخی تعلق مکہ کے ابتدائی مسلمانوں سے ہے جو آرام کے لیے تراویح کی چار رکعتوں کے بعد کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔
 اگرچہ تراویح فرض نہیں ہے، لیکن نبیﷺ نے اپنے پیروکاروں کو اس میں مشغول ہونے کی ترغیب دی۔ہجرت کے دوسرے یا تیسرے سال تراویح کی نماز کا آ  غاز ہوا۔خود آپ ﷺ نے مدینہ میں باضابطہ تین دن تراویح کی جماعت بھی قائم فرمائی تھی۔لیکن اس اندیشہ سے بعد کے دنوں میں جماعت میں شامل ہونا ترک فرمادیا کہ کہیں یہ نماز فرض نہ ہوجائے کہ لوگوں کو مشقت ہوگی، اسی لیے تین دن کے بعد سے جماعت نہیں کرائی۔
 ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کردہ واقعہ رسول اللہﷺ کے  محتاط انداز کو مزید واضح کرتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی، لوگوں نے آپ کے ساتھ پڑھی پھر دوسری رات کی نماز میں شرکا زیادہ ہوگئے، تیسری رات میں اور زیاد ہ ہوگئے، چوتھی رات میں آپ ﷺ نماز تراویح کے لیے مسجد تشریف نہیں لے گئے۔صبح ہوئی تو لوگوں نے دریافت کیا !آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ میں نے تمہارا ذوق و شوق دیکھ لیا  تهااس ڈر سے میں مسجد نہیں آیا کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے(مسلم)۔
 اس حدیث سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ مومنوں پر غیر ضروری بوجھ ڈالنے سے پرہیز کررہے تھے۔بعدہ آپ ﷺ کی آگے کی دنیوی زندگی میں پھر خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اورپھرخلیفہ دوم حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں نماز تراویح کا اہتمام مساجد میں باضابطہ جماعت کے ساتھ کبھی نہیں کیا گیا البتہ سبھی مومنین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اپنے اپنے گھروں میں یا مساجد میں فردا فردا  ادا کرتے یا کبھی دو دو چار چار لوگ جماعت بھی کرلیتے تھے۔
 سنہ 14 ہجری میں، خلیفہ دوم امير المؤمنين سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے دوسرے سال، آپ نے بیس رکعات میں تراویح کی نماز منظم طریقے سے جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم جاری کیا۔ بخاری شریف میں آتا ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ماہ رمضان المبارک کی ایک رات مسجد میں دیکھا کہ لوگ جدا جدا انداز میں تراویح ادا کررہے ہیں، کوئی اکیلا تو کچھ حضرات کسی کی اقتدا میں پڑھ رہے ہیں۔یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان سب کو ایک امام کے ساتھ جمع کردوں۔آپ نے اپنے ساتھیوں اور اکابر صحابہ سے مشورہ کرنے کے بعدسبھی کی متفقہ رائے سے یہ فیصلہ سنایا۔اور پھر صحابی رسول حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باجماعت نماز تراویح ادا کی جانے لگی۔
 علمائے جمہور کا اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات پر مشتمل ہونی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ، آپ کے صحابہ،  تابعین ائمہ و فقہائے دین متین سبھی کا اسی پر عمل ہے اسی پر اجماع امت ہے اور یہی سنت رسول ﷺ بھی ہے۔ بعض لوگ اس موضوع سے ناواقفیت کی وجہ سے غلطی سے تراویح کے نام پر صرف دو یا چار رکعتیں پڑھ لیتے ہیں۔ تاہم، اوّابین، تہجد اور ضحٰی جیسی نمازوں کے برعکس، جن کی کم از کم دو رکعتیں درج ہیں، تراویح کے لیے کوئی کم از کم یا زیادہ سے زیادہ رکعتین متعین نہیں ہے۔ چاروں مذاہب میں اس بات پر اجماع ہے کہ تراویح بیس رکعات پر مشتمل ہے۔
 حضر ت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے (طبرانی)۔ ایک دوسرے مقام پر حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بھی روایت کرتے ہیں کہ ہم خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس رکعات تراویح اور وتر پڑھتے تھے (بیہقی)۔ایک اور مقام پریہ روایت ملتی ہے کہ خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں تراویح کی رکعتوں میں سینکڑوں قرآنی آیات کی طویل تلاوت ہوتی تھی اور لوگ قیا م کے لمبا (طویل) ہونے کی وجہ سے خود کو سہارا دینے کے لیے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے تھے۔
 امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف ''شرح المہذب'' میں بیان کرتے ہوئے زیر بحث حدیث کی سند کی توثیق کی ہے کہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے امام بیہقی رضی اللہ عنہ اور دیگر کے ذریعے جو حدیث روایت کی ہے اس کی تائید معتبر راویوں سے ہوتی ہے۔علم حدیث کے ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ کرام کے قول و فعل کو ان معاملات میں حضورﷺ سے منسوب کیا جا سکتا ہے جن میں وسیع تحقیق ممکن نہ ہو۔ چونکہ تراویح کی رکعتوں کی صحیح تعداد نبی اکرم ﷺسے قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، اس لیے بیس رکعات پڑھنے پر صحابہ کرام کا اجماع نبیﷺکے اپنے عمل کی عکاسی کے طور پر مانا جانا چاہیے۔
  تراویح میں بیس رکعات نہ ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کی جانے والی بنیادی حدیث یہ ہے جس میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ ماہِ رمضان المبارک ہو یا کوئی اور مہینہ ہو آپ ﷺ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں بڑھاتے تھے۔اس حدیث کے ابتدائی حصے میں ''رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ ہو'' کے ذکر سے یہ سمجھ آتا ہے اس حدیث کا تعلق خاص طور سے تہجد و وتر سے متعلق ہے، کیونکہ علمائے جمہور کے مطابق رمضان کے علاوہ اور کسی مہینے میں تراویح الگ سے ادانہیں کی جاتی۔
 یہاں تک کہ ابن تیمیہ نے بھی امیر المؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قائم ہونے والے رواج کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ:حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے ساتھ بیس رکعت نمازتراویح پڑھائی تھی اور یہ عمل انصار اور مہاجرین صحابہ کرام نے بغیر کسی اعتراض کے قبول کیا تھا۔(مجموع الفتاویٰ)۔
 اس ماہ ِ مقدس میں مومنین کو چاہیے کہ نماز ِتراویح کو محض ایک عام عبادت یا رسم کے طور پرنہ دیکھے بلکہ اس کا احترام و التزام کرے نیز اس بات کو مد نظر رکھے کہ اس ماہ مبار ک میں مومنین کو ان کے اچھے اعمال کے بدلے کئی گنا انعامات دیے جاتے ہیں۔ ایک روزہ دار مومن کو چاہیے کہ وہ حالت روزہ میں نیک اعمال کرکے دن گزار کر اللہ کا قرب حاصل کرے اور رات کو تراویح کے ذریعے اپنی عبادت میں حِدّت لائے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ رمضان المبارک کی قیام اللیل سے پچھلے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے۔ اسی طرح تراویح میں مشغول ہونا ماضی کے گناہوں کو مٹانے اور ایک پاک روح کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کرنے کا سنہری موقع فراہم کرتا ہے۔
 ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اس کے رسول ہیں، میں پنجگانہ نمازوں کی پابندی کرتا ہوں، زکوٰۃ دیتا ہوں اور رمضان میں روزے رکھتا ہوں اور نماز تراویح ادا کرتا ہوں؟ تو میرا شمار کن لوگوں میں ہوگا؟۔'' نبی اکرم ﷺ کا جواب، جیسا کہ ابن حبان نے درج کیا ہے، یہ تھا: ''آپ کا شمار شہیدوں اور صالحین میں سے ہے'' (ابن حبان)۔
 روزے رکھنے اور نماز تراویح قائم کرنے کا عمل خالق کی طرف سے ایک وعدہ رکھتا ہے، جو اس پر عمل کرنے والوں کو صادقین (صدیق) اور شہداء کے مرتبے پر فائز کرتا ہے، جنہیں نبوت کے بعد اعلیٰ ترین درجہ شمار کیا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز تراویح ماضی اور مستقبل کی روحانی کوششوں کو تقویت بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
 مومنوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اس ماہ مقدس کی اس نیک عبادت (نماز تراویح) میں روزانہ ذوق وشوق کے ساتھ شامل ہوں۔ مساجد میں نماز تراویح کی طوالت اورزیادہ سے زیادہ قرآنی آیات کی تلاوت ہمیں قرآن مجید میں موجود گہرے افکار اور اسباق کے بارے میں سوچنے پرابھارتی ہیں۔ تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حافظین قرآن کو ماہ رمضان میں امام کے طور پر نماز تراویح کی امامت کے لیے مدعو کرنا شروع کیا تھا۔
 ہندوستان کی مختلف ریاستوں اور مختلف عربی و غیر عربی ممالک میں نماز تراویح کے دوران محسوس ہونے والے ناقابل بیان جذبات اس روحانی عبادت کی عالمگیر اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ امیدہے کہ یہ رمضان تراویح کی بھر پورادائیگی کے ذریعے برکت والا ہو گا، جس سے مومنین کی روحانی اور جسمانی تربیت بھی ہو گی۔
 مصنف کے بارے میں: ڈاکٹر بہاؤالدین محمدفیضی شاذلی، جنوبی ہندوستان کے صوبہ کیرالا سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز اسلامک اسکالر ہے۔حینئذٍ وہ دارالہدیٰ اسلامك یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر (شیخ الجامعہ)کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ شیخ الجامعہ کو اسلامی تعلیم میں تجدید ی   کوششوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان کی علمی خدمات میں مختلف دینی و علمی موضوعات پرتصنیف کردہ کتابیں بشمول ملیالم میں قرآن کا ترجمہ اور دنیا بھر میں لیکچرز دینا شامل ہیں۔ وہ کئی مذہبی رسالوں کے ایڈیٹر انچیف بھی رہ چکے ہیں۔ شیخ الجامعہ متعدد زبانوں پر عبو ر رکھتے ہیں اور آپ کا شمار ملک و بیرون ملک کے  ماہرین تعلیم میں ہوتا ہے۔ ''دی مسلم 500'' کی اشاعت کے مطابق آپ گذشتہ بارہ سالوں سے مسلسل دنیا کے 500 بااثر عظیم مسلم شخصیات میں شامل ہیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter