صالح اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لیے چند رہنما خطوط (چھٹویں قسط)
نکاح کی فضیلت اور وقت پے بچوں کی شادی نہ کرنے کا خطرناک انجام
نکاح نسل انسانی کی افزائش کا نہ صرف یہ کہ ایک طیب و طاہر, حلال اور پاکیزہ ذریعہ ہے بلکہ یہ مرد و زن کی تسکین و قرار, مؤدت و محبت اور باہمی سکون و اطمینان کا باعث بھی ہے. محنت و مزدوری, صنعت و حرفت, کاروبار تجارت اور دیگر مشاغل سے تھکا ماندہ انسان جب شام کو گھر پہنچتا ہے تو بیوی کی مسکراہٹ اس کی دن بھر کی تکان, سستی اور ماندگی کو اگر ختم نہیں تو کافی حد تک کم ضرور کردیتی ہے پھر جب تھکا ماندہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ رات گزارتا ہے تو صبح کو وہ تازہ دم ہو کر نئے جوش و خروش, اور حوصلے کے ساتھ طلب معاش کے لیے نکل پڑتا ہے اس طرح وہ ایک آسودہ, راحت و آرام اور خوشحال زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے.
قرآن مقدس نے بھی مرد و زن کی تخلیق کو ایک دوسرے کے لیے راحت و آرام اور باہمی محبت و الفت کا باعث قرار دیا ہے, اللہ تعالٰی فرماتا ہے :
"وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ " (الروم, الآیۃ :21)
اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی بیشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے (کنز الایمان)
قرآن مقدس میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر نکاح کا حکم اور ترغیب دی ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ہے :
"وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۳۲﴾ " (النور, الآیۃ : 32)
اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انھیں غنی کر دے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔(کنز الایمان)
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ نکاح کرنے اور کرانے کا حکم دیا ہے بلکہ اس کی برکت سے رزق میں وسعت اور کشادگی کا وعدہ بھی فرمایا ہے.
ہم نے بہت سے لڑکوں کو شادی سے پہلے بے روزگار ، ادھر ادھر آوارا گردی کرتے ہوئے دیکھا لیکن جب انھوں نے اللہ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شادی کرلی اور رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے تو پروردگار نے غیب سے ان کے رزق کے اسباب پیدا کردیے آج وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں.
نکاح اللہ کا حکم اور قانون فطرت ہی نہیں ہے بلکہ یہ انبیاے کرام اور اسلاف عظام کی سنت قدیمہ بھی ہے. اللہ فرماتا ہے :
وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلًا مِّنۡ قَبۡلِکَ وَ جَعَلۡنَا لَہُمۡ اَزۡوَاجًا وَّ ذُرِّیَّۃً ؕ. (الرعد, الآیۃ: 38)
اور بے شک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیبیاں اور بچے کیے (کنز الایمان)
نکاح کی خواہش اور بال بچوں کی طلب کو اللہ نے اپنے صالح اور نیک بندوں کے اوصاف میں شمار کیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے :
"وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾" (الفرقان ، الآیۃ:74)
اور وہ جو عرض کرتے ہیں ، اے ہمارے رب! ہمیں دے ہماری بیبیوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (کنز الایمان)
اس کے مابعد آیت نمبر 75 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نکاح کی خواہش اور بال بچوں کی طلب کرنے والے نیک بندوں پر اپنے خصوصی انعام اور فضل و کرم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انھیں جنت کا سب سے اونچا بالا خانہ انعام میں دیا جائے گا.
آپ اگر قرآن کی ان آ یات پر غور کریں جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگی کہ اللہ نے قرآن پاک میں انھیں انبیائے کرام کا تذکرہ فرمایا ہے جنہوں نے نکاح کیا اور صاحب اہل و عیال ہوئے گو کہ بڑھاپے میں ہی سہی حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اقامت سنت کے لیے نکاح کیا البتہ انھوں نے صحبت نہیں کی حضرت عیسٰی علیہ السلام قرب قیامت میں جب دوبارہ نزول فرمائیں گے تو وہ بھی اس سنت کی متابعت کریں گے اور اللہ انہیں ایک فرزند بھی عطا کرے گا.
(انیس الواعظین, المجلس السابع و الثلثون فی فضیلۃ النکاح و ما یتعلق بھا)
حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
"من نکح للہ و انکح للہ استحق ولایۃ اللہ." (احیا ء علوم الدین, کتاب النکاح)
جس نے اللہ کی رضا کے لیے شادی کی یا شادی کرائی وہ اللہ کی ولایت (قرب) کا مستحق ہوگیا.
وسعت کے باوجود تجرد کی زندگی گزارنے والوں پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام یوں وعید فرماتے ہیں :
"من ترک التزویج مخافۃ العیلۃ فلیس منا" ( کنز الحق المبین, حرف المیم, ص 325)
مفلسی کے خوف سے جس نے شادی نہیں کی وہ ہمارے طریقے پر نہیں ہے.
ایک حدیث میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
"مسکین مسکین رجل لیس لہ امرأۃ و ان کان غنیا من المال مسکینۃ مسکینۃ امرأۃ لا زوج لھا و ان کان غنیۃ من المال."
وہ آدمی جس کی بیوی نہ ہو مسکین ہے مسکین ہے اگرچہ وہ از روئے مال غنی ہو اور وہ عورت جس کا شوہر نہ ہو مسکین ہے مسکین ہے اگرچہ وہ مال کے اعتبار سے خوشحال ہو.اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے :
"رکعۃ من المتزوج افضل من سبعین رکعۃ من العزب"
(کنز العمال ج 16,ص 277)
شادی شدہ کی ایک رکعت نماز مجرد کی ستر رکعت نماز سے افضل ہے.
اسی طرح ایک حدیث میں ہے : "علی العاقل ان یکون لہ ثلث ساعات ,ساعۃ یناجی ربہ و ساعۃ یحاسب فیھا نفسہ و ساعۃ یخل لطعمہ و شربہ و مباشرتہ فان فی ھذہ الساعۃ عون علی تلک الساعۃ"
عاقل پر لازم ہے کہ اس کے لیے تین ساعتیں ہوں ایک ساعت میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں مناجات کرے, ایک ساعت میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور ایک ساعت کو اپنے کھانے پینے اور مباشرت کے لیے خالی رکھے اس ساعت میں ان ساعات پر مدد ہے.
حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
حبب الی من دنیاکم ثلث, الطیب والنساء وقرۃ عینی فی الصلوٰۃ
مجھے تمہاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں خوشبو ,عورتیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.
اسلام میں رہبانیت اور غیر شادی شدہ زندگی گزارنے کا کوئی تصور نہیں ہے جیسا کہ بخاری و مسلم میں یہ حدیث ہے کہ جب تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا کہ میں ہمیشہ ساری ساری رات نمازیں پڑھوں گا,دوسرے نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا, اور تیسرے نے کہا :میں عورتوں سے کنارہ کش رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے فرمایا :خبردار! اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں لیکن میں روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا ہوں, رات میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور شادی بھی کرتا ہوں (پس یہ سارے کام میری سنت ہیں) فمن رغب عن سنتی فلیس منی، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی مجھ سے اس کا تعلق نہیں ہے.
(بخاری کتاب النکاح, باب ترغیب فی النکاح, مسلم کتاب النکاح, باب استحباب النکاح)
اقوال صحابہ اور ان کے عمل سے بھی نکاح کی ترغیب ملتی ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : لایتم تمسک الناسک حتی یتزوج
عابد و زاہد انسان کا تمسک اس وقت تک مکمل نہیں ہو گا جب تک کہ وہ شادی نہ کرلے.
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : لو لم یبق من عمری الا عشرۃ ایام لاحب ان یتزوج لا القی اللہ عزبا.
اگر میری عمر میں سے صرف دس دن باقی رہ جائیں جب بھی میں شادی کرنا پسند کروں گا تاکہ اللہ سے میں تجرد کی صورت میں ملاقات نہ کروں
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے عقد میں دو بیویاں تھیں جب دونوں فوت ہو گئیں تو آپ نے فرمایا : زوجونی فانی اکرہ القی اللہ عزبا
میری شادی کردو میں اس بات کو برا جانتا ہوں کہ اللہ سے تجرد کے عالم میں ملاقات کروں
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :لایمتنع النکاح الا ھجرا او فجورا. نکاح سے صرف ہجر (بیوی بچوں سے لاتعلق رہنے والے) اور فاسق ہی باز رہتے ہیں.
فقہی احکام :
ماقبل کی آیات, احادیث, اور اقوال صحابہ سے یہ مبرہن ہوگیا کہ نکاح حکم الٰہی کی تعمیل اور انبیائے کرام با لخصوص ہمارے آقا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت ہے البتہ اگر شہوت کا اس قدر غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرنے سے زنا کا اندیشہ ہے اور مہر کی ادائیگی اور نان و نفقہ پر بھی قدرت ہے تو نکاح واجب ہے اور اگر یہ یقین ہے کہ نکاح نہ کرنے سے زنا کا وقوع ہوجائے گا تو نکاح کرنا فرض ہے اور اگر یہ ڈر ہے کہ نکاح کرے گا تو نان و نفقہ نہیں دے سکے گا یا وظیفہ زوجیت کی ادائیگی نہیں کر پائے گا تو ایسی حالت میں نکاح کرنا مکروہ ہے اور اگر مذکورہ امور کا یقین ہے تو نکاح کرنا حرام ہے لیکن نکاح اگر کرلیا تو ہوجا ئے گا.
(قانون شریعت حصہ دوم ص 68 بحوالہ درمختار, ردالمحتار, بہار شریعت)
وقت پر شادی نہ کرنے کا خطرناک انجام :
آج ہمارا معاشرہ جو صدہا قسم کی برائیوں سے جوجھ رہا ہے، بد چلنی ، بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے، شرافت کے مقابلے میں آوارگی ، بے راہ روی بتدریج بڑھ رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہمارے لڑکے اور لڑکیاں، گھر ، خاندان اور خویش و اقارب کی عزت اور اسلامی غیرت و حمیت کو بالاے طاق رکھ کر غیر مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کے ساتھ فرار ہو رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی شادی میں غیر ضروری تاخیر ہے۔ بلوغت اور عہدِ شباب میں ان کی حرارت غریزی (قدرتی حرارت) مشتعل اور پرجوش ہوجاتی ہے ، نفسانی خواہشات پر وہ اپنا کنٹرول نہیں رکھ پاتے ہیں اور جب حلال ذرائع سے ان کی جنسی تسکین کا سامان فراہم نہیں ہوپاتا ہے ؛ تو وہ حرام ذرائع کو حاصل کرنے کے لیے بے خوف وخطر نارِ نمرود میں کود پڑتے ہیں۔ اس طرح وہ ماں ، باپ ، بھائی بہن ، گھر ، خاندان کی ذلت و رسوائی کا تو باعث بنتے ہی ہیں ؛ بسا اوقات پورے اسلامی معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیتے ہیں۔ آج جگہ جگہ جو ہمیں تاخت و تاراج کیا جارہا ہے، ہماری بستیوں میں آگ لگائی جارہی ہے ، دکانوں اور مکانوں کو خاکستر کیا جارہا ہے، مساجد و مدارس کی حرمتیں پامال ہورہی ہیں ، سرِ راہ ہمیں مارا اور پیٹا جارہا ہے ، اس میں جہاں مسلم دشمنی کے ناپاک جذبات کارفرما ہیں ؛ وہیں پر ہمارے بچوں کا بغیر نکاح کے ازدواجی تعلقات کا قائم کرنا بھی ہے۔ ہم اگر اپنے لڑکے اور لڑکیوں کی وقت پر شادی کردیں تو بہت ساری مصیبتوں سے ہمیں نجات مل سکتی ہے اور ہم سماج میں ایک باعزت زندگی گزارنے کے قابل بن سکتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی گناہ سے بچا سکتے ہیں۔
حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
" حق الولد علی والدہ ان یحسن اسمہ و یعلمہ الکتابۃ ویزوجہ اذا ادرک" (الترغیب والترہیب، ج: 1، ص: 350، دار الحدیث ، القاھرہ)
والدین پر اولاد کا یہ حق ہے کہ جب وہ پیدا ہوں تو ان کا اچھا اور اسلامی نام رکھیں اور جب وہ پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجائیں تو انھیں تعلیم دیں اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کی شادی کردیں۔
اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اگر ہم وقت پر اپنے بچوں کا نکاح کردیں تو کسی غیر کی طرف نظرِ بد سے دیکھنے کے امکانات کافی حد تک کم ہوجائیں گے۔ پھر بھی اگر ہمارے بچوں کا کسی پر دل آگیا تو ہم اس خیالِ بد کو دور کرنے کے لیے حدیثِ رسول کا یہ نسخہ تجویز کریں گے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا : "جب کسی کو کوئی عورت اچھی معلوم ہو اور اس کے دل میں اس کا خیال آئے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی سے جماع کرے۔ اس سے وہ بات جاتی رہے گی جو اس کے دل میں ہے۔" (مسلم ، ج: 1، کتاب النکاح/ باب ندب من رأی امرأۃ الخ ، ص: 449)
خود حضور ﷺ کا بھی یہی عمل رہا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: "آپ ﷺ کی ایک عورت پر نظر پڑ گئی تو آپ اپنی بیوی ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے وہ دباغت کی غرض سے ایک چمڑے کو مل رہی تھیں؛ آپ نے ان سے اپنی حاجت پوری فرمائی ۔ پھر اپنے صحابہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: "جب عورت سامنے آتی ہے تو شیطان کی صورت میں آتی ہے اور جب جاتی ہے تو شیطان کی صورت میں جاتی ہے۔ جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس آئے (جماع کرے) اس عمل سے اس کے دل کا خیال جاتا رہے گا"(ایضا)
ان احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب آدمی کسی عورت کو دیکھے اور اس کے جنسی جذبات بھڑک اٹھیں تو اسے چاہیے کہ اپنی بیوی کی طرف مراجعت کرے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ وہ شادی شدہ ہو اور اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا کہ عورت شیطان کی صورت میں آتی اور جاتی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ حقیقتاً شیطان ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت شہوانی جذبات کے اشتعال کا باعث ہے۔ اس لیے کہ عورت کی طرف میلان اور اس کی رویت سے تلذذ مرد کی فطرت میں داخل ہے اور یہ شیطان کے مشابہ ہے جو لوگوں کو شر کی دعوت اور فتنہ و فساد کی ترغیب دیتا ہے جیسا کہ اس حدیث کی شرح میں
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"قال العلماء : معناہ الاشارۃ الی الھویٰ والدعا الی الفتنۃ بھا لما جعلہ اللہ تعالیٰ فی نفوس الرجال من المیل الی النساء و الالتذاذ بنظرھن و ما یتعلق بھن فھی شبیھۃ بالشیطان فی دعائہ الی الشر " (شرح مسلم للنووی ،ج: 1، ص: 449)
اسی لیے حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
"من تزوج فقد احرز شطر دینہ فلیتق اللہ فی الشطر الثانی" (احیاء علوم الدین، کتاب آداب النکاح)
جس نے نکاح کرلیا اس نے اپنے دین کا ایک حصہ محفوظ کرلیا، پس اسے چاہیے کہ وہ دوسرے حصے میں اللہ سے ڈرے۔
الفاظ کے قدرے تغیر کے ساتھ یہ حدیث اس طرح بھی مروی ہے :
"من نکح فقد حصن نصف دینہ فلیتق اللہ فی الشط الآخر " (اتحاف السادہ ، کتاب آداب النکاح/ الباب الاول ، دار الکتب العلمیہ بیروت)
شادی سے پہلے چاہیے کہ لڑکا بذات خود لڑکی دیکھ لے
شادی سے قبل لڑکے کا لڑکی کو دیکھنے کا مطالبہ ہرچند کہ سماج میں معیوب سمجھا جاتا ہے ؛ لیکن نتائج کے اعتبار سے بھلائی اور خیر اسی میں ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو کم از کم ایک بار دیکھ لیں بالخصوص لڑکے کو لڑکی ضرور دکھا دی جائے اور اگر لڑکا بذاتِ خود نہیں دیکھنا چاہتا ہے ؛ تو اس کے گھر کی دو تین عورتیں ؛ جن پر اسے پورا بھروسا ہو دیکھنے کے لیے جائیں تاکہ شادی کے بعد کسی طرح کی ناپسندیدگی ، ناچاقی اور تلخی نہ ہو۔
آج مسلم معاشرے میں لڑکی دیکھنے کا جو رواج چل پڑا ہے؛ اللہ کی پناہ! لڑکے والے اپنے گھر اور خویش و اقارب کی ایک بارات لے کر لڑکی کے گھر آدھمکتے ہیں اور پھر ہزاروں روپیے خرچ کروانے کے بعد گھر جاکر نفی میں جواب دے دیتے ہیں ۔ اس طرح لڑکی دکھانے میں ہی غریب باپ کا ہزاروں روپیے کا چونا لگ جاتا ہے اور انکار کے بعد لڑکی کے دل و دماغ پر جو اس کا منفی اثر مرتب ہوتا ہے؛ وہ الگ ہے۔ کچھ شریف زادے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ دس گھروں کا پانی نہیں پی لیتے ہیں اور ہزاروں روپیے کی لاگت سے قسم قسم کے پکوان سے اپنا پیٹ نہیں بھر لیتے ان کے شکم میں ایک طرح کا مروڑ سا رہتا ہے وہ صرف اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ لڑکی کے سراپا اور قد و قامت کا آگے ، پیچھے ، دائیں اور بائیں سے کئی بار جائزہ لیتے ہیں یہاں تک کہ اس کے قد تک کی پیماش کرنے میں نہیں ہچکچاتے اور اس کا اس طرح انٹرویو کرتے ہیں کہ سول سروسز کے اگزامنر بھی ہاتھ جوڑلیں۔
مسلمانو! کچھ تو شرم کرو! جب کسی کی لڑکی دیکھنے جاؤ تو کم از کم یہ بھی تو ذہن میں رکھو کہ ہمارے گھر کی بچیاں بھی اپنے خوابوں کے شہزادے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ اگر انھیں بھی اسی طرز عمل کا سامنا ہو تو تم پر کیا گزرے گی ؟ تم یہ سب کچھ کیسے گوارا کرو گے ؟ اگر تم کسی غریب اور اس کی لڑکی کے ساتھ اس ناروا سلوک کے مرتکب ہوگے ؛ تو یاد رکھنا تمھارے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوسکتا ہے اور پھر تمھاری بچیوں کے ایامِ بہاراں آرزو اور انتظار میں ہی کٹ جائیں گے۔اس لیے کہ "کما تدین تدان" جیسا کرو گے ؛ ویسا بھرو گے، الہی قانون ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ تمھارا لڑکا بذاتِ خود خاموشی کے ساتھ لڑکی دیکھ لے اور اس کے لیے ایسی صورت نکالی جائے کہ لڑکی کو خبر بھی نہ ہونے پائے کہ ہمیں نکاح کے ارادے سے کوئی دیکھ رہا ہے اگر پسند ہے تو پھر قدم آگے بڑھائے ورنہ خاموش رہے۔
اللہ تعالیٰ تبارک و تعالیٰ کا یہی حکم ہے کہ اپنی پسند کی لڑکی سے شادی کرو!
جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں ہے :
"فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ" (النساء، الآیۃ : 3)
فرمانِ رسالت ﷺ بھی یہی کہ ناکح نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں بارگاہِ رسالت ﷺ میں حاضر تھا ایک آدمی آیا اور آپ کو یہ خبر دی کہ اس نے ایک انصاریہ عورت سے عقد کیا ہے۔آپ نے اس سے فرمایا: "ا نظرت الیھا ؟ " کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟( مسلم 1 کتاب النکاح/ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الخ ص: 456)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت سے شادی کا ارادہ ہے ناکح کے لیے اس کے چہرے کا دیکھنا مستحب ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ ، فقہاے کوفہ ، شوافع اور مالکیہ کا یہی مذہب ہے۔
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ناکح کے لیے نکاح کے پہلے عورت کے صرف چہرے اور ہتھیلی کا دیکھنا مباح ہے۔ اس لیے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلی شرم گاہ میں داخل نہیں ہیں اور عورت کے چہرے اور ہتھیلی سے اس کے حسن و جمال کا اندازہ ہوجاتاہے یہی اکثر فقہا اور شوافع کا مذہب ہے۔ (شرح مسلم للنووی ، ص: 456)
دین دار صالح عورت سے نکاح کرنا مستحب ہے :
آج کل رشہ تلاش کرنے میں عموما مال و دولت اور حسن و جمال کو دیکھا جاتا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو یہ پتا لگائے کہ عورت صوم و صلاۃ کی پابند، نیک اور صالح ہے یا نہیں ؟ مال اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ جہیز کی صورت میں گھر میں بغیر محنت کے دولت آجائے گی اور ہم اس پر آرام سے گزارا کریں گے۔ اور حسن و جمال اس لیے دیکھا جاتا ہے کہ یہ طبعی کشش کا باعث ہے۔ لیکن حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ : تم دین دار عورت سے شادی کرو! یعنی دین داری کو مال و دولت ، حسن و جمال اور حسب و نسب پر مقدم رکھو! جیسا کہ اس حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ راوی ہیں ، بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا : عورت سے چار سبب سے نکاح کیا جاتا ہے : مال، حسب ، جمال اور دین داری تم دین داری پر فتح حاصل کرو۔(مسلم ، ج: 1، باب استحباب نکاح ذات الدین )
اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دین داری کو ترجیح دو اس لیے کہ دین دار عورت کی صحبت ، حسنِ خلق اور حسنِ معاشرت کا باعث ہوتی ہے اور اس سے نیک اور صالح اولاد جنم لیتی ہے اور شوہر دنیوی و دینی فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور اگر دین داری کے ساتھ دیگر تین چیزیں بھی عورت میں پائی جاتی ہیں تو یہ نور علی نور ہے۔
حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:" المرأۃ الصالحۃ خیر من الف رجل غیر صالح"
پارسا عورت ہزار مرد غیر صالح سے بہتر ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: پارسا عورت دین کا ستون ہے اور شوہر کے سر پر چھتری ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نیک اور پارسا عورت جو دین میں مددگار ہو ؛ مرد کو بادشاہ بنا دیتی ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایمان کے بعد کسی کو صالح عورت سے بہتر کوئی اور چیز نہیں دی گئی ہے۔ حضرت محمد قرظی رحمۃ اللہ علیہ "ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ " کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ: دنیا کی "حسنہ" پارسا اور نیک عورت ہے۔
(انیس الواعظین، المجلس السابع و الثلثوں فی فضیلۃ النکاح و مایتعلق)
لڑکی کا رشتہ نہایت احتیاط اور نیک خصلت لڑکے کے ساتھ کرنا چاہیے۔
جس طرح لڑکے کے لیے دین دار عورت کا انتخاب بہتر ہے اسی طرح لڑکی کے لیے بھی شریف ، نیک طینت اور نیک خصلت لڑکا تلاش کرنا چاہیے لھذا لڑکی والوں کو چاہیے کہ وہ نہایت احتیاط کے ساتھ لڑکی کا رشتہ طے کریں۔ حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: " النکاح رق فلینظر احدکم این یضع کریمتہ "
نکاح مملوک بنادیتا ہے لھذا تم میں ہر کوئی یہ دیکھ لے کہ اپنی لڑکی کہاں ڈالتا ہے؟
فاسق و فاجر لڑکے کے ساتھ اپنی لڑکی کی شادی نہیں کرنی چاہیے اس لیے کہ حدیث میں ممانعت ہے۔
حضور ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: "من زوج کریمتہ من فاسق قطع رحمھا" جس نے اپنی لڑکی فاسق سے بیاہی اس نے اس سے اپنا رشتہ ختم کرلیا۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا : جس نے اپنی لڑکی فاسق کو دی اس نے اللہ کی امانت میں خیانت کی اور خیانت کرنے والا دوزخ کا سزاوار ہے ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا : جس نے اپنی لڑکی فاسق کو دی عند اللہ وہ ملعون ہے۔
(انیس الواعظین ، کتاب النکاح)