بامبے ہائی کورٹ کا فیصلہ، نفرت کا کاروبار کرنے والے نیوز چینلز کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ

تبلیغی جماعت کے ممبروں کے لیے فروری اور مارچ کے درمیان  ہندوستان کا سفر نہایت ہی خوفناک ثابت ہوا اور ان میں سے کسی کو بھی آنے والے دنوں کی ہولناکی کا اندازہ نہیں تھا۔

سال کے کچھ  مخصوص دنوں میں اسلامی مشنری جماعت کا دہلی کی تنگ گلیوں میں واقع صدر دفتر ، جو ایک پانچ منزلہ عمارت ہے، کھچا کھچ بھرا ہوا  ہوتاہے اور زائرین و مشترکین کی ریل پیل ہوا کرتی ہے۔

مگر اس سال مارچ کے  مہینے میں ایسی خبریں ملنے لگیں کہ ان لوگوں میں سے کچھ کورونا وائرس کے مریض ہیں، جسکے بعد  22 مارچ کے دن حکام نے اس دفتر پر قفل لگا دیا اور 2500  افراد کو اسکے اندر ہی  قید کردیا۔ اس واقعے کے بعد ملک بھر میں  تبلیغی جماعت کے  خلاف  پروپیگنڈے کیے جانے  لگے  اور اسکی  آڑ میں  مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ طرح طرح کے جعلی ویڈیوز منظرعام پر آنے لگے  اور متعدد سرخیاں سننے کو ملیں۔

پچھلے کچھ دنوں میں ان تمام اقدامات کے پیچھے چھپی ہوئی سازشیں بے نقاب ہوچکی ہیں اور وہ لوگ جو کبھی ان خبروں کے جھانسے میں آگئے تھے، انکے گھنونے ہدف کے بارے میں جان کر خود کو کوسے بغیر نہیں رہ پا رہے ہیں۔

جمعہ کے روز ، بامبے ہائی کورٹ نے 35 درخواست گزاروں کے خلاف تین ایف آئی آرزکو کالعدم قراردےدیا جن میں سے 29 غیر ملکی شہری ہیں،  جو مارچ میں دہلی کے نظام الدین میں تبلیغی جماعت کے جلسے  میں شریک ہوئے اور وہاں سے انہوں نے ہندوستان کے مختلف حصوں کا سفر کیا۔

انھیں انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 1860 کے تحت متعدد الزامات کا سامنا کرنا پڑا ، ان میں "سرکاری ملازمین کے ذریعہ نافذ کیے گئےحکم کی نافرمانی" (سیکشن 188) ، "لاپرواہی " سے متعدی بیماری پھیلنے کا امکان پیدا کرنا (سیکشن 269) ، "ایسا مہلک کام جس سے بیماری پھیلنے کا امکان ہو،"عوام کی پریشانی کا سبب بننا" (دفعہ 290) سمیت دیگر دفعات عائد کی گئی تھیں۔

ایڈوکیٹ مظہر جہانگیردار  ، جنہوں نے متعدد عازمین کی نمائندگی کی ہے، نے عدالت میں کہا کہ" ہم مہمانوں کا احترام کرنے میں یقین رکھتے ہیں لیکن ان لوگوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ان کے مؤکلوں کو انکے خلاف چارج شیٹ داخل ہونے سے قبل 60 دن تک مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع کی مختلف جیلوں میں نظربند کیا گیا تھا۔

جعلی دعوے

عدالت نے بھی ان سے اتفاق کیا اور کہا  کہ "ایک سیاسی حکومت وبائی مرض یا آفات کی صورت میں بلی کا بکرا تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور حالات ظاہر کرتے ہیں کہ ممکن ہے  ان غیر ملکیوں کو بلی کا بکرا بنانے کے لئے ان کا انتخاب کیا گیا تھا۔ مذکورہ بالا حالات اور ہندوستان میں انفیکشن کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ موجودہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے تھی۔"

یاد رہے کہ اس بات سے عدالت نے ان رپورٹس کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں پتہ چلا کہ تبلیغی جماعت کی وجہ سے ملک بھر میں کورونا وائرس پھیلنے کا اب تک کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔  11 اپریل کو مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ نے وزیراعظم کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا تھا کہ ہماری ریاست میں حالات کافی بہتر تھے، مگر جب سے تبلیغی جماعت کے مرکز سے لوگ لوٹے ہیں، انفکشن میں واضح فرق دیکھا گیا ہے اور اب ان کی وجہ سے حالات مشکل ہوتے جارہے ہیں۔

مگر جب نیوز ایجنسیوں نے اس بات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ بات سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

اندور میں مہاتما گاندھی میموریل میڈیکل کالج کے راہل روکڑے نے فون پر انادولو ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس بھوپال اور اندور میں وبائی بیماری کے تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے کے لئے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔

"ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جماعت کے ممبروں نے مدھیہ پردیش میں کورونا کیسوں میں اضافہ کیا ہے" انہوں نے مزید کہا۔

عدالت نے پوچھا کہ کیا واقعی میں ہندوستان نے اس مقبول اعتقاد "اتھیدی دیو بھاوا" (مہمان خدا ہے) پر عمل کیا ؟، اور کیا ہم نے "اپنی عظیم روایت اور ثقافت "کے مطابق کام کیا ہے؟

جسٹس ٹی وی نلاوڈے نے اپنے فیصلے میں کہا، "کووڈ 19 کی پیدا کردہ صورتحال کے دوران ہمیں زیادہ رواداری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہمیں اپنے مہمانوں کے لئے  زیادہ حساس ہونا  چاہیے۔ ان پر لگائے گئے الزامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی مدد کرنے کے بجائے ، ہم نے ان پر الزام لگا کر جیلوں میں ڈال دیا کہ وہ سفری دستاویزات کی خلاف ورزی کے ذمہ دار ہیں ، وہ وائرس پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔"

شرمناک پروپیگنڈے

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی زائرین کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں "بڑے پروپیگنڈے" ہو ئے ہیں جس میں ان کو کوڈ 19 پھیلانے کا الزام لگایاگیا اور ان غیر ملکیوں کے خلاف عملی طور پر ظلم و ستم کیا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر انہیں مختلف ٹیگس اور ناموں کا استعمال کرکے نشانہ بنایا جانے لگا جن میں #کورونا جہاد جیسے ہیش ٹیگ شامل ہیں۔ اے بی پی لائیو جیسے ٹی وی نیوز چینلز نے جماعت کے ممبروں کو "منو بم" یعنی  انسانی بم کہا ، جس کا اظہار بی جے پی قائدین بشمول مہاراشٹرا کے سابق وزیر اعلی دیویندر فڈنویس نے بھی کیا۔ زی نیوز کے سدھیر چودھری نے اپنے شو پر کہا کہ "تبلیغی جماعت نے قوم کے ساتھ غداری کی ہے۔"

تبلیغی جماعت  ایک اصلاحی تحریک

جسٹس نلواڈے نے تبلیغی جماعت کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے ، اسے "اصلاحی تحریک" قرار دیا ،  انہوں نے کہا کہ یہ وہ تحریک ہے جسے مولانا محمد الیاس نے دہلی میں 1927 میں قائم کیا تھا اور یہ تحریک دیہات اور کسانوں میں مقبول ہے۔

ججوں نے کہا کہ اس معاملے میں حکومت کے اقدامات نے انہیں شکاگو میں عالمی مذہبی پارلیمنٹ میں سوامی ویویکانند کے 1893 کے خطاب کی یاد دلادی ہے۔ “انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز 'بہنوں اور بھائیوں' جیسے الفاظ سے کیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ آفاقی بھائی چارے پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ تمام مذاہب سچے ہیں "۔

بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کا ملک کے مختلف علاقوں سے خیر مقدم کیا گیا اور لوگوں نے مذہبی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر اسے تسلیم کیا۔ کافی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ فیصلہ ہندوستان کی تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا اور اس سے ہندوستانی قوم کی اخوت اور بھائی چارے کا پیغام دنیا بھر میں عام ہوگا۔

محمد حسن ہدوی،

پوسٹ گریجویٹ، دارالہدی اسلامک یونیورسٹی،

لیکچرار، قوت الاسلام عربی کالج، ممبئی۔

E-mail: ontactinghasan@gmail.com

فون نمبر: 8788395839

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter