روزہ کے طبی فوائد پر جدید سائنس کی شہادات

رب کریم کے  بے شمار احسانات ہیں  کہ اس نے ہمیں  اس دین کا پیروکار بنایا  جس کے حق میں ہر گزرنے والا دن گواہی دیتا ہے اور ہر گزرنے والے لمحات کے ساتھ اسے پختگی حاصل ہوتی ہے۔

فرائض اسلام کا ایک اہم رکن، صوم یعنی روزہ بھی اس دین کی حقانیت کی واضح دلیل ہے۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے دین اور انسانی عقل کے درمیان مطابقت رکھی ہے اور بارہاں انسانوں کو اپنی عقل استعمال کرنے کی رغبت دلائی ہے، اس لیے احکام یزدانی کو انکے فوائد و افادات سے صرف نظر کرکے بلا تحقیق و تفتیش مان لینا بھی انصاف کے عین خلاف ہوگا۔

انسان کو ہمیشہ احکام خداوندی میں پوشیدہ اور دقیق حکمتوں کی تلاش میں رہنا چاہیے اور نتیجے پر پہونچ کو سجدہ شکر بجا لانا چاہیے ۔

روزہ ایک ایسا عمل ہے جس کے طبی فوائد کے بارے میں جدید سائنس کو کچھ زمانے پہلے تک بالکل بھی اندازہ نہیں تھا جسکی ممکنہ وجہ اسلام اور سائنس میں وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی خلا تھی۔

مگر جوں جوں اوبیسٹی(موٹاپا)، بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں نے انسان کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کیا اور انسان کو اس بات کا تجربہ ہونے لگا کہ کس طرح اشیاء خوردنی کا زیادہ استعمال بھی انسانی جسم کے لیے سم قاتل کا کام کرتا ہے، انسان نے کھانے پر قابو کرنے کی کوشش شروع کردی۔

نیو یارک ٹائمز کی ہیلتھ کولمنسٹ جین ای بروڈی نے لکھا کہ ایک دراز عرصے تک مجھے لگتا تھا کہ انسان کو بھوکا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا اور روزہ رکھنا صرف ایک مذہبی عمل ہے جسکا انسان کی جسمانی صحت سے کو ئی سروکار نہیں۔ ذاتی تجربات کے مطابق بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب تک ہم بھوکے رہتے ہیں، ہمیں کام کرنا اچھا نہیں لگتا اور مزاج میں سستی اور بدن میں کمزوری محسوس ہوتی ہے۔

 مگر جب میں نے یہ دیکھا کے اپنی صحت کے بارے میں فکر مند لوگوں میں بھوکا رہنا ایک بہت رائج عمل بن چکا ہے تو مجھے بھی اس بارے میں مزخد معلومات حاصل کرنے کا تجسس پیدا ہوا۔

موجودہ زمانے میں ایک اصطلاح بہت رائج ہے جسے "انٹرمٹنٹ فاسٹنگ" کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے کھانے اور بھوکا رہنے کے اوقات مقرر کرلے۔ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ میں اس شخص کو کھانے کی نوعیت پر نہیں بلکہ اس کے وقتوں پر دھیان دینا ہوتا ہے۔   ہیلتھ لائن کے نیوٹریشن کرس گنارس کہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے کے بہت سے آسان طریقے ہیں۔ ایک شخص صبح میں ناشتہ نہ کرے اور دوپہر کے وقت وہ دن میں پہلا کھانا کھائے اور رات آٹھ بجے اس دن کا آخری کھانا کھائے۔ اس طرح وہ شخص آسانی سے 16 گھنٹوں تک کا روزہ رکھ سکتا ہے۔

آخر انسان کو روزہ کیوں رکھنا چاہیے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ در اصل انسان ہزاروں سال سے روزے رکھتے آیا ہے۔ قدیم زمانے میں انسان کے پاس کھانے کی عدم موجودگی کی وجہ سے اسے بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سارے مذاہب مثلا اسلام، عیسائیت اور بدھ مذہب میں روزہ رکھنے کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ اور اکثر جب جانور اور انسان بیمار رہتے ہیں تو وہ بھوکے ہی رہتے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ روزہ رکھنا یا بھوکا رہنا ایک معمولی اور قدرتی عمل ہے اور انسانی جسم کافی دیر تک بھوک برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جون ہاپکنس یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ مارک پی ماٹسن کا کہنا ہے کہ انسانی جگر توانائی حاصل کرنے کے لیے گلوکوس کو جمع کرے رہتا ہے اور ان کو استعمال کرکے بدن کو توانائی فراہم کرنے کاکام کرتا ہے۔ یہ گلوکوس تقریبا دس سے بارہ گھنٹے تک توانائی فراہم کرتے ہیں جسکے بعد وہ ختم ہوجاتے ہیں۔ اسکے بعد بدن میں جمع شدہ چربیاں پگھلا کر جسم توانائی حاصل کرتا ہے۔

روزہ کے فوائد پر اب تک کوئی بھی طویل ریسرچ نہیں ہوئی ہے مگر جانوروں پر طویل مدتی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بھوکا رہنا موٹاپا، ذیابیطس،  امراض قلب اور کینسر جیسی بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔

جین ای بروڈی کے مطابق ملٹیپل سکلیروسس (وہ بیماری جو دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو ناکارہ کر دیتی ہے) کے مریضوں میں روزہ رکھنے سے دو مہینوں سے بھی کم مدت میں اس کی علامات کم ہوگئیں۔

ڈاکٹر ماٹسن کا کہنا ہے کہ جانور جب بھی شکار کرتے ہیں، بھوکے رہنے کی حالت میں ہی کرتے ہیں (جسکی وجہ سے انہیں زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے) اور بھوکے رہنے کی ہی وجہ سے ان کے گہرے سے گہرے زخم قلیل مدت میں ہی بھر جاتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ روزے کے دوران ہمارا جسم نئی پروٹیزکو پیدا کرتا ہے اور وہ پروٹینز ہمارے خلیوں کو غیر ضروری اشیاء سے پروٹین حاصل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح جسم میں موجود غیر ضروری مواد بھی قابل استعمال ہوجاتے ہیں۔

جاری...

محمد حسن رضا ہدوی

Email: contactinghasan@gmail.com

Phone: 87883 95839

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter