بچوں کی تربیت کا نفسیانی پہلو
انصاری ثناء حسیب
(M.Sc (Phy) B.ed & Net Set Appearing)
گھر اور تعلیمی اداروں میں بچوں کو عملی تربیت دینی چاہیے
تعلیم وتربیت کا مقصد اچھا روزگار حاصل کرنا نہیں اچھا انسان بننا ہے
دوستیاں اور باہمی تعلقات بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں
بچوں کی معاشرتی زندگی کا آغاز گھر سے ہوتا ہے اس کے اثرات ان کی زندگی پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔بچوں کو معاشرتی رہنمائی فراہم کرنے کی ذمہ داری والدین کے ساتھ اساتذہ کرام پر بھی عائد ہوتی ہے تاکہ وہ جسمانی اور ذہنی نشوونما کے ساتھ ساتھ معاشرتی پختگی بھی حاصل کر سکىں اس ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنی ذمہ داری پوری دیا نتداری کے ساتھ ادا کرنی چاہئے۔درج ذیل امور بچے کی معاشرتی زندگی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
۱۔والدین کا اخلاق:
بچہ چونکہ والدین کے زیر سایہ اپنی عمر کی مختلف منازل طے کرتا ہے۔والدین سے سیکھ کر دوسروں کے ساتھ تعلقات استوار کرتا ہے اور آداب زندگی کے طریقوں سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔والدین کا اچھا اخلاق بچے کو معاشرتی طور پر بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ گھر کے کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جس کا بچے سے براہ راست تعلق ہوتا ہے اگر والدین بچے کی رائے کو اہمیت دیں اور بچے کی ان معاملات پر رائے طلب کریں تو بچے فیصلہ کرنے اور انہیں تسلیم کرنے کے قابل ہو جاتےہیں.
۲۔جذبات کا احترام:
والدین گھر کاماحول ایسا بنائیں جس میں تمام افراد ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور احساسات کا احترام کریں اس سے محبت اور پیار کی فضاء جنم لیتی ہے اور بچہ بڑوں کے تجربات سے سیکھتا ہے مثلا گھر میں کسی تقریب یا تہوار پر جو انتظامات کیے جاتے ہیں اس میں بچے کو کوئی ذمہ داری دیں اس سےبچے میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔اوروہ بڑوں کا ہاتھ بٹاکر خوشی محسوس کرتے ہیں.
۳۔محنت ومشقت کا عادی بنانا:
موجودہ دور میں کامیابی وترقی تربیت یافتہ افرادپر منحصر ہے۔افراد معاشرہ انجینئر ہوں یا مزدور ان کا محنت و مشقت کے اصولوں سے روشناس ہونا لازمی ہے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب گھر یلوسطح پر اور تعلیمی ادار ہ جات میں بچوں کو محنت اور دستی کام کی عملی تربیت دی جائے مگر ہمارے ہاں یہ ایک المیہ ہے کہ متمول گھر انوں میں ملازمین کی بہتات ہوتی ہے۔جس سے بچے اپنا کام کرنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں۔یہی بچے جب معاشرے میں عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو انہیں ماحول کے مطابق ڈھلنے میں دقت محسوس ہوتی ہے۔محنت ومشقت کا عادی نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوسی ومحرومی کا شکار ہوتے ہیں۔
اگر بچوں کو صرف درسی کتب تک محدود کردیا جائے تو بچے معاش کمانے کے قابل تو ہوجائیں گے مگر ان کی زندگی میں وہ اوصاف کبھی اجاگر نہیں ہوسکیں گے جو متوازن زندگی کے لیے ضروری ہیں۔اس سے بچے معاشی میدان میں مات کھاتے ہیں لہذا والدین کو بھی بچوں کو ذاتی کا م خود کرنے کی ترغیب دینی چاہئے۔اسکولوں اور کالجوں اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو ہفتہ وار جسمانی سرگرمی کا اہتمام کرنا چاہئے جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ جسمانی محنت بھی درکا ر ہو۔اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیوں سے بچے میں دوسروں سے تعاون کرنے کی عملی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
۴۔متوازن غذا اور کھیل
متوازن غذا کی طرح کھیل بھی جسمانی اور ذہنی طور پر بچے کو چوکس رکھتا ہے۔بچوں کی دن بھر کی مصروفیت ان کی ذہنی اور جسمانی تھکان کا باعث بنتی ہیں جبکہ کھیل ذہنی تناؤ کو دور کرکے انہیں متحرک رکھنے کا باعث بنتا ہے۔کھیل سے بچے نظم وضبط,قوت برداشت چوکنا رہنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں۔اور ساتھ ہی بہت سی مہلک بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔بچے کی صحت کا دارومدار محض جسمانی توانائی اور ظاہری نشوونماپر نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متوازن غذا,مناسب نیند,آلودگی سے پاک فضا اور طہارت و پاکیزگی کا ہونا بھی ضروری ہے جس سے بچے خوشگوار زندگی بسر کر سکتے ہیں۔صحت اللہ تعالی کا بہت بڑا تحفہ ہے اگر بچے تندرست ہوں گے تو ہی وہ دین ودنیا اچھی طرح بسر کرسکیں گے لیکن اکثر بچے اس کی قدر نہیں کرتے۔حدیث مبارکہ ہے حضرت عباسؓ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: دونعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے۔وہ صحت اور فراغت ہے۔
درج بالا حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے صحت کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ صحت سے ہی عبادت کامزہ آتا ہے۔صحت ہوگی تو تعلیم حاصل کرکے مفید شہری بنا جاسکتا ہے۔اس کے علاوہ فراغت کے لمحات کو ذکر وفکر مطالعہ اور دوسروں کی بھلائی کے لیے استعمال کرکے کار آمد بنانا چاہئے تاکہ روز آخرت سوال ہوکہ صحت وزندگی کو کس کاموں پر صرف کیا تو اس کے جواب میں آخرت میں مزید اجر بنانے کی امید ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:ہر وہ چیز جس میں اللہ کا ذکر نہ ہو وہ لغو ہے یا غفلت کا باعث ہے سوائے چار کاموں کے:آدمی کا دونشانوں کے درمیان چلنا,گھڑ سواری کی تربیت,اہل خانہ کے ساتھ کھیلنا اور تیراکی سیکھنا۔
۵۔بچے کی انفرادی حیثیت:
بچے کو احساس دلائیں کہ گھر میں اس کا خاص مقام ہے اس لیے اسے آپ کہہ کر پکاریں بلکہ گھر کاماحول اس طرح تشکیل دیں کہ بچہ خود اپنا مقام محسوس کرے,بچے کی ذہنی نشوونما کے لئے والدین کی خصوصی توجہ اور اپنائیت بہت ضروری ہے جو بچے کو ذہنی اطمینان فراہم کرتی ہے اس لیے والدین کو بچے کے لیے خصوصی وقت متعین کرنا چاہئے اس کے مسائل کو حل کرنا چاہئے بچے کو چھوٹے چھوٹے کام دینے چاہئیں جنہیں وہ آسانی سے مکمل کرسکے۔ان امور کی انجام دہی پر والدین بچے کی حوصلہ افزائی کریں اس سے بچے میں مسرت اور خوشی کی لہر بیدار ہوتی ہے۔
بچے کے تعلقات اور دوستی:
دوستیاں اور تعلقات بھی بچے کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔اسکول اور اعزاء واقارب میں ایسے بچوں کے ساتھ دوستی ہونی چاہئے جو بچے کی تعمیری شخصیت میں اہم کردار ادا کریں اس کے علاوہ والدین کو بھی بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہئے۔بچے کی تعمیر شخصیت میں تاریخ اسلام کے سبق آموز واقعات بھی اثر ڈالتے ہیں اس کے علاوہ نئی نسل کوبہادری,جفاکشی اور محنت کشی کی تربیت کے لیے ٹی وی پروگرام بھی دکھائے جاسکتے ہیں۔
۶۔احترام انسانیت:
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔انسان ہونے کے ناطے انسان کو دوسرے انسان کا قدر شناس ہونا چاہئے۔احترام انسانیت کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے ظالم کے حوالے کرے۔(بخاری شریف(
اسلامی نقطہ نظر سے بچے کو سیکھنا چاہئے کہ کسی کی عیب جوئی کرنا,مذاق اڑانا گناہ ہے اسلام اس کی ہر گز اجازت نہیں دیتا۔
۷۔نیکی کی اشاعت:
اس وقت امت مسلمہ کے زوال کی بڑی وجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے روگردانی ہے۔نیکی کا فروغ اور بدی کا سدباب اسلامی نصب العین کا حصہ رہا ہے۔بچے کے ذہن میں اسلامی تعلیمات راسخ کرنا چاہئے تاکہ وہ بڑا ہوکر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینے والا ہو۔حق وسچ کا ساتھ دینے والا ہو تاکہ معاشرہ سے اخلاقى برائیوں کاقلع قمع ہوسکے۔غیبت,چغلی جیسی برائیوں کی بھی بیخ کنی ہونی چاہئے۔
٭بچوں کا باہمی اختلاط سے گریز:
بچپن میں بچوں سے باہمی اختلاط کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ٹین ایجز میں قیادت محسوس نہیں کرتے لہذا والدین کے لیے ضروری ہے کہ جب بچے بلوغت کی عمر کے قریب پہنچیں تو ان کے باہمی اختلاط,تنہائی میں میل جول اور مخلوط کھیلوں کو حکمت سے کنڑول کریں۔بچوں كو بتائیں کہ Cousins سے بھی ہاتھ ملانا جائز نہیں ہے۔صرف زبانی سلام کیا جائے,شادی,بیاہ اور اس طرح کی دیگر تقریبات میں مرد وخواتین کے لیے الگ الگ اہتمام کریں اس کے علاوہ بچوں کو اختلاط کے مفاسد وخطرات سے بھی آگاہ کریں تاکہ وہ ان سے بچنے کا اہتمام کریں۔
مسائل پر قابو پانا:
بچوں کو سکھائیں کہ صرف کامیابی پر یقین رکھیں۔کسی بھی مسئلہ کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں اور یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ کسی بھی غیر متوقع یا ناخوش گوار صورتحال کا سامنا دو طرح کے خیالات پیدا کرتا ہے:مثبت اور منفی۔منفی خیالات خوف,گھبراہٹ اور اس طرح کے دیگر جذبات کو جنم دیتے ہیں۔جبکہ مثبت خیالات سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کی پیداوار ہیں۔ایسی صورت حال میں اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو پوری طرح بیدار رکھنے کی کوشش کریں تاکہ منفی خیالات جگہ نہ لے سکیں۔
احساس کمتری سے بچنا:
بچوں کو بتائیں کہ وہ خود کو کم تر نہ سمجھیں۔کیونکہ احساس کمتری ہی دراصل صلاحیتوں کو ناکارہ بنانے کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ بچے کویہ باور کرائیں کہ اس میں بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جو دوسرے لوگوں میں نہیں ہىں۔یہی اعتماد ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔
بچوں کی تربیت کریں کہ وہ اپنے والدین یا بڑے بہن بھائیوں سے اس طرح کا مضبوط تعلق قائم کریں کہ اگر کوئی ایمرجنسی یا پریشانی لاحق ہوتو اپنی ذات کے خول سے باہر نکل کر ان سے کھل کر بات کرسکیں۔یہ رویہ انہیں نہ صرف گھبراہٹ سے دور کرے گا بلکہ ان سے ایک مضبوط رابطہ بھی بحال ہوجائے گا۔
ذہن کو بیدار رکھنا:
ذہنی بیداری اور حاضر دماغ حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں یہی خوبیاں بچوں کی تعمیر شخصیت کا اچھا تاثر قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
مضبوط قوتِ ارادی:
قوت ارادی بچوں میں ہر قسم کے حالات سے نپٹنا اور ان پر قابو پانا سکھاتی ہے۔یہ قوت اپنی صلاحیتوں کے ادراک سے پیدا ہوتی ہے اور گھبراہٹ,خوف اور ایسے ہی دیگر عوامل کوبے اثر بنادیتی ہے۔
جبکہ پر امیدی قدرت کی طرف سے عطا کیا گیا وہ تحفہ ہے جو بچوں کوہر حال میں جینے اور ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنا سکھاتا ہے۔ پر امیدی بچوں کو یقین کی رول سے مزین کرتی ہے۔اپنی ذات پر اعتماد ویقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔