جوانی کیسے گزاریں ؟
اللہ عزوجل نے انسانوں کو بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں، اور جوانی اللہ عزوجل کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔جوانی کی اہمیت سے صرف وہی انکار کر سکتا ہے جس نے ابھی بڑھاپا نہیں دیکھا ہے، کیوں کہ جوانی میں انسان جسم ،عقل اور دیگر صلاحیتوں کے اعتبار سے مضبوط ہو تا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب جسم و عقل میں کمزوری کے آثا ر نما یا ں ہونے لگتے ہیں۔ بسا اوقات جوانی کی قدر نہ کرنے کی صورت میں جوانی میں ہی اس کا احساس ہونے لگتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان گناہ کرتے کرتے ایک دن اس کے غلط ہونے کا احساس کرلیتا ہے کہ گناہ کرنے میں سراسر نقصان ہی ہے ، اخروی اور دنیوی دونوں طرح کے نقصانات ہیں مثلاً؛ جسمانی اور مالی نقصان کے ساتھ وقت کا نقصان ۔ وقت کا نقصان سب سے بڑا ہے۔کتنے نقصانات گنائے جائیں؟ گناہ میں کہیں فائدہ نظر ہی نہیں آتا ۔ہاںوقتی طور پرلذت حاصل ہو جاتی ہے،لیکن یہ لذت بھی ایسی کہ جلد ہی ختم ہو جاتی ہے اور گناہ باقی رہتا ہے۔یہ ایسے نقصانات ہیں کہ کوئی بھی صاحب عقل ان کا انکار نہیں کر سکتا۔
گناہ کی قباحت کے لیے یہی کافی ہے کہ انسان گناہ کرتےکرتےتھک جاتا ہےاورعمر کےکسی نہ کسی حصے میں اس کا احساس ہوجاتا ہے، لیکن نیکیاں کرنے سے کوئی تھک نہیں سکتا۔ہاں وقتی طور پر کوئی تھک جائے تو اسے تھکنا نہیں کہیں گے،جب تک جسمانی اور ذہنی طور پر نہ تھک جائے۔ گناہوں سے تھکنے والی حقیقت کچھ ایسی ہے کہ مغربی ممالک میں آئے دن امن و سکون کے متلاشی عیسائی جوڑے اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ کیوں کہ حقیقی چین و سکون اسلام کی پیروی میں ہے۔گناہوں کے تسلسل سے امن و سکون غارت ہو گیا ، انسانیت مضطرب اور بےچین ہے ،ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں جواب دے رہی ہیں ۔ گناہ کر کے اتنے سارے نقصانات اٹھا نے کے بعد کیا اب بھی کسی فائدے کی امید ہے؟نہیں! بلکہ گناہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔
کیا آپ نے کسی نیکی کرنے والے کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ نیکی کرتے کرتے ،نمازیں پڑھتے پڑھتے بڑھاپا آگیا، اب نمازیں نہیں پڑھوں گا ؟ نہیں!اس سے کیا سمجھ میں آیا کہ بندہ نیکیاں کرکےنہیں تھکتا ،کیوں کہ عبادت میں ایسی لذت ہوتی ہےبندہ جب اسے پا لیتا ہے تو نہیں تھکتاہے۔عبادت میں لذت بھی ہے ،سکون بھی۔ خاص بات یہ ہے کہ آدمی کتنا ہی بوڑھا اور کمزور ہوجائے اس کی لذت کم نہیں ہوتی بلکہ بڑھتی ہی جاتی ہے ۔نہ تھکنے کی مثال یہ ہے کہ بندہ نماز فرض ہو نے سے لے کر موت تک نماز پڑھتا رہتا ہے،لیکن یہ کبھی نہیں کہتا کہ اب کتنی نمازیں پڑھوں ، نماز پڑھتے پڑھتے تو بوڑھا ہو گیا،بندہ اس حقیقت کا انکار نہیں کرسکتا، کیوں کہ نماز زندگی کی روح ہے اور روح پر زندگی کا انحصار ہے، اس لیےاس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ،عبادت روح کی غذا ہے اور غذاچھوڑی نہیں جا سکتی۔
تھکنے کی مثال ایسی ہےکہ بندہ گناہ کرتے کرتے جب نقصان اٹھانے کی صلاحیت کھو دیتا ہے تو گناہوں سے توبہ کرکے ا للہ کی بارگاہ میں آتا ہے اور بخشش طلب کرتا ہے۔کیوں نہ ہم پہلے ہی گناہوں سے توبہ کرکے اللہ عزوجل کو راضی کرلیں؟اسی میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے ۔ گناہ کرنے کےبعد گناہ کی لذت ختم ہو جائے گی ،لیکن گناہ باقی رہے گا اور نیکی کرنے کے بعد نیکی کی مشقت ختم ہو جائے گی لیکن ثواب باقی رہے گا، تو ہمیں چاہیے کہ معمولی مشقت برداشت کر کے دائمی سکون حاصل کرنے کی فکر کریں ۔
اللہ عزوجل بندوں کو تنبیہ کرتے ہوئے قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے :
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (مومنون۲۳؍آیت ۱۱۵)
ترجمہ :‘‘ تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں ’’۔ (کنز الایمان )
ا س آیت میں اللہ عزوجل نے بندوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور مقصد تخلیق کی طرف رہنمائی فرمائی۔دوسری جگہ اللہ عزوجل قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (ذاریات ۵۱؍آیت۵۶)
ترجمہ :‘‘اور ہم نے جنات اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے’’۔(کنز الایمان )
اس آیت میں اللہ عزوجل نے یہ بتادیا کہ اس نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔اس دنیا میں کوئی بھی چیزفائدےسے خالی نہیں ہے ۔پیڑ پودے ، چرند پرند او ر دریا پہاڑ سب کی تخلیق میں ضرور کوئی نہ کوئی مفید مقصد ہے ۔پیڑ پودوں میں ہمارے لیے نفع ہی نفع ہے۔مثلاً؛ آکسیجن ،سایہ اور لکڑی وغیرہ ۔ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کی تخلیق کا مقصد بھی اشرف المقاصد ہے۔ توہمیں چاہیے کہ ہم مقصد کے مطابق زندگی گزاریں اور صحت وجوانی کے قدر شناس بنیں،تبھی ہماری زندگی بامقصد ہو گی اور مقصد والی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ ورنہ جانور بھی جنگلوں میں زندگی گزار لیتےہیں ۔
اسی طرح ہم اپنامحاسبہ کریں کہ ہم زندگی کے ایام کیسے گزاررہیں ہیں؟ کیا ہماری زندگی اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کے فرمان کے مطا بق گزر رہی ہے یا خواہشات کی غلامی میں ؟ کیا ہم نے اللہ عزوجل کو راضی کرنے والا کوئی کام کیا ہے یا صرف ناراض ہی کیا ہے ؟ حقیقت یہی ہے کہ ہم نے اللہ کوصرف ناراض کیا ہے۔اور اپنی جوانی کو لہو و لعب اور خواہشات ِ نفسانی میں گزاراہے ۔
آپ غور کریں ،اس ترقی یافتہ دور میں ہم نے چھپ چھپ کر کتنے گناہ کیےاور اللہ کےلیےاخلاص کے ساتھ کتنی نیکیاں کیں ۔ سرکار دو عالم ﷺ کی حیات طیبہ کو دیکھیں ،آپ نے اپنی زندگی کے ذریعہ امت کو پاکبازی اور پارسائی کا درس دیا ۔حضرت عمرو بن میمون اودی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےسرکار دوعالم ﷺنے ایک شخص کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا :‘‘پانچ (چیزوں )کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو:
(۱) جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ۔
(۲) تندرستی کو بیماری سے پہلے۔
(۳)مالداری کو محتاجی سے پہلے۔
(۴) فرصت کو مصروفیت سے پہلے ۔
(۵) زندگی کو موت سے پہلے’’۔ (مشکوٰۃ المصابیح ،کتاب الرقاق ،ص ۴۴۱)
آپ غورکریں کہ چند روز پہلے کتنے لوگ ہمارے درمیان زندگی گزار رہے تھے لیکن اب وہ موت کی آغوش میں ہیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں مہلت دی اور زندگی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ۔ہمیں چاہیے کہ فرصت کے لمحات کو غنیمت جانیں اور زندگی کی قدر کریں، عالم شباب کو اطاعتِ الٰہی میں گزاریں، اس سے پہلے کہ ضعف و کمزوری لاحق ہو جائے، قویٰ جواب دے دیں،تندرستی میں وہ عبادت کر لیں جو بیماری میں صحیح طور سے ادا نہیں کی جاسکتی ۔ زندگی کے لمحات بہت قیمتی اور قابل قدر ہیں۔ اپنی بقیہ عمرکو غنیمت جانیں۔انھیں لا یعنی کاموں میں ہرگز برباد نہ کریں بلکہ اللہ عزوجل کی فرمابرداری اور رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تابع داری مِیں گزاریں۔اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔انسان کو اپنی زندگی کے لمحات کی اس وقت قدر ہوگی جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہو اب اس کا احساس کرنا بےسود ہو گا ۔
مذکورہ حدیث پاک میں سرکار دوعالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے زندگی گزارنے کے اصول کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے سب سے پہلے جوانی کا ذکر فرمایا،اس سے جوانی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے،کیوں کہ جوانی کے ایام بہت ہی نازک اورقیمتی ہوتے ہیں اور نفس برابر برائی کی طرف اکساتا رہتا ہے۔ اسی بنا پر نوجوان ہی زیادہ بےراہ روی کا شکار ہوتے ہیں۔ان ایام میں خاص تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی حدیث میں جوانی کے بعد تندرستی کا ذکر فرمایا کیوں کہ جوانی کے بعد سب سے ضروری چیز صحت ہوتی ہے۔جوانی ڈھلنے کے بعد صحت ہی زندگی کا سہارا ہے،کیونکہ جوانی مختصر ہوتی ہےجوایک مدت کےبعدختم ہوجاتی ہےلیکن بسااوقات زندگی کےآخری لمحات تک کام آتی ہے۔انسانی زندگی میں مال کی بھی اہمیت مسلم ہے اور مال کے ساتھ ساتھ فرصت کے لمحات بھی ہو ں توان سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔تو معلوم ہو اکہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت بندے کےلیے اہم ہے۔
اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ‘‘دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ غفلت کے شکار ہیں (۱) صحت (۲) فرصت’’۔(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الرقاق ص۴۳۹)
یقیناً ایسا ہی ہے ۔انسان جوانی اور صحت کے بارے میں دھوکے میں ہے اور صحت کی پرواہ نہیں کرتا۔ جب بیماری آجاتی ہے یا زندگی مصروف ہو جاتی ہے تو اس کا احساس ہوتا ہے،لیکن اب احساس کرنے سے کیا فائدہ ؟ فائدہ تو اس وقت ہوتا جب ہم پہلے ہی اس کی قد رکرتے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کی قدر کریں اور اس کا صحیح استعمال کریں۔
ہر شخص بہتری کا طالب ہوتا ہے۔ مالک اس نوکر کو زیادہ پسند کرتا ہے جو چستی کے ساتھ اپنی ذمہ داری ا دا کرتا ہے ،بر خلاف اس نوکر کے جو سست رو اور اپنےکام میں لا پرواہ ہو ۔ یہ دنیا کا معاملہ ہے۔کیا ہم نے کبھی سوچاکہ اللہ عزوجل خشوع و خضوع سے ادا کی ہوئی عبادت کو پسند فرماتا ہے۔سرکار دوعالم ﷺنے نوجوانوں کے تعلق سے ارشاد فرمایا :‘‘بے شک اللہ عزوجل نوجوان توبہ کرنے والے کو پسند فرماتا ہے’’۔ (جامع صغیر )
اللہ عزوجل جوانی میں توبہ کرنے والے بندے کو پسند فرماتا ہے،کیوں کہ نوجوان گناہ کرنے، دوسروں کو تکلیف دینے اور ظلم و زیادتی کرنے پر قدرت رکھتا ہے ،لیکن جوانی اور لذات شہوانی سے لطف اندوز ہونے اور برائی میں ملوث ہونے کی عمر میں بندہ اگر اللہ کی رضاکے لیےتمام برائیوں سے توبہ کرتا ہے تو اس عمل کے ذریعہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں محبوب اور مقرب بن جاتا ہے۔ ہر بچے کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا پیارا بن جائے اور ہر طالب علم یہی چاہتا ہے کہ وہ استاذ کامحبوب نظر بن جائے، لیکن اس کے لیے اپنے اندروہ خوبی اور صلاحیت پیدا کرنی ہوگی جس کے سبب وہ محبوب بن سکتاہے ۔ اسی طرح خواہشات پر قابو پاکر ،جوانی کونیکیوں میں گزار کر اللہ کا پسندیدہ بندہ بن سکتا ہے ۔دماغی اور جسمانی صلاحیتوں سے جوانی میں ہی صحیح کام لیا جا تا ہے۔علم حاصل کرنے اور مطالعہ کرنے کی عمر بھی جوانی ہی ہے ۔بڑھاپے میں عقل و فہم کی قوتیں کمزور ہو کر رہ جاتی ہیں۔غور و فکر کی صلاحیت معدوم ہونے لگتی ہے۔ لیکن وہ نوجوان جو تلاوت قرآن کا عادی ہے وہ ان چیزوں سے محفوظ رہے گا ۔اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ بوڑھے حضرات بے ہودہ گوئی ،چڑچڑا پن اور نسیان کے مرض میں مبتلاہوجاتےہیں۔لیکن بعض خوش نصیب ایسے بھی ہیں جو بڑھاپے کی منزل میں ہو تے ہوئے بھی فکری صلاحیت اور ذہنی قوت کے سبب اچھی زندگی بسر کر تے ہیں اور اپنے کاموں میں کسی کے محتاج نہیں ہو تے۔اس کاسب سے بڑا سبب جوانی کی عبادت اور قرآن پاک کی تلاوت ہے ۔ اگر سفر حیات کے کسی بھی موڑ پر شعور بیدار ہو تو مایوس نہ ہوں بلکہ اسے غنیمت جانتے ہوئے زندگی کےبقیہ ایام کے قدر شناس بنیں اور اپنی زندگی کی شام ہونے سے پہلے پہلے تقویٰ اور پرہیز گاری کے ذریعہ اللہ عزوجل کو راضی کرلیں۔اللہ عزوجل کی رحمت سےکچھ بعید نہیں کہ وہ اپنے بندے کو معاف کردے ،کیوں کہ اللہ توبہ کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے ۔
اس تعلق سے اللہ عزوجل سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۲۲ میں ارشاد فرماتا ہے :‘‘بے شک اللہ پسند کرتا ہے بہت توبہ کرنے والوں کو اور پسند رکھتا ہے ستھروں کو”۔(کنزالایمان)
اس آیت سےمعلوم ہوا کہ اللہ عزوجل خوب توبہ کرنے والوں اور خوب ستھروں کو پسند فرماتا ہے،اور ہمیں اس آیت سے ظاہر وباطن کی پاکیزگی کادرس ملتاہے۔ستھرائی سے ظاہر کی پاکیزگی اورتوبہ سے باطن کی پاکیزگی مراد ہے۔قرآن ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،ظاہر کی بھی اصلاح کرتا ہےاور باطن کی بھی۔تو ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرکےاللہ کی رضاوخوشنودی حاصل کریں۔ اسی میں کامیابی ہے۔
عصر حاضر میں نوجوانوں کی اکثریت زنا وبدکاری جیسے قبیح ا فعال میں ملوث ہے۔اس کی بڑی وجہ بے پردگی،مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہے ۔ساتھ ہی موبائل ،انٹرنیٹ کا غلط استعمال۔آج کا نوجوان عریانیت اور فحاشی کو موبائل کی شکل میں لیےگھوم رہا ہے، جب چاہا جیسا چاہا استعمال کیا۔اب موبائل اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی بہت عام ہوگیا ہے ۔اس میں وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے جسمانی اور مالی نقصانات بھی ہیں جوجگ ظاہر ہیں۔لہٰذا نوجوانوں کو اس کا صحیح استعمال کرنا چاہیے ۔
اللہ عزوجل نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا۔ ( سورہ بنی اسرائیل ۱۷؍آیت ۳۲ )
‘‘اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ،بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ’’ ۔ (کنز الایمان )
اللہ عزوجل نے بدکاری کے قریب بھی جانے سے منع فرمایا ہے ۔ کیوں کہ یہ بہت برا فعل ہے۔ ا س کے برے ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب والے اسے برا کہتے ہیں۔ہمیں چاہیے کہ خود بھی اس سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔
جوانی کی اہمیت اس حکایت سے اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے :
ایک بوڑھا شخص کہیں سے گزر رہا تھا۔بڑھاپے کی وجہ سے اس کی کمر اس قدر جھکی ہوئی تھی کہ چلتے ہوئے یوں لگتا تھا کہ یہ بوڑھا شخص زمین سے کچھ تلاش کر رہا ہے ۔ایک نوجوان کو مسخری سوجھی اور کہنے لگا :‘‘بڑے میاں کیا تلاش کر رہے ہو’’؟بات اگر چہ غصہ دلا نے والی تھی مگر اس شخص نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئےنصیحت آمیز لہجے میں جواب دیا : بیٹا ! ‘‘میں اپنی جوانی تلاش کر رہا ہوں’’۔ یہ حیران کن جواب سن کر نوجوان تعجب میں پڑ گیا اور کہنے لگا : ‘‘بڑے میاں ! کیا جوانی بھی تلاش کی جا سکتی ہے’’ ؟ اس نے کہا :‘‘بیٹا !یہی تو افسوس ہے کہ جب جوانی کی نعمت میرے پاس تھی تو اس وقت اس کی قدر نہ کر سکا اور آج جب اس سے ہاتھ دھو بیٹھا تو اس کی اہمیت کا احساس ہوا۔اسی کو تلاش کرنے سے تعبیر کر رہا ہوں لیکن اب پچھتانےکے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا’’۔پھر اس شخص نے نوجوان کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا ! اللہ کے فضل سے تم ابھی جوان ہو ،کمر جھکنے سے پہلے رب تعالیٰ کے حضور سر کو جھکا لو،ورنہ بڑھاپے میں میری طرح کمر جھکائے جوانی کو تلاش کرتےپھروگے لیکن حسرت و ندامت کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔
اس حکایت میں جوانی کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے،تاکہ ہم جوانی کے قدر شناس بنیں اور جوانی کو اللہ عزوجل کی عبادت میں گزاریں۔ مفتی اعظم ہندمولانا شاہ محمد مصطفیٰ رضا نوری علیہ الرحمہ جوانی کی قدر دانی کا درس دیتے ہوئے فرماتے ہیں ؎
ریاضت کے یہی دن ہیں بڑھاپے میں کہا ں ہمت
جو کچھ کرنا ہو اَب کر لو ، ابھی نوریؔ جواں تم ہو
اور شاعر مشرق، علامہ اقبالؔ نے نوجوانوں کی حالتِ زار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ؎
ترے صوفے ہیں افرنگی ، ترے قالیں ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اور نوجوانوں کو اپنے اندر عقابی روح اور شاہین جیسی صفات پیدا کرنے کی تلقین کی ؎
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
انھوں نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو ان اوصاف سے آراستہ کرلیں جو خود ان کی نشو نما اور ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جو عظیم قوم کی تعمیر و تشکیل کے لیے معاون بن سکتی ہیں ۔
اقبال ؔکا مثالی نوجوان خود دار ، تعلیم یافتہ ،یقیں محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے ؎
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند