آج کے دور میں انسانوں کی خوشامد اور ان کی خوشنودی حاصل کرنا ہر کام کا مقصد بنتا جارہا ہے_ لوگ اپنے خالق کو بھول کر مخلوق کی خوشی کے خیال میں سر سے پیر تک ڈوبے جارہے ہیں، کیا نماز کیا روزہ، کیا حج و زکوٰۃ و سخاوت کیا دعوت و تبلیغ_
       آج ہم بگڑتے معاشرے اور زوال امت پر آنسو بہاتے ہیں اور اس کے تدارک کے لیے بساط بھر جد وجہد اور عروج کے لیے کوشاں ہیں مگر ہم میں ایک چیز کی کمی ہے جو مقصد کی تکمیل میں بڑی رکاوٹ ہے_ میرے خیال میں وہ شے جس کا فقدان ہے وہ اخلاص ہے_ اس لیے کہ ہم اچھے کام کیوں کرتے ہیں؟ الله رب العزت اور اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا_ بھلے ہی ہم اپنی زبان سے لوگوں کے درمیان اپنے مخلص ہونے کا تذکرہ کریں لیکن ہم خود اپنے دل میں جھانک کر دیکھیں_ اس لیے کہ قرآن کریم میں ہے: ،،بل الانسان علی نفسہ بصیرہ،، تجربہ شاہد ہے کہ وہ بوٹا اگ ہی نہیں سکتا جسے پانی نہ ملے_ اسی طرح وہ عبادت نتیجہ خیز ہوہی نہیں سکتی جس کی بنیاد اخلاص نہ ہو_ حضرتِ مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم فرماتے ہیں: الٰہی! میں جہنم کے ڈر یا جنت کی طمع میں تیری عبادت نہیں کرتا بلکہ تو عبادت کا مستحق ہے اس لیے تیری عبادت کرتا ہوں_ ( روح تصوف)
         حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت میں اخلاص پر خصوصی توجہ فرمائی اور خود حضورِ اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاص کو قرآن مجید نے کیا خوب بیان کیا: ترجمہ تم فرماؤ بےشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب الله کے لیے ہے جو رب سارے جہان کا_ ( الانعام/ آیت. 162)
      یہ حضورِ اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جذبہ اخلاص ہے کہ صرف نماز و قربانی خدا کے لیے نہیں بلکہ میرا جینا اور مرنا سب خدا کے لیے ہے_ جبکہ آج ہمارا سارا کام دنیا کے لیے ہے_ اے کاش! ہم اپنی نیتوں کو درست کرلیں اور اپنے اندر اخلاص پیدا کرلیں_
      سرکارِ غوثِ اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: خدا کے ساتھ بغیر مخلوق اور مخلوق کے ساتھ بغیر نفس کے معاملہ کرو- ( روح تصوف) یعنی عبادات مخلوق کی خوشنودی کے بغیر ہوں اور معاملات نفس کی خواہش کے خلاف اخلاص پر مبنی ہوں_
     ابو محمد البغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ تو اپنے عمل کو دیکھنا چھوڑ دے-
    حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمہ اخلاص کی علامتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اخلاص کی تین نشانیاں ہیں: عوام کی مدح یا مذمت بندے کے نزدیک یکساں ہو_ اعمال میں اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے اور آخرت میں اپنے صلے کا بے قراری سے منتظر نہ ہو_
       محترم قارئین یاد رکھیں! اپنے اندر اخلاص پیدا کرنا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بیت کٹھن کام ہے_ کسی بھی کام کو محض رب کی خوشنودی کے لیے کرنا آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں_ بس توجہ اور جد وجہد کی ضرورت ہے اور یہ مشہور ہے کہ من جد و جد یعنی جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے_ لہٰذا نفس سے جنگ کریں_ دل کو غیر خوشنودی سے خالی کریں_ پھر تھوڑا عمل بھی بارگاہِ خداوندی میں مقبول ہوگا-
       ایک مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ عبادت بن سکتا ہے بشرطیکہ کہ وہ فرائض کی بجاآوری کے بعد ہر عمل کی بنیاد خلوص نیت پر رکھے خواہ اس عمل کا تعلق دینی معاملات سے ہو یا خالصتاً دنیوی امور سے_ اعمال اپنی اصل میں اس وقت ہی باعث اجر بنتے ہیں جب ان کے پیچھے خلوص نیت کی کار فرمائی ہو_ نیت ہی ایک ایسی کسوٹی ہے کہ جس کی خرابی کی بنیاد پر خالصتاً دینی عمل بھی موجب عذاب بن جاتاہے اور اسی کے خلوص کے نتیجے میں خالصتاً دنیوی عمل بھی ذریعہ نجات بن سکتا ہے_ نیت کے بغیر اخلاص کا تصور ناممکن ہے_ الله تعالیٰ ہم سب کو آقائے کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاص کا صدقہ عطا فرمائے_

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter