ماں:کائناتِ ہست وبود کی عظیم سوغات


لفظ ماں سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں پیار،محبت،شفقت، الفت،خلوص،ایثار اور تحمل کا ایک بے کراں سمندر موجزن ہونے لگتا ہے۔ ماں اس خاکدان    گیتی میں قدرت کا ایک انوکھا تحفہ اور نرالی سوغات ہے۔ ماں کائنات کی سب سے قیمتی متاع اور سب سے عظیم سرمایہ ہے ۔ اس کی شفقت و محبت اور خلوص و وفا کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ماں کے جذبۂ محبت کی بدولت ہی ہماری شخصی تعمیر وترقی روشن اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں ہماری تقدیر پنہاں ہوتی ہے ۔رب ذو الجلال نے اس کے دل کے نہاں خانے محبت و پیار کا پورا سمندر پوست کردیاہے۔اسی وجہ سے کبھی اس کے پیشانی پر اولاد کی دل آزاری سے شکن نہیں پڑتے۔ ماں دُنیا کا وہ حسین وجمیل کردار ہے جس کو سوچتے ہی  محبت ، ٹھنڈک ، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے ۔ اس کا سایہ ہمارے لئے ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہے ۔ چلچلاتی دھوپ میں اس کا دستِ شفقت سایہ دار درخت کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون  و آرام فراہم کرتا ہے ۔ اس کی گرم گود موسمی سردی یا ٹھنڈک کا احساس نہیں ہونے دیتی ۔ خود وہ خاروں پر چلتی ہے ،اور اولاد کو ہمیشہ پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے اور اس کائنات ہست وبود کے  تمام دکھوں کو اپنے آنچل میں سمیٹے لبوں پر مسکراہٹ سجائے ہمہ وقت اپنی منزل کی سمت رواں دواں رہتی ہے۔ خدا نے اِس سے زیادہ محبت کرنے والی ہستی کو دُنیا میں پیدا نہیں کیا۔ ،آندھی چلے یا طوفان آئے سیلاب ہو یا سونامی آئے، اُس کی محبت و شفقت اور ممتا میں کبھی کمی نہیں آتی۔ انہیں امتیازی شان کی وجہ سے پروردگار عالم نے اپنی جنت کو بھی اس کے قدموں تلے لاکر رکھ دیا۔ قرآن نے بار بار اس کی عظمت شان کے ترانے گائے۔ کتب احادیث اس رفعت و بالائی کے نغموں سے نغمہ سنج ہیں۔ بزرگانِ دین سے لیکر غیر مذہبی سادھو سنتوں تک اس کی بلندیوں کا راگ الاپتے رہے ہیں۔ 


آئیے قرآن مجید کی سیر کرتے ہوئے اس کی شوکت کا علو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن گویاں ہے۔ اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے اسے پیٹ میں اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانے کی مدت دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکرادا کرو۔میری ہی طرف لوٹنا ہے۔(سورۃ لقمان:14)


اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے والدین کی عظمت ورفعت کو واضح لفظوں میں بیان کیا وہیں ماں کی شان الگ کرکے بیان کیا تاکہ بنو نوع انسان کو پتہ چلے کہ ماں کن کن عظمتوں کے حامل ہے۔ اور یہاں ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے۔  ماں  کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی،دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں  رکھا،تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا،اس سے معلوم ہوا کہ ماں  کو باپ پر تین درجے فضیلت حاصل ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بھی ماں  کی باپ سے تین درجے زیادہ فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخص نے سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں  آکر عرض کی:میری حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا، ’’تمہاری ماں ‘‘،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاری ماں ۔عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا’’تمہاراباپ۔( صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من احقّ الناس بحسن الصحبۃ، ۴ / ۹۳، الحدیث: ۵۹۷۱)

اس آیت کریمہ کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی فرماتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں رب العزت نے ماں  باپ دونوں  کے حق میں  تاکید فرماکر ماں  کو پھر خاص الگ کرکے گنا اور اس کی ان سختیوں اور تکلیفوں  کو شمار فرمایا جو اسے حمل وولادت اور دوبرس تک اپنے خون کاعطر پلانے میں  پیش آئیں جن کے باعث اس کاحق بہت اَشد واَعظم ہوگیا مگر اس زیادتی کے یہ معنی ہیں  کہ خدمت میں ، دینے میں باپ پرماں  کوترجیح دے مثلاً سوروپے ہیں  اور کوئی خاص وجہ مانعِ تفضیلِ مادر (یعنی ماں  کو فضیلت دینے میں  رکاوٹ) نہیں  توباپ کو پچیس دے ماں  کو پچھتر، یاماں  باپ دونوں  نے ایک ساتھ پانی مانگا توپہلے ماں  کو پلائے پھرباپ کو، یادونوں  سفر سے آئے ہیں  پہلے ماں کے پاؤں دبائے پھرباپ کے، وَ عَلٰی ہٰذَا الْقِیَاس، نہ یہ کہ اگروالدین میں  باہم تنازع ہو توماں  کا ساتھ دے کر مَعَاذَ اللہ باپ کے درپے ایذا ہو یا اس پر کسی طرح درشتی کرے یااسے جواب دے یابے اَدبانہ آنکھ ملا کر بات کرے، یہ سب باتیں  حرام اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مَعْصِیَت ہیں ، (اس میں ) نہ ماں  کی اطاعت ہے نہ باپ کی، تو اسے ماں  باپ میں  سے کسی کاایساساتھ دیناہرگز جائزنہیں ، وہ دونوں  اس کی جنت ونار ہیں ، جسے ایذادے گا دوزخ کامستحق ہوگا وَ الْعِیَاذُ بِ اللہ، مَعْصِیَت ِخالق میں  کسی کی اطاعت نہیں ، اگرمثلاً ماں  چاہتی ہے کہ یہ باپ کو کسی طرح کاآزار پہنچائے اور یہ نہیں  مانتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، ہونے دے اور ہرگز نہ مانے، ایسے ہی باپ کی طرف سے ماں  کے معاملہ میں ، ان کی ایسی ناراضیاں  کچھ قابلِ لحاظ نہ ہوں  گی کہ یہ ان کی نری زیادتی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی چاہتے ہیں  بلکہ ہمارے علمائے کرام نے یوں  تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں  کوترجیح ہے جس کی مثالیں  ہم لکھ آئے ہیں ، اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں  کابھی حاکم وآقا ہے(فتاوی رضویہ، رسالہ: الحقوق لطرح العقوق، ۲۴ / ۳۸۷-۳۹۰، ملتقطاً)


قرآن پاک نے دو جگہ ماں کے وضع حمل کے درد یعنی درد زہ کو بیان کیا۔ ایک جگہ وھنا علی وھن کہا تو دوسری جگہ کرھا علی کرھ کہا تاکہ بنو نوع انسان کو یہ احساس ہو کہ ماں نے تمہیں ایسے ہی نہیں جنم دیا بلکہ درد پر درد سہہ کر، تکلیف پر تکلیف برداشت کرکے ، کمزوریوں کو سینے سے لگا کر تمہیں جنم دیا۔ اس احسان عظیم کا تم کبھی بدلہ چکا بھی نہیں سکتے۔ اس لئے تم ہمیشہ ان کے خدمت گزار اور فرمانبردار رہ کر زندگی گزارتے رہو۔ قرآن انتہائی فصاحت وبلاغت کے ساتھ والدین کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق کہتا ہے اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے اور عرض کر کہ اے میرے رب تو ان دونوں پر رحم کر جیسا کہ ان دنوں نے مجھے چھٹپن(چھوٹی عمر) میں پالا (سورۃ بنی اسرائیل:, 24)


اب دل تھام کر حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بھی سنئے اور سر دھنئے ایک مرتبہ جاہمہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگا یا رسول اللہ میں جہاد میں شرکت کرنا چاہتا ہوں آپ کے پاس مشورے کے لئے آیاہوں نبی ﷺ نے فرمایا کیا تمہاری والدہ زندہ ہیں انہوں نے کہا جی ہاں نبی کریم ﷺ نے فرمایا پھر ان کی خدمت کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے تلے ہیں دوسری مرتبہ اور تیسری مرتبہ بلکہ کئی مرتبہ نبی کونین ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی۔(مسند امام احمد) اس حدیث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ جہاد سے افضل وبرتر والدین کی خدمت گزاری ہے۔ اب اس صحابی رسول ﷺ کا بھی واقعہ سنئے جنہوں نے اپنی کمزور ولاغر ماں کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر حج کرایا ایک مرتبہ عبداللہ ابن عمر بیت اللہ کا طواف کررہے تھے تو انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا اپنی بوڑھی ماں کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے بیت اللہ کا طواف کررہا ہے تو اس نے ابن عمر کو دیکھ کر کہا اے عمر کے بیٹے کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کردیا ہے تو ابن عمر نے جواب دیا کہ اے نوجوان تو نے اپنی ماں کی ایک آہ کا بھی بدلہ ادا نہیں کیا(ادب المفرد امام بخاری)


ایسا ہی ایک واقعہ حضور سرور کونین ﷺ کے عہد مبارک میں بھی ہو جو کچھ یوں سیدنا بریدہ بیان کرتےہیں ایک مرتبہ ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتاہے :یار سول اللہ میں ایک ماہ تک اپنی بوڑھی ماں کو پیٹھ پر بیٹھا کر ایسے گرم اور تپتے ہوئے پتھروں پرچلتاہوں اگر ان پر گوشت ڈالاجائے تووہ جل کر کباب بن جائے ،کیا میں نے اپنی ماں کا حق اداکردیا؟توآپﷺ نے جواب دیا:اے نوجوان شاید تو نے ان جھٹکوں میں سے ایک جھٹکے کا حق ادا کردیا ہے جوجھٹکے تیری ماں نے تیری پیدائش کے وقت دردوں کی شدت کی وجہ سے لیے تھے (معجم طبرانی)


ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ اب تھوڑا سا تعارف بھی سن لیجئے ماں کون ہے؟؟؟ ماں وہ ہے جس نے اپنے جسم سے تیرے جسم کی تعمیر کی اور اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سینچ سینچ کرتیرےجسم کی تکمیل کی اپنی تمام توانائیاں تیرے نام کیں ،اپنی راحتیں تجھ پر نثار کیں ،اپناآرام تجھ پر قربان کیا ،اپنی نیندیں تجھ پر حرام کیں، اپنا پیار ،اپنی شفقت اپنی محبت والفت اور تجھے کیا معلوم کہ ایک وقت ایسا تھا کہ تو چل نہ سکتا تھا وہ تیرے پاؤں بن گئی، تو پکڑ نہ سکتاتھا وہ تیرے ہاتھ بن گئی، تو دیکھ نہ سکتا تھا وہ تیری آنکھیں بن گئی، تو سن نہ سکتا تھا وہ تیرے کان بن گئی، تو بول نہ سکتا تھا وہ تیری زبان بن گئی، تو سمجھ نہ سکتا تھا وہ تیرا شعور بن گئی، تیری ایک سسکی پر وہ مچل جایا کرتی تھی اور تیرے ایک آنسوؤں پر تڑپ جایا کرتی تھی ،تیری آہیں اسے گھایل کرتی تھیں اور تیری تکلیف اسے رلایا کرتی تھی اور تجھے کیا معلوم تو آرام سے سوجایا کرتا تھا وہ جاگا کرتی تھی کہیں میراجگر جاگ نہ جائے اور اس کی نیند خراب نہ ہو اس لئے تو پر سکون ہوتا تھا وہ بے سکون ہوتی تھی ،تجھے کیا معلوم کہ وہ خود بھوکی رہتی تھی لیکن تجھے اپنے خون سے تیارشدہ دودھ پلایا کرتی تھی ،خود گیلی جگہ پر سوتی تھی تجھے سینے پر سلایا کرتی تھی ،خود سردی کی تیز ہواؤں میں کانپتی تھی لیکن تجھے سردی سے بچایاکرتی تھی ،خود گرم دوپہر میں جلتی تھی لیکن تجھے دھوپ سے بچایا کرتی تھی۔ یہ ماں کا چھوٹا سا تعارف تھا اگر صحیح تعارف کیا جائیں تو مجلدات درکار ہونگے کیا خوب کہا علامہ اقبال نے اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا


اور اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیجئے کہ جتنے لوگ اس خاکدان گیتی میں عزت ووقار حاصل کئے ان سب کے پیچھے ایک عظیم شخصیت پوشیدہ ہے وہ ہے ماں۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ فقیر کولاری آج جو قلم پکڑ کر لکھ رہا ہے وہ سب ماں کی دعاؤں کا صدقہ وخیرات ہے۔ ماں کے بغیر یہ دنیا ویران اور کھنڈرات ہے۔ لہذا ہمارے جن قارئین کی مائیں زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کریں۔ انکی قدر کریں اور انکے سایۂ عاطفت میں زندگی گزارنے کو قسمت سمجھیں الله تعالٰی ہم سب کی ماؤں کا سایہ تا دیر قائم رکھے۔ ہم میں سے جن کی مائیں اس دنیا سے رخصت ہوئی ہیں اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter