تعلیماتِ خواجہ غریب نوازمیں درس فکر وعمل

خواجۂ خواجگاں، سلطان الہند عطاے رسول سیدنا معین الدین حسن اجمیری علیہ الرحمۃ والرضوان (ولادت ۵۳۵ھ اور وفات ۶؍رجب ۶۳۱ھ ) کی شان بڑی نرالی اور عظیم ہے۔ ہندوستان میں ان کی تشریف آوری سے اسلام کو بہت فروغ ملا۔ سرکار خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامتوں نے یہاں کے جادوگروں اور ہندو جوگیوں کو مات دے کر اسلام کا غلغلہ بلند کیا۔ دوسرے یہ کہ آپ کے اعمالِ صالحہ نے ان کے دلوں میں وہ اثر ڈالا کہ جوق در جوق کفارِ ہند حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔

        سلطان الہندخواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ عارفِ ربانی اور ولی کامل ہونے کے ساتھ ساتھ مرشد و ہادی بھی تھے۔ آپ نے اپنے اخلاق و کرداراور کشف و کرامات سے تو کام لیا ہی ساتھ ہی ساتھ آپ کے دل میں اتر جانے والے وہ ارشادات و اقوال بھی بڑے کارآمد ثابت ہوئے جو آپ کی زبان فیض ترجمان سے پھول کی طرح جھڑے اور دلوں میں اثر کرتے چلے گئے، آپ کی تعلیمات و ارشادات کا ایک خاصا حصہ دلیل العارفین میں آج بھی موجود ہے جسے آپ کے خلیفہ خاص حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی علیہ الرحمۃ نے تحریر فرمایا ہے، دلیل العارفین اور کچھ دوسری کتابوں سے اختصار کے ساتھ چند ارشادات تحریر کیے جاتے ہیں تا کہ حیاتِ خواجہ کا یہ باب بھی چھوٹنے نہ پائے، اورہماری زندگیوں میں انقلاب پیدا کرجائے۔حضرت خواجہ پاک فرماتے ہیں :

٭      جس نے کچھ پایا خدمت سے پایا تو لازم ہے کہ مرشد کے فرمان سے ذرہ برابر تجاوز نہ کرے اور خدمت میں مشغول رہے۔

٭      نماز بندوں کے لیے خدا کی امانت ہے تو بندوں کو چاہیے کہ اس کا حق اس طرح ادا کریں کہ اس میں کوئی خیانت پیدا نہ ہو۔

٭      نماز دین کا رکن ہے اور رکن ستون ہوتا ہے تو جب ستون قائم ہو گیا تو مکان بھی قائم ہو گیا۔

٭      جو بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور جہنم کے درمیان سات پردے حائل کردے گا جن میں سے ہر ایک پردہ پانچ سو سال کی راہ کے برابر ہوگا۔

٭      جس نے جھوٹی قسم کھائی گویا اس نے اپنے خاندان کو ویران کر دیا۔ اس کے گھر سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔

٭      (خدا کی) محبت میں صادق یعنی سچا وہ ہے کہ جس پر شوق و اشتیاق اس قدر غالب ہو کہ سو ہزار شمشیریں اس کے سر پر ماریں تب بھی اس کو خبر نہ ہو۔

٭      دوستی مولیٰ میں وہ شخص سچا ہوتا ہے کہ اگر اس کا جسم ذرہ ذرہ کر دیا جائے اور آگ میں جلا کر خاکستر کر لیا جائے تب بھی دم نہ مارے۔

٭      عاشق کا دل محبت کی آگ کا آتش کدہ ہے۔ حق کے سوا جو اس کے دل میں آتاہے جل کر ناپید ہو جاتا ہے کیونکہ آتشِ محبت سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں۔

٭      قبرستان میں عمدا کھانا پیناکبیرہ گناہ ہے جو عمداً کھائے وہ ملعون اور منافق ہے کیونکہ گورستان عبرت کا مقام ہے نہ کہ حرص و ہوا کا۔

٭      اس سے بڑھ کر کوئی کبیرہ گناہ نہیں کہ مسلمان بھائی کو بغیر سبب تکلیف دی جائے اس میں خدا و رسول دونوں ناراض ہوتے ہیں۔

٭      یہ بھی کبیرہ گناہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام سنے یا کلام اللہ سنے تو اس کا دل نرم نہ ہو اور ہیبتِ الٰہی سے اس کا ایمان زیادہ نہ ہو۔

٭      اور فرمایا: ذکر الٰہی یا کلامِ الٰہی سنتے وقت جو ہنستے ہیں وہ ضرور بالضرور منافق ہیں (کیونکہ ذکرِ الٰہی کے وقت ہنسی مذاق مومن کا کام نہیں)

٭      جس دل میں علما اور مشائخ کی محبت ہوتی ہے ہزار سال کی عبادت اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے، اگر وہ اسی اثنا میں مر جائے تو اسے علما کا درجہ ملتا ہے اور اس مقام کا نام علیین ہوتا ہے۔

٭      اور فرمایا: فتاویٰ ظہیریہ میں لکھا دیکھا ہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص علما کے پاس آمد و رفت رکھے اور سات دن ان کی خدمت کرے، اللہ تعالیٰ اس کے سارے گناہ بخش دیتا ہے اور سات ہزار سال کی نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھتا ہے ایسی نیکی کہ دن کو روزہ رکھے اور رات کو کھڑے ہو کر (نماز میں) گزار دے۔

٭      مرید کو لازم ہے کہ جو کچھ پیر کی زبان سے سنے اس پر بڑی خوشی سے عمل کرے اور پیر کی خدمت بجا لائے، حاضر خدمت رہے، اگر متواتر خدمت بجا نہ لاسکے تو اس بات کی کوشش ضرور کرے۔

٭      سورۂ فاتحہ تمام دردوں اور بیماریوں کے لیے شفا ہے جو بیماری کسی علاج سے درست نہ ہو وہ صبح کی نماز کے فرض اور سنتوں کے درمیان اکتالیس مرتبہ بسم اللہ کے ساتھ سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے سے دور ہو جاتی ہے۔

٭      اور فرمایا حدیث میں ہے: اَلْفَاتِحَۃُ شِفَاءٌ مِنْ کُلِّ دَاءٍ یعنی سورۂ فاتحہ ہرمرض کی دوا ہے۔

٭      جو شخص وِرد مقرر کر لے اسے روزانہ پڑھنا چاہیے اور دن میں اگر نہ پڑھ سکے تو رات میں ضرور پڑھے لیکن پڑھے ضرور۔ اس کے بعد کسی اور کام میں مشغول ہو کیوں کہ حدیث شریف میں ہے کہ ورد کا تارک یعنی چھوڑنے والا لعنتی ہے۔

٭      اور فرمایا: ایک دفعہ مولانا رضی الدین رحمۃ اللہ علیہ گھوڑے پر سے گر پڑے جس سے پاؤں میں چوٹ آگئی، جب گھر آئے تو سوچا کہ یہ بلا مجھ پر کہاں سے آئی؟ تو یادآگیا کہ صبح کی نماز کے بعد سورۂ یٰسین پڑھا کرتا تھا وہ آج نہیں پڑھی۔

٭      جب تک انسان راہ سلوک میں پہلے دنیا و مافیہا اور اپنی ذات کو ترک نہ کرے وہ اہل سلوک میں داخل ہی نہیں ہو سکتا، اگر سالک کی یہ حالت نہ ہو تو سمجھو جھوٹا ہے۔

٭      کوئی گناہ تمہیں اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتا جتنا مسلمان بھائی کو ذلیل و خوار کرنا۔

٭      اگر قیامت کے دن کوئی چیز بہشت میں لے جائے گی تو زُہد (دنیا سے بے رغبتی ) نہ کہ علم (اس لیے علم کے ساتھ اس پر عمل ضروری ہے اور عمل اخلاص کے ساتھ ہوتو ضرور عالم کے اندر زُہد پیدا کرے گا)

٭      نیکوں کی صحبت نیک کام سے بہتر ہے اور بروں کی صحبت برے کام سے بھی بری۔

٭      دنیا میں تین شخص بہتر ہیں: (۱) وہ عالم جو اپنے علم سے بات کہے (۲) وہ جو حرص و طمع سے دور ہو (۳) وہ عارف جو ہمیشہ دوست (یعنی خدا) کی توصیف بیان کرے۔

٭      درویشی اس بات کا نام ہے کہ جو آئے اسے محروم نہ کیا جائے، اگر بھوکا ہے کھانا کھلایا جائے اگر ننگا ہے تو عمدہ کپڑا پہنایا جائے۔ (یہ سب اقوال دلیل العارفین سے منتخب ہیں)

٭      خدا شناسی کی علامت یہ ہے کہ انسان خلقت سے بھاگے اور معرفت میں خاموش رہے۔

٭      اہل محبت کی علامت یہ ہے کہ ہمیشہ اطاعت میں مشغول رہے اور پھر بھی ڈرتا رہے کہ کہیں عتاب کا شکار نہ ہو جائے۔

٭      مرید اس وقت فقیر کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جب عالم فانی میں باقی نہ رہے، لوگوں نے دریافت کیا مرید کو کب ثابت قدم سمجھنا چاہیے فرمایا جب بیس برس ہو جائے اور گناہ لکھنے والا فرشتہ اس کا ایک گناہ بھی نہ لکھ سکے۔ (ماخوذ از سیر الاولیا، کرمانی)

٭      عارف وہ شخص ہے جو اپنے ما سوا کا خیال دل سے نکال دے تاکہ یکہ وتنہا ہوجائے جیسا کہ دوست (خدا) واحد ویکتا ہے۔

٭      میرے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مومن وہ ہے جو تین چیزوں کو پسند کرے: ۱) فقیری ۲) بیماری ۳) موت۔ جو ان چیزوں کو دوست رکھتاہے خداے تعالیٰ اور فرشتے اس کو دوست رکھتے ہیں اور اس کا بدلا جنت ہوگا۔

٭      فقیر وہ ہے کہ جس کے پاس کوئی اپنی ضرورت پیش کرے تو وہ اسے محروم نہ کرے۔

٭      متوکل (توکل والا) وہ ہے جو مخلوق سے تکلیف برداشت کرے اور اس کو کسی سے بطور شکایت بیان نہ کرے۔

٭      لوگ قربِ خداوندی سے بہرہ ور نہیں ہوسکتے جب تک کہ نماز کی پابندی نہ کریں؛ کیوں کہ یہی نماز مومن کی معراج ہے۔ میں ایک مدت تک کعبے کا طواف کرتا رہا جب حق تک پہنچ گیا، کعبہ میرا طواف کرنے لگا۔

٭      اہل محبت کی توبہ کی تین قسمیں ہیں: ۱: ندامت ۲: ترکِ مجادلت(جھگڑا چھوڑد ینا) ۳: ظلم وستم سے پاک رہنا۔

٭      محبت میں سچا وہ ہے کہ جب وہ آزمایش میں مبتلا ہو تو اسے خوش دلی اور رغبت کے ساتھ قبول کرے۔

٭      رابعہ بصریہ نے فرمایا: مولیٰ کی دوستی میں سچا وہ ہے کہ جب اسے کوئی تکلیف یا دردِ دل پہنچے تو دوست کے مشاہدے سے اس غم اور تکلیف کو بھول جائے۔ (از مونس الارواح:۳۸تا۴۱،ازشہزادی جہاں آرا بیگم، مترجمہ مولانا ڈاکٹر محمد عاصم اعظمی گھوسوی)

٭      راہِ محبت میں ولی وہ ہے جو دوعالم سے اپنے دل کو ہٹالے۔

٭      حقیقی صابر (صبر کرنے والا) وہ ہے کہ اسے مخلوق سے تکلیف واَذیت پہنچے تو وہ کسی سے شکایت کرے نہ کسی سے اس کا ذکر کرے۔

٭      ولی کی علامت یہ ہے کہ موت کو پسند کرے، عیش وراحت کو چھوڑ دے اور اللہ عزوجل کی یاد میں مشغول رہے۔

٭      سب سے بہتر وقت وہ ہے کہ جب دل وسوسوں سے پاک ہو۔

٭      جہاں بھی جاؤ کسی کا دل نہ دکھانا اور جہاں بھی رہنا گمناموں کی طرح رہنا۔

٭      چار چیزیں نفس کا جوہر ہیں(یعنی نفس کی خوبیوں سے ہیں): ۱: درویشی میں تونگری ظاہر کرنا۔ ۲: بھوک میں آسودہ نظر آنا۔ ۳: غم میں مسرور(خوش) معلوم ہونا۔ ۴:دشمنوں کے ساتھ بھی دوستی کا برتاؤ کرنا۔(مناقب العارفین ازشیخ یٰسین جھونسوی مترجم: ۲۵۴تا۲۵۶)

٭      فرمایا: مرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور ثابت قدم سمجھا جائے گا جب کہ اس کی بائیں طرف والا فرشتہ بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھے۔

        راقم الحروف (شیخ عبدالحق محدث دہلوی مؤلف اخبار الاخیار) عرض کرتا ہے کہ یہ بات اکابر متقدمین سے بھی منقول ہے اور بعض متاخرین(بعد کے) صوفیہ نے اس بات کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے کہ مرید کے لیے ہر وقت توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور توبہ واستغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھاجاتا (کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے فرشتہ انتظار کرتا ہے، اگر توبہ کرلی نہیں لکھتا، اور اگر توبہ نہ کی تب گناہ لکھتا ہے۔ن) اس کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ اس سے بالکل سرزد ہی نہ ہو۔ اسی وجہ سے مشایخ کرام اپنے مریدوں کو سوتے وقت توبہ واستغفار کی تاکید کرتے ہیں تاکہ دن بھر کے وہ گناہ جو ابھی تک رحمت الٰہی کی وجہ سے نہیں لکھے گئے ہیں وہ نہ لکھے جائیں اور نہ ظاہر ہوں۔(اخبار الاخیارمترجم:۵۶تا۵۷نورپبلی شنگ، دہلی)

٭      فرمایا: عارفوں کا بڑا بلند مقام ہوتا ہے جب وہ مقام عرفان پر پہنچ جاتے ہیں تو تمام دنیا ومافیہا(اور جوکچھ دنیا میں ہے)اپنی دو انگلیوں کے درمیان دیکھتے ہیں،(جب ایک عارف کا یہ حال ہے تو بھلا نبی کا کیا حال ہوگا!)

٭      فرمایا: محبت میں عارف کا کم سے کم مرتبہ یہ ہے کہ وہ صفاتِ حق کا مظہر ہوجائے اور محبت میں عارفِ کامل کا درجہ یہ ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابلے پر دعویٰ کرکے آئے تو وہ اپنی قوت کرامت سے اسے گرفتار کرلے۔

٭      فرمایا: بدبختی کی علامت یہ ہے کہ کوئی گناہ کرتارہے، پھر بھی مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہونے کی اُمید رکھے۔

٭      سخاوت کا بڑا درجہ ہے جس نے بھی نعمت پائی سخاوت سے پائی۔

٭      لوگ منزلِ قرب نہیں پاتے مگر نماز کی ادائیگی میں کیوں کہ نماز مومن کی معراج ہے۔ (اخبار الاخیارو مونس الارواح)

ان مذکورہ ارشادات و اقوال کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت خواجہ بزرگ کا اصل مشن دین حق اور صحیح تصوف کی روشنی پھیلانا تھا، راہ حق کے متوالوں اور معرفت کے پیاسوں کو سیراب کرنا تھا، اور اس بتکدۂ ہند میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کرنا لیکن افسوس کہ آج اس مشن کو بھول کر لوگوں نے صرف زیارت اور سیر و تفریح کو مقصد بنا لیا ہے اور بہت لوگوں نے تو مزار خواجہ کو جلب منفعت کا ذریعہ تصور کر لیا ہے۔

        آج ضرورت ہے کہ آستانۂ خواجہ سے اسلام کا پیغام حق نشر کیا جائے، توحید کا درس دیا جائے، شریعت وطریقت کا جام پلایا جائے اور کتاب و سنت کا علم پھیلایا جائے، تعلیم دین کو فروغ دیا جائے، تا کہ گھر گھر اسلام کی روشنی پھیلے ،اسلام کی حقیقی تعلیمات عام ہوں اور تعصب و تنگ نظری کا جنازہ نکلے اور فرقہ پرستی اپنے انجام کو پہنچے۔ ہے کوئی جو خواجہ غریب نواز کی آواز پر لبیک کہے اور ان کے مشن کو لے کر آگے بڑھے، ظلم و طغیان کے اس ماحول میں حق و انصاف کا اجالا پھیلائے۔

 

از:مفتی محمد عبدالمبین نعمانی قادری

بانی رکن : المجمع الاسلامی،مبارک پور اعظم گڑھ

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter