اتحاد و اتفاق کی اہمیت
حسیب احمد انصاری اشرفى
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو‘ جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضاء بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔“ (اس حدیث کو صحیح بخاری اور صحیح مسلم نے روایت کیا)۔
اس حدیث مبارک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلم معاشرے کی حقیقت بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمائی ہے مل جل کر رہنے اور اکٹھے زندگی گزارنے کا نام معاشرہ ہے، اسلامی تعلیمات کے آنے سے پہلے بھی لوگ مل جل کر رہتے تھے۔ زمین کے مختلف حصوں میں لوگ مختلف طریقوں سے زندگی گزارا کرتے تھے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو مسلم معاشرہ کی ایسی خصوصیات عطا فرمائیں کہ جن سے انسان کو محض اپنے زندہ رہنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی میں مکمل طور پر شریک ہونے کی تعلیم ملتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں انسان تہذیب و اخلاق سے ناواقف ہونے کی وجہ سے انتہائی پستیوں میں گرے ہوئے تھے‘ اسلام کا ان پر احسانِ عظیم ہے کہ ایک مختصر عرصہ میں وہی لوگ تہذیب و تمدن کے بلند پایہ معیار پر نظر آنے لگے اور ان کا معاشرہ دنیا بھر کے لیے عملی نمونہ بن گیا وہ مسلمان جس نئے ملک میں قدم رکھتے وہاں کے لوگ ان کی معاشرتی عملی زندگی سے اس قدر متاثر ہوتے کہ اسلام قبول کر لیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دین حق اسلام کی تعلیمات لے کر تشریف لائے جو لوگ آپ کی دعوت کو قبول کر لیتے ہیں وہ امت مسلمہ کے افراد بن جاتے ہیں اور یہی اسلامی برادری کا مفہوم اور اس کی حقیقت ہے۔جب انسان امت مسلمہ کا فرد بن جاتا ہے تو اس پر امت مسلمہ کے بارے میں مخصوص قسم کے حقوق عائد ہو جاتے ہیں۔ ان حقوق میں سے بنیادی حق اور امت مسلمہ کی ایک اہم خصوصیت امت مسلمہ کا اتحاد و اتفاق ہے۔ جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے خوبصورت اور حقیقی انداز میں بیان فرمایا کہ آپس کی محبت، آپس کے پیار اور مہربان ہونے میں مومنوں کی مثال ایک جسم جیسی ہے جو چند اعضاء سے مرکب ہوتا ہے جب کبھی ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارے جسم کے اعضاء بے خوابی اور بے تابی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
گویا کہ آپ کے ارشاد کے مطابق پوری امت مسلمہ ایک جسم کی طرح ہے اور امت کے افراد اس جسم کے اعضاء ہیں‘ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو تمام اعضاء تکلیف کو محسوس کرتے ہیں اسی طرح پوری ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو اپنے مسلمان بھائی کی تکلیف محسوس کرنی چاہیے اور ہر ایک کے دکھ درد میں سب کو شریک ہونا چاہیے اور یہ صرف ایک فرض ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے اس کا بہت بڑا اجر و ثواب بھی رکھا ہے۔
امت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا:
ترجمہ: ”یعنی ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا“
معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقا کے لیے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔
اور یہ بات ضرور یاد رکھنی چاہیے کہ عمارت کی تعمیر میں بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔ کئی ماہ کئی سال لگ جاتے ہیں لیکن عمارت گرتے وقت چند لمحے صرف ہوتے ہیں‘ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ پر بڑے کٹھن مرحلے آئے لیکن جب تک اتحاد و اتفاق برقرار رہا امت مسلمہ کی طرف نگاہِ غلط کی کسی کو جسارت نہ تھی کیونکہ امت مسلمہ کو خدائی حکم یاد تھا۔
ترجمہ: ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور پھوٹ مت ڈالو۔“
لیکن جب بھی امت مسلمہ کے اندر انتشار نے سر اٹھایا امت مسلمہ کمزور ہوتی چلی گئی کیونکہ اس بارے میں بھی اللہ رب العزت واضح الفاظ میں آگاہ فرما چکا ہے۔
ترجمہ: ”یعنی تم آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم مفلوج ہو جاؤ گے بے جان ہو جاؤ گے اور انتہائی کمزور ہو جاؤ گے۔“
خدائے ذوالجلال کے احکامات اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ پر یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ ہمارے اندر اتفاق و اتحاد کا پایا جانا کتنا ضروری ہے اور ایسا اتفاق ہو کہ ہم ایک بدن کی طرح ہو جائیں روئے زمین پر کسی بھی جگہ کسی مسلمان پر ظلم ہو رہا ہو یا اسے مصیبت پہنچ رہی ہو تو ہم مکمل طور پر اس کی مدد کریں اور اس سے مصیبت اور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
تاکہ اللہ رب العزت کے احكامات اور حضور اكرم صلى الله علىہ وسلم كى تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے، خیر خواہی، اعتماد و امن و سکون سے بھر پور معاشرہ قائم ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں باہمی اتحاد و اتفاق کی توفیق مرحمت فرمائے آمین