بچوں کی تربیت کیسے کریں؟
- پہلی قسط -
بلاشبہ نیک اور صالح اولاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماں باپ کے لئے بہترین نعمت ہوا کرتی ہے جو دنیا میں والدین کی عزت و عظمت میں چار چاند لگا دیتے ہیں اور ان کے مرنے کے بعد بھی دعائے مغفرت اور اعمال صالحہ سے ان کی روح کو تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں.
نبیِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذرا ملاحظہ فرمائیں : "جب انسان مر جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں سے منقطع نہیں ہوتا، (1)صدقۂ جاریہ، (2)یا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، (3)یا نیک لڑکا جو اس کے لیے دعا کرے۔" (مسلم شریف)
محترم قارئین! مذکورہ حدیث پاک کی روشنی میں ہمیں دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل کرنے کے لیے اپنے بچوں کی صالح تربیت کرنی چاہیے.
بچوں کی تربیت کے حوالے سے یہ خیال رہے کہ ہمیں ان کی نفسیات کے مطابق ان پر توجہ دینی چاہیے،جو ایک محتاط اور باذوق ماں کی تربیت سے ممکن ہے کیوں کہ پہلا مدرسہ جو بچوں کی زندگی کو اچھا یا برا بنانے والا ہے وہ ماں کی ٹھنڈی میٹھی اور شفقت بھری گود ہے.
دیندار مائیں جو اپنے بچوں کا حق خوب اچھی طرح جانتی ہیں وہ اپنے بچوں پر جب محنت کرتی ہیں تو بچہ مادرزاد ولی بن جاتا ہے اس حوالے سے تاریخ میں غوث پاک شیخ عبدالقادر جیلانی کی والدہ کا واقعہ بہت مشہور ہے.
والدین کو بچے کی تربیت کا خیال وقتِ پیدائش سے قبل ہی کرنی چاہیے، بلکہ زمانۂ حمل سے پہلے ہی تربیتی خاکہ تیار کر لینا زیادہ مناسب ہے، اور ایامِ حمل سے بچے کی تربیت شروع کر دینی چاہیے کیونکہ بچے شکمِ مادر ہی سے اپنی ماں کی عادت و اطوار سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی شرم وحیا، اچھائیوں اور برائیوں کے اثر کو قبول کرتے ہیں ۔
بہت سے والدین جن کے دل کی یہ تڑپ ہوتی ہے کہ ہم دنیا میں کوئی نمایاں کام نہ کرسکے، یا قوم و ملت کے لئے باعثِ افتخار نہ بن سکے، لیکن اپنے بچوں کو تعلیم و تربیت کی عظیم دولت سے ضرور روشناس کرائیں گے اور انہیں قوم و ملت کے لئے قیمتی سرمایہ بنائیں گے،
مگر بچے کی تربیت کے نام پر ہمارے معاشرہ میں ہوتا کیا ہے؟ بچے سے گالی گلوچ کرنا،مارنا، بے جا سختی کرنا اور یہ گمان کرنا کہ الفت و محبت سے پیش آنے پر بچے کی عادت بگڑ جائے گی، یہ چیزیں بچے کے اندر عزتِ نفس پیدا کرنے کے بجائے اسکی عزتِ نفس مار دیتی ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہی بچہ ناکارہ اور ظالم ہو جاتا ہے۔
خیال رہے! مار بچوں کے اندر ڈر تو پیدا کر سکتی ہے لیکن عزت و حوصلہ نہیں۔
ہاں! ضرورت پڑنے پر ضرور تنبیہ کر دینی چاہیے جیسے اس نے کسی دن چوری کر لیا تو ایسی صورت میں اس کی تعریف و توصیف نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے ناراضگی ظاہر کریں اور اسے برے کام سے بچنے کی نصیحت کریں، اگر آپ چوری کرنے پر اسے سراہیں گے تو بڑا چور بننے سے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور ایسے ہی کسی دن بچے کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ لیں تو تنبیہ ضروری ہے تاکہ آگے چل کر شراب پینے کے دلدل میں نہ ڈوب جائے،
ایسی حالت میں حسنِ تربیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ آپ غصے میں آکر سگریٹ توڑ کر پھینک دیں، اس سے اس پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا کیونکہ وہ دوسرا خرید کر پھر پینے پر قادر ہے ، اور نہ ہی اٹھک پٹک کر جان لیوا پٹائی کریں، نہیں تو ممکن ہے آپ سے ڈر کی وجہ سے چھپ کر پینے لگے، ایسی باتیں معاشرے میں بہت عام ہوتی جارہی ہیں، بلکہ حسنِ تربیت کا تقاضا اور طریقہ یہ ہے کہ آپ جڑ سے اس بیماری کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور بچے کو احساس دلائیں کہ آپ تو اچھے بچے ہو مگر آپ کا یہ فعل بہت برا ہے، اور بچے کو نقصان دہ اور دشمن صفت صحبت سے بچانے کی بھر پور کوشش کرتے رہیں ، دانشوروں کا مقولہ ہے "جو شخص اپنے بچوں کو ادب سکھاتا ہے وہ دشمن کو ذلیل و خوار کرتا ہے"۔
والدین اوراساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار محبت سے پیش آئیں.اور انہیں اخلاق و کردار کا سبق ذہن نشین کرانے کے لئے 'تُو'تُم' جیسے غیر مہذب الفاظ کی جگہ 'آپ' کہہ کر باہم گفتگو کریں،
اور بسا اوقات انہیں یہ احساس بھی دلائیں کہ وہ بہت خاص اور بہادر انسان ہیں تاکہ ان کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوسکے،
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ "جس کام کے متعلق بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہو گئی کہ وہ فلاں کام کر سکتے ہیں" تو سمجھ لیجیے کہ اس کام میں انہیں نصف کامیابی اس خود اعتمادی ہی نے دلا دی.اب صرف بقیہ نصف کے لئےجد وجہد کی ضرورت ہے،
لیکن اگر خدا نخواستہ ان کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ "وہ فلاں کام انجام دینے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں" تو پھر سمجھ لیجیے کہ میدانِ عمل میں انہیں ناکامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس لئے وقتاً فوقتاً حوصلہ افزائی نہایت ضروری ہے،اور ساتھ ہی والدین کو یہ بھی چاہیے کہ وہ حوصلہ شکن اور مایوس کن گفتگو سے پرہیز کریں کیوں کہ ان کی ایسی گفتگو کا بچوں کے ذہن و دماغ پر بہت برا اثر پڑ تا ہے ۔
بہت سے حضرات اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ حوصلہ شکنی یا منفی باتیں بچوں پر کچھ اثرات مرتب نہیں کرتیں یہ صرف ان کی خام خیالی اور حقیقت سے نظریں پھیرنا ہے۔
اس کو یوں سمجھیں کہ آپ کی دلی خواہش ہے کہ آپ حافظِ قرآن، عالم دین، ڈاکٹر، یا انجینئر وغیرہ کچھ بن جائیں لیکن اس پر آپ کے دوست و احباب حوصلہ افزائی اور ہمت بڑھانے کے بجائے آپ پر جملے کستے ہوئے یہ کہنا شروع کر دیں: کہ تُم کچھ نہیں بن سکتے، تُم کچھ بننے کے لائق ہی نہیں ہو، ایسے خواب مت دیکھو جس کی تعبیر تم نہیں پاسکتے۔
ذرا سوچئےکہ کیا اس طرح کے طنزیہ جملے تیر و تلوار بن کر آپ کے دل میں نہ چبھیں گے اور آپ کی خواہشوں کا جنازہ نہ نکال دیں گے؟ اور اگر اس طرح کے منفی جملے آپ کے اپنے گھر والوں کے ہوں خاص کر ماں باپ کے، تو بہت ممکن ہے کہ آپ کی قابلیت غیر قابلیت میں بدل جائے اور آپ اپنی آرزوؤں کی تکمیل سے مکمل طور پر ناامید ہو جائیں۔
لہذا بچوں کے حوالے سے باشعور والدین کو ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے کہ کہیں انجانے میں وہ خود ان کی ناکامی کا سبب نہ بن جائیں ۔