صفر کا مہینہ اور بدشگونی۔۔۔!
صفر کا مہینہ اور بدشگونی۔۔۔!
صفر کے مہینے کی حقیقت: قرآن کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ نے سوره بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا :وَ جَعَلْنَا الَّیْلَ وَ النَّهَارَ اٰیَتَیْنِ فَمَحَوْنَاۤ اٰیَةَ الَّیْلِ وَ جَعَلْنَاۤ اٰیَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَؕ-وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا (سوره بنی اسرائیل/12)اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹاہو اکیا اور دن کی نشانی کو دیکھنے والی بنایا تا کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور تا کہ تم سالوں کی گنتی اور حساب جان لو اور ہم نے ہر چیز کوخوب جدا جدا تفصیل سے بیان کردیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ سوره بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے: یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِؕ-قُلْ هِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَجِّؕ- (سوره بقرہ/189 ) تم سے نئے چاند کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔تم فرمادو،یہ لوگوں اور حج کے لئے وقت کی علامتیں ۔
صفر کے مہینے کی حقیقت: احادیث کی روشنی میں
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، وَمَا مِنَّا إِلَّا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ“ (سنن ابی داود ) ”بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔ ہر ایک کو کبھی نہ کبھی وہم ہو جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ توکل کی وجہ سے اسے زائل فرما دیتا ہے“۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:"لاَ عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ، وَلاَ صَفَرَ" (متفق عليه) "نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ بدشگونی کی کوئی حقیقت ہے، نہ اُلو کی نحوست ہے اور نہ صفر کے مہینے کی کوئی نحوست"۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: "لاَ عَدْوَى، وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ صَفَرَ، وَلاَ غُولَ" (متفق عليه) "کوئی بیماری خود بہ خود نہیں پھیلتی، نہ بدشگونی کی کوئی بنیاد ہے، نہ صفر منحوس ہے اور نہ کوئی بھوت پریت ہوتا ہے"۔
مسند احمد میں روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مَنْ رَدَّتْهُ الطِّيَرَةُ عَنْ حَاجَتِهِ، فَقَدْ أَشْرَكَ" کہ "جس شخص نے بدفالی کی وجہ سے اپنے کام کو چھوڑ دیا، اُس نے شرک کیا"۔
مذكوره بالا آیات و احاديث سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی مہینے، ایام و لیالي سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہیں، ان میں سے کسی کو منحوس سمجھنا درست نہیں۔
صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے حوالے سے لوگوں میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جنہیں اختیار کرکے انسان نہ صرف دنیا میں بہت سی حلال چیزوں کو اپنے لیے حرام کر لیتا ہے، بلکہ شرک بھی اس میں شامل کر لیتا ہے۔ ایک طرف بہت سے توہمات اور بدشگونیاں پیدا کر لی گئی ہیں، تو دوسری طرف ان کا حل بھی خود سے تلاش کر لیا گیا ہے۔ مثلاً: اس مہینے میں شادی نہ کرنا، چنے اُبال کر محلے میں بانٹنا تاکہ ہماری بلائیں دوسروں کی طرف چلی جائیں، آٹے کی تین سو پینسٹھ (365) گولیاں بنا کر تالابوں میں ڈالنا تاکہ بلائیں ٹل جائیں اور رزق میں ترقی ہو، تین سو گیارہ یا اس سے زیادہ مرتبہ سورہ مزمل کا پڑھنا، اس مہینے میں مردوں کو بھاری سمجھنا، اور تیرہ تاریخ کو منحوس سمجھنا، جس کو "تیرہ تیزی" بھی کہا جاتا ہے۔ان تمام باتوں کی دین میں کوئی حیثیت نہیں کیونکہ ماہ و سال رات اور دن کے آنے جانے سے ترتیب پاتے ہیں، یہ سب اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔
قمری کیلنڈر حقیقت میں ایک عالمی کیلنڈر ہے۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے یہ اہتمام کر دیا ہے کہ وہ آسانی سے تاریخوں کو معلوم کر سکے۔ چاند اللہ تعالیٰ کے ضابطے کا پابند ہے، اس لیے اُس کے گھٹنے اور بڑھنے سے نہ کسی کی قسمت پر اثر پڑتا ہے اور نہ ہی کسی خاص مہینے کا چاند نظر آنے سے کسی نحوست کی ابتدا ہوتی ہے، اور نہ ہی کسی کی خوش قسمتی کا آغاز ہوتا ہے کیونکہ انسان کی خوش قسمتی اور بدقسمتی کا دارومدار سورج، چاند اور ستاروں کی گردش پر نہیں بلکہ انسان کے اپنے عمل پر ہے۔
چنانچہ اسلامی کیلنڈر ہو یا انگریزی کیلنڈر، مہینے وہی ہیں؛ کہیں محرم، صفر ہے تو کہیں جنوری، فروری۔ نام مختلف ہیں لیکن تعداد بارہ مہینے ہی ہیں۔ صفر وہ مہینہ ہے جس میں رسول ﷺ نے معمول کی عبادت کے علاوہ نہ کوئی خاص عبادت کی اور نہ ہمیں اس کا حکم دیا، اور نہ کسی خاص بلا سے بچنے کے لیے خبردار کیا۔ عربوں کے ہاں اس مہینے کے متعلق جو غلط تصورات پائے جاتے تھے، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عرب حرمت کی وجہ سے تین مہینے: ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم میں جنگ و جدال نہیں کرتے تھے۔ جیسے ہی تین مہینے ختم ہوتے، صفر کے مہینے میں لوٹ مار، جنگ و جدال کے ارادے سے گھروں سے نکلتے تو اُن کے گھر خالی رہ جاتے تھے۔ اسى مناسبت سے عربی میں ایک محاورہ "صَفَرَ الْمَکَانُ" (گھر خالی ہوگیا)، مشہور ہوگیا۔ عربوں نے جب دیکھا کہ اس مہینے میں لوگ قتل ہوتے ہیں اور گھر برباد یا خالی ہو جاتے ہیں تو انہوں نے اس سے یہ شگون لیا کہ یہ صفر کا مہینہ ہمارے لیے منحوس ہے۔ گھروں کی بربادی اور ویرانی کی اصل وجہ پر غور نہ کیا، نہ ہی اپنے عمل کی خرابی کا احساس کیا، اور نہ ہی جنگ و جدال سے خود کو باز رکھا، بلکہ صفر کے مہینے کو ہی منحوس ٹھہرا دیا۔
انسان کی نحوست کا تعلق اس کے اپنے عمل سے ہے، جبکہ انسان عموماً یہ سمجھتا ہے کہ نحوست کہیں باہر سے آتی ہے۔ چنانچہ وہ کبھی کسی انسان کو، کبھی کسی جانور کو، کبھی کسی عدد (یعنی نمبرز: ۳، ۱۳، ۸۱) اور کبھی کسی مہینے کو منحوس قرار دینے لگتا ہے۔ اسلام میں کوئی دن، جگہ یا انسان منحوس نہیں، بلکہ وہ انسان کا اپنا طرزِ عمل، رویہ، اخلاق اور طریقہ ہوتا ہے جو اُس کے لیے آزمائشوں کا سبب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید كى سورہ نساء آیت نمبر ۷۹ میں ارشاد فرماتا ہے : مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ٘-وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ" کہ اے سننے والے! تجھے جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی طرف سے ہے ۔ مسند احمد میں روایت ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی چیز سے بدشگونی پکڑ کر اپنے طے کردہ مقصد سے پیچھے ہٹ گیا، اُس نے شرک کیا۔ صحابہ رضى الله عنہم نے پوچھا: "اے اللہ کے رسول ﷺ! اس کا کفارہ کیا ہوگا؟"۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص یہ دعا کثرت سے کہے: "اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُكَ / وَلَا طَيْرَ إِلَّا طَيْرُكَ / وَلَا إِلَٰهَ غَيْرُكَ" يعنى "اے اللہ! تیری دی ہوئی بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں، تیرے سوا کسی کی فال (نیک یا بد شگون) نہیں، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں"۔
مثال کے طور پر ایک شخص گھر سے نکلا، کالی بلی راستہ کاٹ گئی تو اُس نے اُسے منحوس سمجھا اور گھر واپس آگیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے مگر حقیقت میں یہ شرک ہے، کیونکہ کسی بھی شخص کا نفع یا نقصان بلی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اپنی ہی لاپرواہی کی وجہ سے کوئی کام خراب ہو جاتا ہے، اور شیطان ہمیں سمجھاتا ہے کہ یہ ساری خرابی فلاں شخص کی وجہ سے ہوئی ہے، کیونکہ وہ صبح صبح نظر آگیا تو سارا دن خراب گزرے گا اور کوئی کام درست نہیں ہوگا۔ اسی طرح آنکھ پھڑکنے سے خوف زدہ ہو جانا، یا ہاتھ میں خارش ہونے سے اُمید لگا لینا کہ آج مال ملے گا، یا جوتے پہ جوتا آ گیا تو سفر پیش آئے گا۔ رنگوں سے شگون لینا ہمارے معاشرے میں عام ہے، جیسے: کالا رنگ نہ پہننا کہ بیمار پڑ جاؤ گے، یا احترام کے خلاف ہوگا کیونکہ خانہ کعبہ کا غلاف بھی کالا ہے۔
اس طرح انسان نے خود سے اپنے طور پر کچھ چیزیں حرام کر لیں بلکہ اُن کے ساتھ اپنی قسمت بھی جوڑ لی ہے۔
یہ سب ایسے وسوسے اور توہمات ہیں جن کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ شیطان انسان کو شرک میں مبتلا کر کے اُس کے اعمال ضائع کرواتا ہے۔ یہ توہمات اور بدشگونیاں انسان کو اندر سے کمزور کر دیتی ہیں، اس کے برعکس اللہ کی ذات پر پختہ ایمان اور توکل انسان کو جُرات، بہادری اور اعتماد دیتا ہے، اُسے جینے کا ڈھنگ سکھاتا ہے۔ اللہ پر توکل رکھتے ہوئے اپنا کام جاری رکھیں۔
صفر کے مہینے میں شادی کرنے سے رک جانا، بچے کا عقیقہ نہ کرنا، دیگر تقریبات نہ منانا، اسلام کا طرزِ عمل نہیں ہے۔ جتنے بھی یہ خرافات ہیں اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ماہِ صفر کے حوالے سے ایک اور انتہا یہ ہے کہ ایک طرف اس کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف خوشی منائی جاتی ہے، اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ رسول ﷺ بیماری کے بعد اس دن صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے نکلے تھے۔ اس من گھڑت بات کو بنیاد بنا کر اس مہینے کے آخری بدھ کو چھٹی کی جاتی ہے، میٹھائی بانٹی جاتی ہے۔ خواتین اس دن اچھے کپڑے پہنتی ہیں، لوگ خاص طور پر تفریح کے لیے باغ کا رُخ کرتے ہیں۔ جب کہ اس کی نہ تو سیرت کی کتابوں میں دلیل ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ایک مسلمان کا عقیدہ مضبوط اور ذہن واضح ہونا چاہیے کہ خوشی اور غم، نفع اور نقصان سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ کوئی تکلیف نہیں آ سکتی جب تک اللہ نہ چاہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید كى سورہ توبہ آیت نمبر ۵۱ میں ارشاد فرماتا ہے : قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(51) تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
یہی سوچ انسان کو ہر حال میں مطمئن رکھتی ہے کہ جو ہوا، اللہ تعالیٰ کے اذن سے ہوا، اور اس میں ضرور اللہ کی کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ اس طرح عقیدہ توحید مزید پختہ ہوتا ہے، اور انسان جان لیتا ہے کہ اصل پناہ دینے والی ذات صرف اور صرف اللہ کی ہے۔ اس طرح وہ شرک جیسے گناہ سے بچا رہتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود کچھ مہینوں کو بابرکت مانا جاتا ہے، اور من گھڑت رسموں اور عبادات کے لیے خاص کیا جاتا ہے۔ اور کچھ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں کوئی خوشی والا کام، کاروبار کا آغاز، رشتہ یا شادی بیاہ یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اس طرح کے خیالات کہاں سے آئے؟ جو باتیں کسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں، دل اور دماغوں میں ڈال دی جاتی ہیں، انہیں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن جو بات اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی طرف سے بتائی جاتی ہیں، پوری تحقیق کے ساتھ، سچی اور ثابت شدہ حوالوں کے ساتھ، تو اُسے ماننے میں طرح طرح کی باتیں، منطق و فلسفہ، دل و دماغ کی کسوٹی استعمال کر کے فرار حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون ایسا مسلمان ہوگا جو اس مہینے کو یا کسی بھی مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے؟
بقولِ علامہ اقبال:
حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ اُمت روایات میں کھو گئی