بچوں کو ہفتہ واری نمازی نہ بنائیں
نماز اسلام کا رکن ہے ۔ تمام عبادتوں میں افضل عبادت نماز ہے ۔نماز مومن کی معراج ہے ۔نماز سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔نماز رب سے قریب کرنے والی ہے ۔نماز بے حیائی سے روکتی ہے ۔ نماز گناہوں سے پاک کرنے والی ہے ۔نمازمسلم کی پہچان ہے ۔رب کی یاد ہے نماز ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز قائم کیا اس نے دین قائم کیا اور جس نے نماز ترک کیا اس نے دین کو ڈھایا ۔گویا نماز کی پابندی دین کی مضبوطی ہے ۔ اس کا چھوڑنا دین کو کمزور کرنا ہے ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے موسم خزاں میں ایک درخت کی شاخوں کو پکڑ کر ہلایا تو پتے جھڑنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا جب بندہ نماز پڑھتا ہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑ گئے ۔ ایسی بے شمار حدیثیں ہیں جو نماز کی فضیلت بیان کرتی ہیں ۔ ایک بڑی مشہور و معروف حدیث کا مفہوم ہے کہ پنج وقتہ نماز کی مثال اس نہر کے مانند ہے جو کسی کے گھر کے باہر سے بہتی ہے اور وہ اس میں پانچ دفعہ نہاتا ہے۔ جس طرح پانچ بار غسل کرنے سے بدن پر کچھ میل باقی نہیں رہتا اسی طرح پانچ وقت کی نماز پڑھنے سے گناہ بھی باقی نہیں رہتے ۔ترمذی شریف میں ہے صحابہ کرام اعمال میں کسی کے ترک کرنے کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے ۔
نماز وہ واحد عبادت ہے جو ہر حالت میں فرض ہے ۔ سفر میں قصر ہے مگر چھوڑ نہیں سکتے ۔بیمار ہیں نماز ترک نہیں کر سکتے ۔ کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے، بیٹھ کر پڑھنے کا حکم ہے ۔ بیٹھنے پر قادر نہیں لیٹ کر پڑھنے کا حکم ہے ۔وضو کے لئے پانی دستیاب نہیں یا استعمال نہیں کر سکتے تیمم کرنے کہا گیا ہے ۔ وقت پر ادا نہیں ہوسکی، قضا پڑھنے کا حکم ہے ۔ غرض ہر حالت میں نماز پڑھنا ضروری ہے ۔صرف عورتوں کو ان کے مخصوص ایام میں نماز معاف ہے ۔سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں ۔ اور انہیں نماز ترک کرنے پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں ۔سات سال کی عمر سے نماز کی تاکید اس لئے کی جا رہی ہے تاکہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو انہیں نماز پڑھنے کی عادت رہے ۔ مگر ہم اور ہمارا معاشرہ اس کے بالکل برعکس ہے ۔ ہمارے گھروں میں نماز پڑھنے کا چلن نہیں ہے ۔ گھر کے بڑے چاہے مرد حضرات ہوں یا خواتین نماز کی پابندی نہیں کرتے ۔ الا ماشاء اللہ چند معدودے گھر ایسے ہوں گے جہاں ان سب باتوں کا اہتمام ہوتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں تین طرح کے نمازی حضرات پائے جاتے ہیں ۔ ایک ہفتہ واری نمازی یعنی صرف جمعہ کی دو رکعت ۔ دوسرے رمضان کے نمازی اور تیسرے پنج وقتہ نمازی ۔ اول الذکر کے نمازی جمعہ کی نماز کا بڑا اہتمام کرتے ہیں ۔کرنا بھی چاہئے ۔ سفید کرتا پاجامہ، سرمہ ، عطر دستی رومال اور خوبصورت کلاہ زیب تن کیے ساتھ میں اپنے کمسن لڑکوں کو لے کر وقت سے پہلے مسجد پہنچ جاتے ہیں ۔ ثانی الذکر نمازی حضرات رمضان کا پورا مہینہ نماز روزہ اور تراویح کی پابندی کرتے ہیں ۔ چند بد نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو جمعہ اور رمضان المبارک میں بھی نماز روزے کی پابندی نہیں کرتے۔ تیسرا گروہ پہلے دونوں گروہوں سے نالاں رہتا ہے ۔ وہ اس طرح کے روزانہ انہیں پہلی دوسری صف میں جگہ مل جاتی ہے جمعہ اور رمضان میں یہ بالکل دروازے کے نزدیک یا مسجد کے باہر ہوجاتے ہیں ۔
بچوں کو ہفتے میں ایک بار مسجد لے جانے سے ان کے دماغ میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ صرف جمعہ کی دو رکعت ہی نماز ہے ۔ بڑے ہونے پر یہ بھی اپنے بچوں کو صرف جمعہ میں لے کر جائیں گے ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنے والد کو اس طرح کرتے دیکھا ہے ۔ اور یہی سلسلہ جاری رہے گا۔ ہمارے دادا نے ایسا ہمارے والد کے ساتھ کیا ۔ والد صاحب نے ہمیں ہفتہ واری نمازی بنایا ہم اپنے بچوں کو جمعہ والا بنائیں گے ۔ بچے بڑے حساس ہوتے ہیں وہ جیسا دیکھتے ہیں ویساہو بہو کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایک دفعہ ایک بچے نے اپنے گھر کی خوبصورت پینٹنگ بنائی اس میں سب کے کمرے بنائے باپ نے پوچھا میرا کمرہ کہاں ہے ؟اس نے گھر کے باہر بنی ایک لائن کے آخری سرے کی طرف پینسل سے اشارہ کر کے بتایا یہ آپ کا کمرہ ہے ۔ چونکہ اس کے دادا بھی گھر کے باہر رہتے تھے ۔بچے نے کہا جب آپ دادا بن جائیں گے تو آپ کا کمرہ بھی باہر ہوگا ۔ والدین بچوں کے سامنے جیسا کرتے ہیں بچوں پر اس کا گہراا ثر پڑتا ہے۔ گھر میں اگر دینی ماحول ہوگا بچے بھی اسی ماحول میں ڈھلتے ہیں ۔گھر میں جیسا رنگ ہوتا ہے بچے بھی اسی رنگ میں رچ بس جاتے ہیں ۔ کئی علمی و ادبی شخصیات کا بیان ہے کہ ان کے بچپن میں گھر کا ماحول بڑا علمی و ادبی تھا اس لیے انہیں بھی علم و ادب کا چسکا لگا ۔ اولاد بہت بڑی نعمت ہوتی ہے ۔ اس کی درست پرورش کرنا والدین کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔اللہ تعالی توفیق دے آمین ۔
آصف شاہ ہدوی ۔ بھیونڈی ۔ مہاراشٹرا ۔