کائنات کے ذرے ذرے توحید الٰہی کے شاہد ہیں
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اسلام کے تمام تعلیمات کا آغاز لا الہ الا اللہ سے ہوتا ہے۔ تمام دینی تعلیمات کا محور عقیدۂ توحید ہے۔ توحید الہی کے ایمان میں ہر شے کا مفاد مضمر ہے۔ اللہ تبارک و تعالی کی توحید پر ایمان رکھنا انسانوں کو ان کی عزت ، ان کی پہچان اور اشرف المخلوقات ہونے کا شرف بخشتا ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کو انسان کی غلامی اور بندگی سے نجات دلاتا ہے ، اور انہیں ایک خدا -جو تمام کائنات کا خالق ہے- کی عبادت کی طرف لے جاتا ہے۔
آج تک دنیا میں توحید کے موضوع پر جتنے بھی فلسفیانہ، سائنسی ابحاث ہوئی ہیں ، یا سائنسی تحقیقات ہوئے ہیں ان سب سے سر توحید ظاہر ہوتا رہا ہے۔ جدید سائنسی مطالعے توحید الہی کا راز بے نقاب ہو رہا ہے۔ توحید اپنے استحکام کو پہنچ رہا ہے۔ علم فلسفہ اور سائنس کے جدید تحقیقات اللہ کے ایک ہونے کے عقیدہ کو راسخ کر رہا ہے۔ مسلمانوں کا زمانہء اول سے یہ عقیدہ رہا ہے کہ وہ بغیر کسی دلیل وثبوت کے اللہ کو ایک ماننے کے پابند ہیں ، لیکن سائنسی حقائق کا مطالعہ اور سائنسی دلائل و تحقیقات انسانوں کو اللہ تعالی سے اور زیادہ قریب کر دیتے ہیں۔ دلائل توحید و ثبوت الہی کا علم ایمان کو کمال اور پختگی تک پہنچاتا ہے۔ توحید کے دلائل تلاش کرنے سے ایمان باللہ میں ضعف نہیں آتا بلکہ اس میں مضبوطی اور تقویت حاصل ہوتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور جدید تحقیقات سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پوری کائنات ایک ہی نظام کے ماتحت ہے۔ اور یہی چیز کائنات کا ایک مالک ہونا اور اس کے موجود ہونے میں دلائل کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ گویا تمام سائنسی مشاہدات ، فلسفیانہ افکار ، علمی دلائل اور دیگر علوم توحید الہی کا اقرار کرتا ہے۔
عقیدۂ توحید اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک رکن ہے۔ اس کے تقاضوں کے مطابق انسان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اللہ تبارک و تعالی ایک ہے اور وہ ذات، اسماء اور صفات میں بھی منفرد اور بے نظیر ہے۔ تمام نوع انسانیت کو یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ہر قسم کی عبادت کا مستحق صرف اللہ ہی ہے ، اس کے علاوہ دوسرا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ زمین و آسمان اور دیگر تمام چیزوں کا خالق و مالک صرف اللہ ہی ہے۔ وہی سب کو رزق دیتا ہے۔ پوری کائنات خدا کی سلطنت میں ہے اور اس میں کوئی دوسرا خدا کا حصہ دار نہیں ہو سکتا ۔
توحید پر ایمان رکھنا ایک انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے۔ نوع انسانیت میں اخوت اور محبت کو فروغ دیتا ہے۔عقیدۂ توحید سے ہی انسانوں کے اندر اتحاد و اتفاق پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مختلف خداؤں پر ایمان رکھنا تفرقہ اور عداوت کو فروغ دیتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کا غلام اور بندہ ہونے کو اور دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کو ابھارتا ہے۔ عالمی نظام میں طبقاتی نظام پیدا کرتا ہے۔ گویا ایک سے زائد خداؤں پر ایمان رکھنا تمام قسموں کی غلامی اور ذلت و خواری کا باعث بنتا ہے۔ جب انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ اس دنیا میں بھلائی اور برائی کا مالک اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے تو اس کا سر کسی کے آگے نہیں جھکتا۔ اللہ تبارک و تعالی سورۃ التوبہ آیت 51 میں ارشاد فرماتا ہے۔ " قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا " "اے محبوب آپ فرما دیجئے کہ ہمیں ہرگز کوئی برائی یا بھلائی نہیں پہنچتی مگر وہ جو اس نے ہمارے لئے لکھ دی ہے'۔
عقل بھی توحید کا شاہد ہے
اللہ کا ایک ہونے کی عقل بھی گواہی دیتی ہے۔ اگر ہم عقل سلیم سے سوچیں گے تو ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اس کائنات کے نظام کو چلانے والا ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ صرف اس کا خالق ہی ہو سکتا ہے۔ اس طرح کئی خداؤں کے عقیدے کا برملا اظہار کرنے والے بھی ایک ہی اللہ کی پناہ لیتے ہیں۔ حتی کہ تثلیث کا عقیدہ رکھنے والے عیسائی جب اس تصور کو عقل کے کسوٹی پر رکھ کر دیکھتے ہیں تو الجھن محسوس کرتے ہیں۔ اور اس الجھن کو دور کرنے کے لئے عقیدۂ توحید کی پناہ لیتے ہیں۔ اور اس کے لیے وہ فلسفیانہ افکار بیان کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ باپ ، بیٹا اور روح القدس میں ایک خدا ہے۔ اس طرح عیسائی حضرات توحید کا اقرار کرتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں لوگ کئی خداؤں کی عبادت کرنے والے تھے ، اور آج بھی بے شمار ایسے لوگ ہیں۔ لیکن ان کے پاس بھی یہ عقیدہ تھا کہ وہ ان تمام خداؤں کا بھی ایک خدا ہے - سب سے بڑے خدا کو تسلیم کیا کرتے تھے۔
قرآن نے پیغامِ توحید کو ہر لحاظ سے بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے قرآن میں عقیدۂ توحید کو عقل و منطق کے ذریعے ثابت کیا ہے۔ قرآن کی ایک آیت کریمہ کا مفہوم ہے کہ کائنات کا خالق اور اس کا نظام چلانے والا ایک ہی ہوسکتا ہے۔ ایمان و اسلام برقرار رہنے کے لیے عقیدۂ توحید کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے۔ " قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾." 'اے نبی آپ فرمادیجیے وہ اللہ ہے وہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے ، نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ، اور نہ اس کے جوڑے کا کوئی"۔ سورۃ القصص آیت 88 میں توحید کے عقیدہ کو اجاگر کیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ۔ "ولا تدع مع الله الها اخر لا اله الا هو كل شيء هالك الا وجهه" 'اور اللہ کے ساتھ دوسرے خدا کو نہ پوج ، اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، ہر چیز فانی ہے سوائے اس کی ذات کے۔'
اللہ تبارک و تعالی اپنی وحدانیت اور توحید کی دلیل بتاتے ہوئے قرآن میں فرماتا ہے۔ " وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ ﴿١٩﴾ يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ ﴿٢٠﴾ أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِّنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنشِرُونَ ﴿٢١﴾ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّـهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿٢٢﴾ (الأنبياء ، الآية ١٩-٢٢) 'اور اسی کے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ اور اسی کے پاس والے اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکیں۔ رات دن اس کی پاکی بولتے ہیں اور سستی نہیں کرتے ، زمین سے کچھ ایسے خدا بنا لیے ہیں وہ کچھ پیدا کرتے ہیں۔ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا اور خدا ہوتے تو ضرور تباہ ہوجاتے۔ تو پاکی ہے ، اللّٰہ عرش کے مالک ان باتوں سے جو یہ بناتے ہیں"۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے ہمیں یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کسی گھر کے دو مالک ہوں تو اس کا نظام بھی بخیریت نہیں چل سکتا تو اس کائنات کا نظام کا کیا جس کا پورا نظام زمین سے لے کر آسمان تک ایک ہمہ گیر دستور و قانون پر چل رہا ہے۔ اگر اس کائنات کا خالق و مالک ایک سے زائد ہوتے تو اس کائنات کا نظام کب کا درہم برہم ہو گیا ہوتا۔ اور ایک مالک دوسرے مالک سے فرمانروا ہوتا اور کائنات کا نظام ایک لمحے کے لیے بھی قائم نہ رہتا۔ اور بہت سارے خداؤں میں ٹکراؤ سے کائنات کا نظام پاش پاش ہو کر رہ جاتا۔ چونکہ کائنات کا نظام زمانہ تخلیق سے آج تک قائم ہے اور پورے منظم طریقے سے چل رہا ہے۔ یہ پوری کائنات کا ایک خالق ہونے کا حتمی نتیجہ ہے۔ قرآن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ کائنات کے نظام میں یکسانیت کی وجہ سے نظامِ کائنات میں بگاڑ نہیں ہوتا۔ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔ " مَا اتَّخَذَ اللَّـهُ مِن وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ "(المؤمنون الآية ٩١) 'اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ، اور کوئی دوسرا خدا اس کے ساتھ نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنے خلق کو لے کر الگ ہو جاتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔ پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں'۔
جب ایک ریاست کے دو حکمراں نہیں ہو سکتے ، ایک گاڑی کے دو ڈرائیور نہیں ہو سکتےہیں تو یہ کیسے ممکن ہوگا کہ اس کائنات - جو ایک منظم طریقے سے چل رہی ہے - کے دو یا زیادہ خدا ہو۔ اسی کے متعلق اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے۔ " لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ " کہ اگر آسمان و زمین میں اللہ کے سوا کوئی اور خدا ہوتا تو سب تباہ وبرباد ہو جاتا۔ اللہ کی توحید کا اس سے زیادہ طاقتور اور ٹھوس ثبوت کوئی اور نہیں ہوسکتا کیونکہ ہر عقلمند انسان کے لیے توحید الٰہی کا یہ ثبوت کافی ہے۔
فلسفہ بھی عقیدۂ توحید کی حمایت کرتا ہے
علم فلسفہ میں توحید کے موضوع پر بے شمار نظریات اور افکار پیش کئے گئے ہیں ۔ ان میں سے ہر وہ نظریہ باطل اور فاسد ثابت ہوا جو ایک سے زیادہ خداؤں کی طرف داری کرتا ہے۔ صرف اسی فلسفے کو کامیابی ملی جو توحید کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
فلسفیانہ نظریہ کے مطابق اگر چند خداؤں کا وجود فرض کیا جاۓ تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک سب کچھ تن و تنہا کرنے پر قادر ہو گا یا قاصر ہوگا۔ اس کا جواب دو صورتوں سے دیا جا سکتا ہے اور دونوں صورتوں میں اللہ کی توحید ہی ثابت ہوتی ہے۔
پہلی صورت یہ کہ اگر مفروضہ خداؤں میں سے ہر خدا تن و تنہا سب کچھ کرنے پر قادر ہے تو ایک سے زائد خدا کا کیا فائدہ ہوگا؟ اس میں عقیدۂ توحید ہی صحیح نتیجے تک پہنچاتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ اگر مفروضہ خدا سارے کام تن تنہا انجام نہیں دے سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان مفروضہ خداؤں میں سے ہر خدا درجہ الوہیت سے کمتر ہے اور ایک دوسرے کے مددگار ہيں۔ جب کہ خدا کو قادر مطلق اور ہر لحاظ سے کامل ہونا چاہیے۔
حاصل کلام یہ کہ خدا ایک ، قادر مطلق اور ہر لحاظ سے کامل ہونا چاہیے کہ قدرت کا کوئی حد نہیں بلکہ لا محدود ہوں۔
کائنات کے ذرے ذرے سے توحید الٰہی کا ثبوت ملتا ہے۔ دن رات کا آنا جانا، موسموں کا بدلنا ، درختوں سے پھل کا نکلنا ، چرندوں پرندوں کا اپنے گھر سے صبح سویرے خالی پیٹ نکلنا اور سورج نکلتے ہى روزی روٹی کے ساتھ واپس آنا۔ گویا اس کائنات کی تمام حرکتیں اور سکونتیں توحید الہی کی گواہی دیتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق ، مالک اور رازق ایک ہی ہے، اور وہ اللہ تبارک وتعالی ہے۔