میدانِ جنگ اور اخلاقِ حسنہ
اسلام دین کامل ہے- ہر میدان میں اس کے فطری نظام کی رہبری و رہنمائی ہے- اسلامی اخلاق کا یہ حسن ہے کہ میدان جنگ میں بھی احترامِ انسانی کے ضوابط و حقوق متعین کیے ہیں- جب کہ آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل غزہ کے نہتے شہریوں پر مسلسل بمباری کر رہا ہے- بچوں/بچیوں کا قتلِ عام کر رہا ہے، نسل کشی کر رہا ہے- دہشت گردانہ جرائم سے پوری فضا آلودہ ہے- ہسپتال، اسکول، پناہ گزیں کیمپ سبھی اسرائیلی تشدد سے برباد ہوتے چلے جا رہے ہیں- دوسری طرف اسلامی نظامِ اخلاق سے میدانِ جنگ بھی انسانی زندگی کے تحفظ کی مثال پیش کرتے ہیں- پیش نظر تحریر اس رخ سے فکر انگیز ہے- غلام مصطفیٰ رضوی
میدانِ جنگ غیظ و غضب، فساد و تخریب، قتل و غارت گری کے جذبات کی سب سے بڑی آماج گاہ ہوتا ہے، چنانچہ تاریخ کی ابتدا سے لے کر آج تک اگر دُنیا کی غیر اسلامی جنگوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ میدانِ جنگ میں دو متحارب گروہ کسی بھی اخلاقی ضابطے کے پابند نہیں ہوتے اور ہر ایک فریق کا مدعا ہوتا ہے کہ دوسرے فریق کو صفحۂ ہستی سے نیست و نابود کردیا جائے، خواہ اس کے لیے کیسی ہی سفاکی کا مظاہرہ کیوں نہ کرنا پڑے۔
چنانچہ حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے چار سو سال بعد قسطنطینِ اعظم نے جب بنامِ مذہب یہودیوں پر لشکر کشی کی تو اُ ن کا اِس طرح قتل عام کیاکہ تاریخ آج بھی اس کے تصور سے لرزہ بر اندام ہے۔ بابل کا بادشاہ بخت نصر جب بیت المقدس میں فاتحانہ داخل ہوا تو اُس نے ایک بھی انسان اور جانور کو زندہ نہیں چھوڑا اور جب اُس کے غیض وغضب کی آگ انسانوں اور حیوانوں کے خون سے بھی نہ بجھ سکی تو اُس نے دیارِ قُدس کے تمام آثار کو مٹانا شروع کر دیا اور ایک مدت تک اپنے جنگی جنون کی تسکین کے لیے وہاں کے کھیتوں اور درختوں کو جلاتا رہا۔
روم اور ایران کی جنگیں جو صدیوں کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں، قیصر و کسریٰ کے جنگی جنون کی بھیانک ترین مثالیں ہیں، بارہا کسریٰ پر قیصر نے غلبہ حاصل کیا تو ایران کی تباہی و بربادی میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی اور یوں ہی جب کسریٰ نے قیصر پر فتح پائی تو عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کا قتلِ عام کیا۔
چنگیز اور ہلاکو کی فوجوں نے جب بعض اسلامی شہروں کو تاخت و تاراج کیا تو گھروں میں محصور مسلمانوں نے اپنے ننھے بچوں کو اِس امید پر التجاے رحم کرنے کے لیے بھیجا کہ بے قصور اور بے گناہ بچوں پر دستِ ظلم نہ اُٹھ سکے گا۔ آخر چنگیزیوں کے گھروں میں بھی تو بچے ہوں گے، مگر ظالم فوجی افسروں نے اپنے مسلح فوجیوں کو حکم دیا کہ ان بچوں کو گھوڑوں کے سموں سے روند دیا جائے۔
یہ تو بخت نصر، قسطنطین، قیصر و کسریٰ اور چنگیز و ہلا کو کے دور کی مثالیں تھیں، لیکن آج کا دور تو ان اَدوارِ گذشتہ سے بھی زیادہ بھیانک نقشۂ جنگ پیش کررہا ہے۔ پہلے تو جنگ میدانِ جنگ میں ہوتی تھی اور دو متحارب فوجیں آمنے سامنے ہوکر نبرد آزما ہوا کرتی تھیں، مگر آج کے نقشۂ جنگ کو ترتیب دینے والے لوگ سب سے پہلے آبادیوں، فیکٹریوں، صنعتی اور تعلیمی اداروں، دیگر اقتصادی اور فلاحی مراکز کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہیں، تاکہ مقابل قوم کی اقتصادی اعتبار سے کمر ٹوٹ جائے اور وہ بہت دنوں تک زندگی اور موت کی کش مکش میں مبتلا رہے۔ آج کے انسان نے اپنی تخریبی توانائیوں کو بے جان ہتھیاروں کے حوالے کرکے پوری دُنیا کو موت کے دروازے پر پہنچا دیا ہے، اور کسی بھی وقت انسان کی جنگی وحشت کی نمود دُنیا کے اوپر ہزاروں ہیروشیما اور ناگاساکی جنم دے سکتی ہے۔
چنانچہ آج کے دَور کی ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ دُنیا کے سامنے اسلامی جہاد کی اُن اعلیٰ ترین اخلاقی قدروں کو پیش کیا جائے جن کو پیشِ نظر رکھنے کے بعد حالتِ جنگ میں بھی انسان جذبات سے مغلوب نہ ہو، بلکہ ان کے سامنے اس کا وہ عظیم نصب العین ہو جس کے لیے انہوں نے جنگ کی ناگزیر راہ اختیار کی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ دُنیا کی جنگ جُو طاقتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ جنگوں سے -فساد فی الارض- کی بجائے -اصلاح فی الارض- اور ظلم کے بجائے استیصالِ ظلم، غصبِ حقوق کے بجائے ظالم سے مظلوم کے حقوق دلانے کا کام لیں۔ اسلام میدانِ جنگ میں جانے سے پہلے مجاہدین کا یہ مزاج بنادیتا ہے کہ ان سے ظلم سرزد ہی نہ ہوسکے خواہ وہ کتنے ہی غصے کی حالت میں کیوں نہ ہوں، وہ انھیں اس بات کی ہدایت کرتا کہ حالتِ غیظ و غضب میں بھی انسانی حقوق کو ملحوظ رکھیں۔ اسلام ان کے ذہن میں یہ بٹھا دیتا ہے کہ رحم وکرم و عفو و درگذر ہی انسان کو خدا کے قریب کرسکتے ہیں، اور ظلم خدا کی رحمت سے دور کر دیتا ہے اور چوںکہ ایک مومن میدانِ جنگ میں بھی رضاے الٰہی تلاش کرنے کے لیے نکلتا ہے، اِس لیے کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھا سکتا جس میں اللہ کی ناراضی کا خطرہ ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار رحم اور محبت کی تاکید فرمائی ہے:
[۱] ومن لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا فلیس منّا۔
جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور جو ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
[۲] ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء۔
زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔
[۳] ان اللّٰہ رفیق یحب الرفق۔
اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
چونکہ اسلام کی اساس ہی رحم و محبت پر رکھی گئی ہے اِس لیے اسلام جنگ کی اُس وقت اجازت دیتا ہے جب کہ دُنیا کی اصلاح اور مظلوم کی داد رَسی کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہ رہ جائے۔ چنانچہ قرآنِ عظیم مقصدِ جہاد کی وضاحت اِن الفاظ میں فرماتا ہے:
وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ  النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ۔[البقرۃ:آیت۲۵۱]
اگر اللہ بعض کے ظلم کو بعض سے دفع نہ فرماتا تو زمین پر فساد برپاہو جاتا لیکن اللہ تمام عالَم پر بہت زیادہ فضل فرمانے والا ہے۔
میدانِ جنگ میں باطل قوتوں کی سرکوبی اور ظلم کا استیصال مظلوم دُنیا کے لیے فضلِ الٰہی ہے اور یہ فضل اُس وقت تک فضل رہے گا جب تک کہ مظلوم ظالم سے اپنے حقوقِ زندگی حاصل کرنے کے بعد اُنھیں راہوں پر نہ چلنے لگے جن پر چل کر ظالم قوت اپنی پاداش کو پہنچی ہے۔
اسلام کی اعلیٰ ترین ہدایات سے ہٹ کر جب بھی جنگ ہوگی ہوسکتا ہے کہ ابتداء ًاُس کا نصبُ العین مظلوم کی داد رسی ہی رہی ہو، لیکن جب فتح حاصل ہوجاتی ہے تو وہ بھی وہی کردار پیش کرتی ہے جو اُس کے سامنے ظالم قوم پیش کرتی رہی ہے۔ اس طرح سے ظلم و جبر کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوجاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اسلام نے سختی سے حکم دیا ہے کہ حالتِ جنگ میں عدل وانصاف کو برقرار رکھا جائے۔ چنانچہ قرآنِ عظیم ارشاد فرماتا ہے:
لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔[البقرۃ:آیت۱۹۰]
حد سے نہ گزرو بے شک اللہ تعالیٰ حد سے گزرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔ 
           لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ  عَلٰیٓ اَ لاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔
            [المآئدۃ:آیت۸]
     کسی قوم سے انتقامانہ جذبات تم کو عدل سے باز نہ رکھیں، انصاف کرو اس لیے کہ انصاف تقویٰ سے قریب تر ہے۔
جنگ کے سلسلے میں اسلام نے جو اخلاقی پابندیاں بہ صورتِ قانون عائد فرمائی ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
[۱]  اعلانِ جنگ کے بغیر دُشمن پر حملہ نہ کیا جائے۔
[۲]  شکست خوردہ دُشمن کا تعاقب نہ کیا جائے۔
[۳]  ہتھیار ڈالنے والوں پر تلوار نہ اُٹھائی جائے۔
[۴]  بچوں، بوڑھوں، عورتوں، عبادت گذاروں، خانقاہ نشینوں، راہبوں اور تارکُ الدُنیا افراد سے تعرض نہ کیا جائے۔
[۵]  قیدیوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا برتاؤ کیا جائے۔
[۶]  زخمیوں کو ہر طرح کی طبّی امداد بہم پہنچائی جائے۔
[۷]  زخمی اور بیمار قیدیوں سے کام نہ لیا جائے۔
[۸]  سرسبز درختوں کو نہ کاٹا جائے، عمارتوں کو نہ ڈھایا جائے۔
[۹]  افادۂ عوام کے وسائل کو غارت نہ کیاجائے۔
اسلام مجاہدین کو حکم دیتا ہے کہ جیسے ہی فساد فی الارض پر قابو پالیا جائے اور مخالف قوتیں سلامتی کے لیے جُھک جائیں تو پھر قتال اور جہاد کوباقی رکھنا جائز نہیں ہے۔ چنانچہ قرآنِ عظیم کا ارشادِ عالی ہے: 
وَاِنْ جَنَحُوْ الِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ۔[الانفال:آیت۶۱]
اسلام مجاہدین کے اندر یہ داعیہ پیدا کرتا ہے کہ وہ میدانِ جنگ میں ہر کام خالصتاً لوجہ اللّٰہ کریں۔ جملہ عبادات کی طرح جہادکو بھی ہر طرح کے غیر اسلامی جذبات کی آمیزش سے پاک رکھیں، حالتِ جنگ میں بھی ان کا دل خشیتِ الٰہی سے ایک لمحہ کے لیے خالی نہ ہو،اور جنگ افرادِ انسانی کے خلاف نہ کریں بلکہ اُس باطل ماحول کے خلاف کریں اور اُس باطل نظام کو مٹائیں جس کو لوگوں نے قبول کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میدانِ جنگ میں بھی مجاہدین کے صبر وتحمل کی ایسی کثیر مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام کے سپاہی کی تلوار بلند ہے اور قریب ہے کہ مدِ مقابل کا لاشہ زمین پر تڑپنے لگے کہ اچانک اس نے تلوار جھکالی اسی لمحہ مجاہد فی سبیل اللہ نے بھی تلوار نیام میں کرلی، جذبات پر کنٹرول کی یہ اعلیٰ ترین مثال ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک کافر سے برسرِ پیکار ہیں؛ متعدد خطرناک واروں کو اپنی ڈھال پر روکنے کے بعد اُسے کمر سے اُٹھا کر زمین پر ڈال دیتے ہیں اور سینے پر بیٹھ کر سوچتے ہیں کہ اس کا سر تن سے جُدا کر دیں کہ وہ شدتِ غیظ و غضب میں شیرِ خدا کے چہرۂ منوّر پر تھوک دیتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً اُس سے الگ ہوجاتے ہیں، وہ اُٹھ کر کھڑا ہوجاتا ہے، لیکن تلوار اُٹھا کر حملہ کرنے کے بجائے وہ پوچھتا ہے کہ: آپ نے مجھے مغلوب کرکے چھوڑ کیوں دیا؟ حضرت علی نے جواب دیا کہ میں نے تلوار اللہ کے لیے اُٹھائی تھی اور میں نے تمہیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے مغلوب کیا تھا، لیکن جب تم نے میرے ساتھ ایک گستاخی کی تو مجھے غصہ آگیا، میں فوراً تمہیں چھوڑ کر الگ ہوگیا اِس لیے کہ اس حالت میں اگر تمہیں قتل کرتا تو رضاے الٰہی کی تعمیل میں اپنے جذبۂ غضب کی تسکین کی خواہش شامل ہوجاتی، ایسی حالت میں میرا یہ کام خالصتاً لوجہ اللّٰہ نہ ہوتا۔
فوجی معاہدے ہر دور میں ہوتے رہے ہیں، لیکن ہمیشہ یہ دیکھا گیا ہے کہ دو حلیف طاقتیں اس میں حق و باطل کا امتیاز کیے بغیر ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں۔ ایک ملک خواہ کتناہی جارح کیوں نہ ہو؛ کوئی دوسرا ملک اگر اُس کاحلیف ہے تو اُس کے ظلم و جارحیت میں بھی اُس کا ساتھ دے گا۔ اس کے بر عکس اسلام صرف مظلوم کا ساتھ دینے کی اجازت دیتا ہے، ظلم کا نہیں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اُنْصر اخَاکَ ظَالِمًا کَانَ اَوْمََظلومًا۔ 
اپنے بھائی کی مدد کرو، وہ ظالم ہو یا مظلوم۔
صحابۂ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ! ظالم کی مدد کس طرح کی جائے۔ ارشاد فرمایا کہ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اُس کو ظلم سے باز رکھو۔
مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ اسلام دفاع، اصلاح، استیصالِ ظلم کے لیے جنگ کی اجازت دیتا ہے، مگر حالتِ جنگ میں بھی کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ اپنے اندر پوشیدہ بہیمانہ طاقتوں کو جنگ کی غضب ناکیوں میں استعمال کرے، بلکہ جنگ کے لیے بھی اخلاقی ضابطے متعین فرما دیے ہیں، تاکہ جوش وغضب میں انسان انسانی قدروں کو پامال نہ کرے۔ اے کاش! آج کی مہذب دُنیا اسلام کے اِن بلند ترین اصولوں کو پیشِ نظر رکھتی۔ 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter