صفر المظفر: بڑا بھاری اور سخت مہینہ ہے

  ماہ صفر المظفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ حضور اقدس ﷺ کی بعثت سے قبل ماہ محرم الحرام میں جنگ حرام تھی، مگر جب صفر المظفر کا مہینہ آتا تو لوگ جنگ کے لیے چلے جاتے اور اپنے گھروں کو خالی چھوڑ جاتے۔اس لیے اس ماہ کو "صفر" کہتے ہیں۔ 
اس ماہ کے بارے میں لوگ طرح طرح کے خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر منحوس ہے، اس میں شادی بیاہ نہیں کرنی چاہیے اور اپنی لڑکیوں کو رخصت نہیں کرنا چاہیے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور اس ماہ میں دور دراز کا سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں خصوصاً ماہ صفر المظفر کی ابتدائی تیرہ تاریخوں کو بہت زیادہ منحوس جانتے ہیں۔ جبکہ شریعتِ مطہرہ سے ان خیالات کا کوئی لینا دینا نہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں اور اسی ماہ صفر المظفر کے آخری بدھ کو لوگ بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں، اس دن لوگ اپنے کاروبار بند رکھتے ہیں، گھر میں عمدہ قسم کا کھانا تیار کراتے ہیں، غسل کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے اس روز غسل فرمایا تھا اور پیر کے روز مدینہ منورہ کے لیے تشریف لے گئے تھے-
محترم قارئین یہ ساری باتیں بے اصل ہیں ان باتوں کی شریعتِ اسلامیہ میں کوئی اصل نہیں اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس روز بلائیں آتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں بیان کی جاتی ہیں ان تمام خرافات کو ایک طرف رکھیے اور مندرجہ ذیل احادیثِ مبارکہ جو اب تحریر کی جارہی ہیں ان کا بغور مطالعہ کیجیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ کیا واقعی ماہ صفر المظفر کی اہمیت یہی ہے جو آج کل کے کم فہم و کم علم لوگ بیان کرتے پھرتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں ان باتوں سے دور رہنے اور صحیح باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے:حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہ متعدی بیماری ہے نہ ہامہ، نہ منزل قمر اور نہ صفر، روایت کیا اس کو امام مسلم نے "نوء" کی جمع "انواء" ہے۔ جس کا معنیٰ قمر کی منزلیں ہیں۔ وہ اٹھائیس منزلیں ہیں اہل عرب کا خیال تھا کہ جب چاند ان منازل کی بعض منزل میں آتا ہے تو بارش ہوتی ہے۔ تو شارع نے اس کا ابطال فرمایا کہ نزولِ باراں بتقدیر الٰہی ہے۔( مشکوٰۃ شریف:391)

حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے: رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: مرض متعدی نہیں اور نہ ہامہ ہے اور نہ صفر۔ ایک اعرابی نے عرض کیا یارسول الله!ﷺ اس کی کیا وجہ ہے کہ ریگستان میں اونٹ ہرن کی طرح صاف ستھرا ہوتا ہے اور خارشتی اونٹ جب اس سے مل جاتا ہے تو اسے بھی خارشتی کر دیتا ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلے کو کسی نے مرض لگا دیا یعنی جس طرح پہلا اونٹ خارشتی ہو گیا تو دوسرا ہوگیا- مرض متعدی ہونا غلط ہے۔ (رواہ البخاری،مشکوٰۃ شریف:391)
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے: حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: عدوی نہیں یعنی مرض کا متعدی ہونا نہیں اور نہ بد فالی ہے اور نہ ہامہ ہے نہ صفر اور مجزوم سے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو۔ (رواہ البخاری،مشکوٰۃ شریف:391) 
مجزوم سے بھاگنے کا حکم سد ذرائع کے قبیل سے ہے کہ اگر اس سے میل جول میں دوسرے کو جذام پیدا ہو جائے تو یہ خیال ہوگا کہ میل جول سے پیدا ہوا ہے۔ اس خیال فاسد سے بچنے کے لیے یہ حکم ہوا کہ اس سے علیحدہ رہو۔

       حدیثِ پاک کی تشریح: 
     "لا عدوی" کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیماری دوسرے کو نہیں لگتی۔ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ بیٹھتا ہے یا اس کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے۔ ایسا ہی اس زمانہ کے حکیم اور ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ بعض متعدد بیماریاں ہیں۔ مثلاً جذام، خارش، چیچک، آبلہ، گندہ دہنی اور امراضِ وبائیہ مگر حکیموں کے حکیم جنابِ احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ نے اس جاہلانہ عقیدہ کو باطل قرار دیا اور واضح فرما دیا کہ بیماری کوئی بھی ہو ایک دوسرے کو نہیں لگتی بلکہ اللہ رب العزت نے جیسا کہ ایک کو بیمار کیا ہے اسی طرح دوسرے کو بھی بیمار کر دیتا ہے۔ 
"ولا طیرۃ:" عرب کی عادت تھی کہ شگون لیتے تھے بایں طریق کہ جب کسی کام کا قصد کرتے یا کسی جگہ جاتے تو پرندہ یا ہرن کو چھچھکارتے، اگر یہ دائیں طرف بھاگتا تو اسے مبارک جانتے اور نیک فال لیتے اور اس کام کے لیے نکلتے اور اگر بائیں طرف بھاگتا تو اسے نحس اور ناامید جانتے اور کام سے باز رہتے۔ تو شارع اسلام حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:"لا طیرۃ" یعنی شگون بد لینے کو حصول منفعت اور دفع ضرر میں کوئی تاثیر نہیں ہے اور اس عقیدہ کو باطل قرار دیا۔
"ولا ھامۃ" ہامہ کے معنیٰ سر کے ہیں اور یہاں مراد ایک جانور کا نام ہے۔ عرب کے لوگوں کا زعم باطل تھا کہ یہ جانور میت کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے جو اڑتا ہے۔ اس کے ساتھ عرب کے لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ مقتول کے سر سے ایک جانور باہر نکلتا ہے اس کا نام ہامہ ہے اور وہ ہمیشہ فریاد کرتا ہے کہ مجھ کو پانی دو یہاں تک کہ اس کا مارنے والا مارا جاتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ مقتول کی روح جانور بن جاتی ہے اور فریاد کرتی ہے۔ بعض نے کہا کہ "ہامہ" الو کو کہتے ہیں جس وقت کہ کسی کے گھر میں آ بیٹھتا ہے اور بولتا ہے تو گھر ویران ہو جاتا ہے یا کوئی مر جاتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں بھی بعض لوگوں کا یہی خیال ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ نے اس عقیدہ کو "لا ہامۃ" فرما کر باطل قرار دیا۔
"ولا صفر:"  صفر نہیں اس میں بہت اقوال ہیں بعضوں کے نزدیک صفر سے مراد یہی مہینہ ہے جو محرم الحرام کے بعد آتا ہے۔ عوام اس کو محل نزولِ بلا اور حوادثات و آفات کا مہینہ جانتے ہیں۔ یہ اعتقاد بھی بے اصل اور باطل ہے۔بعضوں کے نزدیک صفر ایک سانپ ہے جو پیٹ میں ہوتا ہے اور عرب کا زعم ہے کہ وہ سانپ بھوک کے وقت کاٹتا ہے اور ایذا دیتا ہے اور بھوک کے وقت جو ایذا ہوتی ہے اسی سے ہوتی ہے اور ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں سرایت کر جاتا ہے۔ امام نووی رحمۃ الله علیہ نے شرحِ مسلم شریف میں لکھا ہے کہ صفر وہ کیڑے ہیں جو بھوک کے وقت کاٹتے ہیں۔ کبھی اس سے آدمی کا بدن زرد ہو جاتا ہے اور کبھی ہلاک۔ پس حضور اقدس ﷺ نے حکم دیا کہ یہ سب باطل ہے۔( اشعۃ اللمعات:629) 

نیک فال: 
   نیک فال لینی محمود ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ نیک فال بہت لیا کرتے تھے۔ خصوصاََ لوگوں کے ناموں سے اور جگہوں سے اور بد فالی (بد شگونی) ایک جاہلانہ رسم اور باطل ہے۔ ان دونوں کے متعلق قارئین چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
  حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے:حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:بد شگونی شرک ہے۔ تین دفعہ فرمایا اور نہیں ہم میں سے مگر وہ لیکن خدائے تعالیٰ لے جاتا ہے اس کو بسبب توکل کے۔(مشکوٰۃ:392) مطلب یہ ہے کہ بد شگونی مشرکوں کے رسموں سے ہے اور موجب شرک خفی کا ہے اور اگر جزما اعتقاد کرے کہ یوں ہی ہوگا تو بد شگونی بیشک کفر ہے۔
    حضرت سیدنا انس رضی الله عنہ سے روایت ہے:حضور اقدس ﷺ جب کسی کام کے لئے نکلتے تو یہ بات آپ ﷺ کو پسند تھی کہ یا راشد یا نجیح سنیں۔(مشکوٰۃ:392) مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس وقت ان ناموں سے کسی کو پکارتا تو یہ حضور اقدس ﷺ کو اچھا معلوم ہوتا کہ یہ کامیابی اور فلاح کی نیک فال ہے۔
 حضرت بریدہ رضی الله عنہ سے مروی ہے: حضور اقدس ﷺ کسی چیز سے بد شگونی نہیں لیتے تھے جب کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام دریافت کرتے اگر اس کا نام پسند ہوتا تو خوش ہوتے اور خوشی کے آثار چہرہ انور میں ظاہر ہوتے اور اگر اس کا نام پسند نہ ہوتا تو اس کے آثار آپ ﷺ کے چہرے میں دکھائی دیتے اور جب کسی بستی میں جاتے تو اس کا نام پوچھتے اگر اس کا نام پسند ہوتا تو آپ ﷺ خوش ہوتے اور خوشی کے آثار چہرہ انور میں دکھائی دیتے اور اگر ناپسد ہوتا تو کراہت کے آثار چہرہ انور میں دکھائی دیتے۔ (رواہ ابوداؤد،مشکوٰۃ:392)
  اس حدیث پاک کا یہ مطلب نہیں کہ ناموں سے آپ بد شگونی لیتے تھے بلکہ یہ کہ اچھے نام آپ ﷺ کو پسند تھے اور برے نام نا پسند تھے۔ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نیک فال لینی کامیابی کی دلیل ہے اور بد فال  بد شگونی) رسم کفر ہے۔ اس سے مسلمانوں کو بچنا چاہیے۔
  ماہ صفر المظفر کے آخری بدھ کو کچھ لوگ بہت مناتے ہیں کیونکہ رسول ﷲ ﷺ کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اس روز آپ نے غسل صحت فرمایا تھا اور گھر سے نکل کر سیر کے لیے تشریف لے گئے تھے، کچھ یہ کہتے ہیں کہ اِس دن نبی پاک ﷺ کی بیماری نے شدت اختیار کر لی تھی، یہ بلا و آفت کا دن ہے، کچھ کہتے ہیں کہ ماہ صفر المظفر کا آخری عشرہ بلاؤں اور آفتوں کا ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ ﷲ علیہ سے ایک قول منسوب ہے اُنہوں نے فرمایا: صفر کا مہینہ بڑا بھاری اور سخت مہینہ ہے۔ﷲ تعالیٰ ہر سال دس لاکھ اسی ہزار بلائیں نازل فرماتا ہے۔ جس میں سے صرف ماہ صفر المظفر میں نو لاکھ بیس ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ اس لیے اس ماہ کو دعا اور اطاعت میں بسر کرنا چاہیے۔ ایک قول یہ ہے کہ ماہِ صفر المظفر میں تین لاکھ بتیس ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اور آخری چہار شنبہ نہایت بھاری ہے۔راحت القلوب میں ایک روایت یوں ہے: رسول ﷲ ﷺ فرماتے ہیں:جو شخص مجھے ماہ صفر المظفر کے گزرنے کی خوش خبری دے گا میں اسے بہشت میں جانے کی نوید دوں گا۔ (راحت القلوب)
    راحت القلوب حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ ﷲ علیہ کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ جسے حضرت سیدنا نظام الدین اولیاء محبوب الہٰی رحمۃ ﷲ علیہ نے مرتب فرمایا۔ اس میں ماہ صفر المظفر کی آفات سے بچنے کی دعائیں اور اعمال بھی درج ہیں۔ ایسی مقتدر اور مقدس ہستیوں کے حوالے سے کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں۔ کیونکہ ان ہستیوں کی عظمت و مرتبت میں کسی کو کلام نہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اس بات کی تحقیق و تصدیق ضروری ہے کہ ان ہستیوں سے منسوب جو بات کی جا رہی ہے وہ قرآن و حدیث سے بالکل متضاد نہ ہو اور ان بزرگوں سے ثابت ہو۔یعنی ان بزرگوں ہی کی کہی ہوئی ہو اور صحیح ہو۔ کیونکہ کچھ اقوال ایسے بھی ہیں جو ان ہستیوں سے منسوب کر دیے گئے ہیں لیکن تحقیقی طور پر ثابت نہیں۔ راحت القلوب میں درج اس حدیث کا مفہوم کچھ اہل علم نے یہ بیان کیا ہے: رسول کریم ﷺ کی ظاہری دنیوی حیات میں صفر المظفر آخری مہینہ تھا اور اس کا آخری بدھ نبی پاک ﷺ کی ظاہری حیات میں آخری تھی. چونکہ رسول ﷲ ﷺ کو اپنے معبود کریم کے لقاء کا شوق غالب تھا، اس لیے آپ نے اس ماہ کے تمام ہونے کی خبر کو خوش خبری فرمایا۔ راحت القلوب میں درج ماہ صفر المظفر کے بارے میں فرمودات کا مفہوم شاید کچھ یہ ہو کہ وہ لو گ جو ﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور عبادت سے غافل ہیں وہ اس ماہ میں توبہ و دعا کی کثرت کریں اور عبادت و طاعت میں بسر کرنے والے لوگ اس ماہ میں کوئی غفلت و سستی نہ کریں اور ہر مسلم و مؤمن یہی دعا کرے کہ اگر اس ماہ میں کوئی بلا نازل ہوتی ہے تو ﷲ اسے اس بلا سے محفوظ رکھے۔
  ان اولیائے کرام نے ماہ صفر المظفر کو ہرگز منحوس یا برا نہیں کہا۔ اس لیے ان بزرگوں کا کلام کسی حدیث شریف سے متصادم نہیں ہے۔وہ لوگ جو اس ماہ میں خوشی کی کوئی تقریب نہیں کرتے، نہ ہی کوئی ایسی تقریب منعقد کرنا اچھا گردانتے ہیں وہ اگر اس ماہ میں کوئی تقریب منعقد نہ کریں تو یہ ان کی صوابدید پر ہے۔ لیکن وہ اس ماہ کو منحوس یا برا خیال نہ کریں۔ آخری چہار شنبہ کے دن چھٹی کرنا اور کام نہ کرنا یہ غلط روایت ہے۔البتہ اس دن صدقہ و خیرات کرنا اور عبادت و دعا کرنا چاہئیے اور بزرگوں نے جو نوافل اور دعائیں وغیرہ تعلیم کی ہیں وہ کرنا چاہئیں اور ﷲ کی عبادت سے کسی لمحے بھی رو گردانی نہیں کرنی چاہئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے خالق و مالک اللہ کریم کو اس صورت میں راضی کر سکتے ہیں کہ جب ہم اللہ کریم کی فرماں برداری کریں، اس کے ارشادات اور تعلیمات کی پابندی و پیروی کریں اور شریعت و سنت کے مقابلے میں اپنی نفسی خواہشات یا طبیعت کو ترجیح نہ دیں، ہمیں ﷲ کے فرامین اور نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی ہی میں فوز و فلاح حاصل ہو سکتی ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter