کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
آج کی نئی نسل سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی طلسمی دنیا میں اس طرح کھو چکی ہے کہ اُسے اس جادوئی دنیا سے نکالنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو چکا ہے۔ نومولود بچوں سے لے کر شیخ فانی تک، ہر کوئی اس کے سحر میں گرفتار ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ جب سے موبائل فون ہمارے ہاتھ میں آیا، تب سے ہمارے ہاتھوں سے کتابیں نکل گئیں۔ کتب بینی، مطالعہ اور پڑھنے کی عادت قصہ پارینہ بن چکی ہے۔
پہلے لوگ علی الصباح ورزش اور تروتازگی کے بعد اخبار پڑھا کرتے تھے۔ اخبار پڑھنا زندگی کا ایک لازمی حصہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مزاج اور عادتیں بھی بدل گئیں۔ اخبار کی جگہ موبائل فون نے لے لی، اور خبروں کی جگہ سوشل نیٹ ورکس نے۔ اس وقت میرے حاشیۂ ذہن پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر ابھر رہا ہے:
ہاں دکھا دے اے تصوّر پھر وہ صبح و شام تُو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایّام تُو
کتب بینی ہی کسی قوم کی ترقی کی ضامن ہے۔ تعلیم و تعلم کے بغیر کوئی قوم دنیا میں اپنا مقام حاصل نہیں کر سکتی۔ جو معاشرے آج ترقی کے بامِ عروج پر ہیں، وہ صرف علم اور تعلیم ہی کی بدولت ہیں۔ علم وہ نور ہے جو تاریک راہوں کو روشن کر دیتا ہے، مشکل منزلوں کو آسان کر دیتا ہے، اور انسان کو جینے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔
علم کا حصول کتابوں سے مشروط ہے۔ امام بخاری رحمہ الله نے فرمایا: "العلم فی متون الکتب" یعنی علم کتابوں کے سینے میں پوشیدہ ہے۔ جس شخص کو کتابوں سے محبت ہو جائے، اس کے لیے مطالعہ کے بغیر جینا محال ہو جاتا ہے۔ کتاب اس کا مونس و غم خوار، طبیب و مشیر بن جاتی ہے۔ یہی اس کے دن رات کا اوڑھنا بچھونا بن جاتی ہیں، وہ اگر بیمار بھی ہوتا ہے تو کتاب ہی اُس کا علاج ہوتی ہے، رنج و بے چینی کی حالت میں کتاب ہی اس کی غمخواری کا سامان فراہم کرتی ہے، مشکلات ومصائب میں بھی وہی تسلی کا باعث ہوتی ہے کیونکہ کتاب ہی تو اُس کے شب وروز کی دمساز و ہمراز بن چکی ہے۔
کتاب انسانی سوچ کو وسعت دیتی ہے، شعور عطا کرتی ہے اور خود اعتمادی کو جِلا بخشتی ہے۔ یونانی ڈرامہ نگار "یوری پیڈس" نے کہا ہے: "جو نوجوان مطالعے سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کے لیے مردہ ہوتا ہے"۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے کتاب سے دوستی رکھی، وہ ہر میدان میں کامیابی کی منازل طے کرتی گئیں۔ اور جب کتابوں سے رشتہ ٹوٹا تو پستی اور ذلت ان کا مقدر بن گئی۔ جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
اہل یورپ جنہیں ایک زمانے میں جاہل اور غیر مہذب سمجھا جاتا تھا، آج وہی قوم تعلیم کے سبب دنیا پر حکمرانی کر رہی ہے۔ قرآن مجید سورۃ الکہف میں ان کے بارے میں فرماتا ہے: "حَتّٰی اِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمَا قَوْمًا لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ قَوْلًا" (کہف/ 93)۔ یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اس نے ان پہاڑوں کے آگے ایک ایسی قوم کو پایا جو کوئی بات سمجھتے معلوم نہ ہوتے تھے۔ آج اہل یورپ پوری دنیا پر حکومت کررہی ہے اس کی واحد وجہ تعلیم وتعلم ہی ہے۔ انہوں نے کتابوں سے رشتہ جوڑا تو کامیابی وکامرانی انکے قدم چومنے لگی۔ اس کے برعکس ہم مسلمانوں نے کتابوں سے رشتہ توڑا تو ذلت وخواری ، شکست وریخت ہمارا مقدر بن گئی۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم پھر سے کتابوں سے اپنا رشتہ جوڑیں اور اس کتابی تعلقات کو استوار کرنے کی کوشش کریں تاکہ ہم اپنی عظمت رفتہ کو بحال کرسکیں۔
آئیے خطیب لا ثانی مایہ ناز مفکر ڈاکٹر عائض القرنی کی کتاب (لاتحزن)سے یہ اقتباس پڑھیں، وہ مطالعہ اور کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ "مطالعہ وسوسوں اور غموں کا علاج ہے، جھگڑوں سے بچاؤ، زبان و بیان میں روانی، دل کو سکون، ذہن کی وسعت، دینی بصیرت، تجربات اور حکمتوں کی دولت سب مطالعہ ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ کتاب ایسا مخلص دوست ہے جو نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ دھوکہ دیتا ہے۔ وہ آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی"۔ مشہور فلسفی جاحظ مطالعہ کی وصیت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مطالعہ سے غم دور ہوتا ہے۔ آپ کی کتاب آپ کا سب سے اچھا دوست ہے جو کبھی آپ سے اکتاتا نہیں۔ نہ ہی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی بے ایمانی کرتا ہے؛ بلکہ کتاب ایسا دوست ہے جو سراپا اخلاق ہے۔ جس سے جس قدر فائدہ اٹھایا جائے وہ خوش ہوتی ہے۔ کتاب کے ذریعہ آپ کی زبان فوائد اور حکمتوں سے بھرجائے گی۔ لوگوں میں آپ احترام کی نظر سے دیکھے جائیں گے۔ کتاب کے ذریعہ انسان حکمرانوں کا مشیر بن جاتا ہے۔ کتاب کے ذریعہ آدمی بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے۔ کتاب سفر وحضر، رات دن آپ کو فائدہ دے گی اور کبھی تھکاوٹ اور بے چینی کا مظاہرہ نہ کرے گی۔ کتاب کے ذریعہ آدمی فضول مجلس آرائی سے بچ جاتا ہے اور لایعنی امور سے حفاظت رہتی ہے"۔
اس اقتباس سے مطالعہ اور کتب بینی کی اہمیت اور افادیت خوب ظاہر ہوتی ہے۔ اسی اہمیت کی وجہ سے ہمارے اسلاف ہمیشہ کتابوں سے جڑے رہتے تھے۔کتابوں سے ان کا اتنا گہرا تعلق تھا کہ زندگی کے اہم حصہ یعنی ازدواجی رشتہ تک کو وہ فراموش کر بیٹھے۔ ہمارے اسلاف میں کئی سارے ایسے بھی بزرگ ہیں جن کی زندگی کا ماحصل صرف اور صرف کتب بینی اور مطالعہ ہی رہا ہے۔ مشہور ومعروف محدث ومؤرخ حضرت علامہ عبد الفتاح ابو غدہ نے ایک ضخیم کتاب ہی ترتیب دی ہے۔ جس کا عنوان کچھ یوں ہے۔ العلماء العزاب الذين اثروا العلم على الزواج- یعنی وہ علماء جنہوں نے علم کی ترویج واشاعت کو ازدواجی زندگی پر ترجیح دی۔
اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار ائمہ کرام گزرے ہیں جن کی پوری زندگی مطالعے اور کتابوں کے محبت اور ذخیرہ اندوزی میں گزر گئی۔ جیسے امام اسحاق بن راہویہ نے سلیمان بن عبد اللہ زغندانی کی بیٹی سے شادی اس لیے کی تھی کہ اس سے انہیں امام شافعی رحمہ اللہ کی جملہ تصانیف پر مشتمل کتب خانہ مل جانا تھا(انساب للسمعانی، ۶/۳۰۶) چھٹی صدی کے ایک حنبلی عالم امام ابن الخشاب کے بارے میں ایک واقعہ مشہور ہے کہ موصوف نے ایک دن ایک کتاب پانچ سو درہم میں خریدی، قیمت ادا کرنے کے لیے کوئی چیز نہ تھی، لہٰذا تین دن کی مہلت طلب کی اور مکان کی چھت پر کھڑے ہو کر مکان بیچنے کا اعلان کیا، اس طرح اپنے شوق کی تکمیل کی (ذیل طبقات الحنابلة، ۲/۲۵۱)۔
ان واقعات اور اسلاف کی پاکیزہ زندگی سے عبرت حاصل کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی چنگل سے اپنے آپ کو نکال کر کتابوں کی دنیا میں سیر کرائیں۔ اور روزانہ بلا ناغہ مطالعہ اور کتب بینی کی عادت ڈالیں۔ کیونکہ کتب بینی انسان کی غم خوار ومددگار، انسانی ضمیر کو روشنی بخشنے والا قندیل، علم وآگہی کا بہترین زینہ، طوالت کی بہترین رفیق، زندگی کی ناہموار راہوں میں دلنواز ہم سفر اور اضطراب وبے چینی کی معالج بھی ہے۔ جب انسان گردشِ زمانہ کی تلخ واقعات اور ذاتی مشکلات کے ہجوم میں الجھ کر مایوس لمحات کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے زندگی کی پرلطف نعمتوں سے بہرہ مند نہیں ہوپاتا تو اس وقت کتابی حروف کی سرگوشیاں سفید صفحات کے کالے پیلے نقوش اندھیروں میں روشنی لے کر ناامیدی میں امید کی کرن لے کر گم کردہ منزل کو راہیں سمجھاتی ہیں اور انسان تاریکیوں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے۔ اور اس روشنی میں اپنی شخصیت کو سمجھنے لگتا ہے۔جب انسان اپنے آپ کو سمجھنے لگتا ہے تو کائنات ارض وسماء کے تمام پوشیدہ رازوں کو اپنے سینے میں سمونے لگتا ہے۔ گویا اس وقت انسان کا سینہ گنجینۂ رحمت خداوندی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں مطالعہ اور کتب بینی کی توفیق عطا فرمائے اور کتابوں کو اپنانے اور دوست بنانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ
سرورِ علم ہے کیفِ شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر