برکات جمعہ
حضرت سیدنا انس رضی ﷲ عنہ کا بیان ہے: ایک روز ہم سب صحابہ کرام رضوان ﷲ علیہم اجمعین آں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا: "جبریل آئے ان کے ہاتھ میں ایک سفید آئینہ سا تھا جس کے درمیان میں ایک سیاہ نقطہ سا تھا۔ میں نے پوچھا: اے جبریل!یہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ جمعہ کا دن ہے جو آپ پر آپ کے رب نے پیش فرمایا ہے تاکہ یہ آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے عید کا دن ہو۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! اس کے بیچ میں یہ سیاہ نقطہ سا کیا ہے؟ فرمایا! یہ قیامت ہے جو جمعہ کے دن قائم ہوگی۔ یہ جمعہ دنیا کے تمام دنوں کا سردار ہے۔
جنت میں اس کا نام "انعام کا دن" رکھ چھوڑا ہے۔ میں نے پوچھا: اے جبریل! تم اس کو انعام کا دن کیوں کہتے ہو؟ فرمایا:اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں ایک وادی کو منتخب اور پسند کیا ہے جو سفید کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے- جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ اس وادی کی طرف ایک کرسی پر نزول فرماتا ہے اور عرش سونے کے جواہر لگے منبروں سے گھرا ہوتا ہے اور یہ منبر نور کی کرسیوں سے گھرے ہوتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ جنتی بالا خانے والوں کو اجازت دیتا ہے وہ مشک کے ٹیلوں میں سے گھٹنوں تک دھنسے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ سونے چاندی کے کنگن پہنے ہوئے ریشمی اعلیٰ لباس زیبِ تن کیے ہوئے حتیٰ کہ اس وادی میں پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر جب بآرام بیٹھ جاتے ہیں تو "مشیرہ" نامی باد صبا چلتی ہے ان کے کپڑوں اور جسموں سے سفید مشک کے فوارے پھوٹ نکلتے ہیں۔ ان کے چہرے صاف ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھیں سرمگیں ہوتی ہیں۔ یہ تینتیس سالہ نوجوان ہوتے ہیں۔ ان کی صورتیں حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اس صورت پر ہوتی ہے جو صورت ان کی اس دن تھی جب ﷲ تعالیٰ نے انہیں پیدا کیا تھا۔ اب جناب باری تبارک وتعالیٰ رضوان کو جو داروغہ جنت ہے، بلاتا ہے اسے حکم دیتا ہے کہ میرے اور میرے بندوں اور میری زیارت کرنے والوں کے درمیان سے حجاب اٹھا دو۔ حجاب کے دور ہوتے ہی خداوندی نور اور تازگی انہیں نظر آتی ہے۔ چاہتے ہیں کہ سجدے میں گر پڑیں۔ اسی وقت جناب باری تعالیٰ فرماتا ہے بس سجدہ سے سر اٹھاؤ عبادت کی جگہ دنیا تھی اب یہ آخرت تو بدلے کا گھر ہے۔ تمہیں جو کچھ مانگنا ہو مجھ سے مانگو میں تمہارا رب ہوں میں نے اپنے وعدے تم سے سچ کر دیے۔ تم پر اپنی بھر پور نعمتیں عطا فرمائیں۔ یہ تمہاری عزت افزائی کا مقام ہے اب جو تم چاہو مجھ سے مانگو۔ جنتی حضرات جواب دیتے ہیں کہ اے پروردگار! کون سی بھلائی ہے جو تونے ہمارے ساتھ نہیں کی۔ تو نے ہم پر سکرات موت آسان کردی، تو نے ہماری قبر کی تنہائی اور اندھیروں میں ہماری وحشت دور کردی۔
صور کے پھونکنے کے وقت تونے ہمیں گھبراہٹ اور پریشانی سے نجات دی، ہماری لغزشوں سے درگزر فرمایا، ہمارے عیوب کی پردہ پوشی کی، پل صراط پر ہمیں ثابت قدم رکھا، اپنا قرب نصیب فرمایا، اپنے پاک کلام سے ہمیں لذت آشنا کیا، اپنا نور ہم پر ظاہر فرمایا، کون سی بھلائی تونے ہمارے ساتھ نہیں کی، لیکن پھر بھی انہیں اپنی آواز میں پکار کر جنابِ باری عزوجل یہی فرمائے گا کہ میں نے اپنے وعدے تم سے سچے کئے۔ تم پر اپنی نعمتیں بھرپور کیں۔ اب تم مجھ سے مانگو کیا مانگتے ہو؟ وہ کہیں گے: الٰہی! ہم تیری رضا مندی کے طالب ہیں۔ ﷲ تعالیٰ فرمائے گا! یہ تو تمہیں مل چکی، تمہاری لغزشیں معاف کیں، تمہاری برائیوں کی پردہ پوشی کی، تمہیں اپنا قرب نصیب فرمایا، تمہیں اپنی باتیں سننے کا شرف بخشا، تم پر اپنے نور کا پرتو ڈالا، یہ ہے تمہاری عزت افزائی کی جگہ جو میں نے عنایت فرمائی ہے۔ پس تم مجھ سے مانگو۔ اب یہ اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں دے گا یہاں تک کہ ان کی تمنائیں سب پوری ہو جائیں گی۔ پھر بھی اللہ عزوجل ان سے فرمائے گا اور مانگو۔ یہ پھر مانگیں گے حتیٰ کہ ان کی رغبت ختم ہو جائے گی۔ پھر بھی ان سے کہا جائے گا کہ اور مانگو۔ یہ کہیں گے کہ بس ہم راضی ہیں لیکن جانبِ باری تعالیٰ اپنے فضلِ خاص سے انہیں اور بھی مرحمت فرمائے گا اور جنت کی تروتازگی اس قدر بڑھا دے گا جو کسی آنکھ نے نہ دیکھی، نہ کسی کان نے سنی، نہ کسی انسانی دل پر ان نعمتوں کا وہم گزرا۔
الغرض جمعہ کے دن ان کے الگ ہونے تک مزید لطف و کرم اور یہ مجلس اسی طرح ہوتی رہے گی۔ حضرت سیدنا انس رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ان کے الگ ہونے کی مقدار کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے برابر۔ رب العالمین کا عرش بلند درجے کے فرشتے اُٹھائے ہوئے ہوں گے جن کے ساتھ بڑے بڑے فرشتے اور انبیائے کرام علیہم السلام ہوں گے۔ پھر ان بالا خانے والوں کو اجازت دے دی جائے گی اور وہ اپنے زمر دیں اور سبز بالا خانوں کی طرف لوٹ جائیں گے۔ انہیں جمعہ کے دن سے زیادہ کسی چیز کا شوق نہ ہوگا کہ وہ اپنے رب کی زیارت کریں تاکہ وہ ان پر مزید اپنا فضل فرمائے اور ان کی غزت افزائی فرمائے۔ (دار قطنی)