بحیثیت مسلمان ہم کیا کریں؟

 دنیا آخرت کی کھیتی ہے، اور ہم میں سے ہر شخص یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ کھیتوں کو سرسبزوشاداب رکھنے کے لیے طرح طرح کی مشقتوں اور پریشانیوں کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے،تبھی جاکر کھیتیاں ہری بھری رہتی ہیں اور فصلیں پُر بہار نظر آتی ہیں۔ مثال کے طورپر کھیت کوجب جیسی ضرورت پیش آئے اُس اعتبارسے اُس کی مدد نہ کی جائےاور اُس کی پریشانی نہ دورکی جائے، مثلاً وقت پراُس میں کھاد-پانی نہ ڈالا جائے اور اِضافی گھاس- پھوس سے اُس کو پاک وصاف نہیں کیاجائے توہم کھیت میں اچھا سے اچھا بیج کیوں نہ ڈالیں اُس کا کچھ نتیجہ نہیں نکلتا بلکہ اُس میں ڈالا گیا بیج بھی اپنا وجود کھو بیٹھتا ہےاور سڑگَل جاتا ہے۔ اُسی طرح دنیا میں انسان کی شکل میں جو بیج ڈالا گیاہے، اگراُس کی نگرانی اور نگہبانی نہیں ہوگی اور پھر بروقت روحانی اورجسمانی اعتبار سےاُس کی سینچائی نہیں ہوگی تو بیج نما انسان جیتے جی سڑگل جائےگا اور یوں ہی مرکھپ جائےگا اور اِس صورت میں نہ اُس کی دنیا، آخرت کی کھیتی بن پائےگی اور نہ اُس کی کا اصل مقصد حاصل ہوپائےگا، جب کہ کوئی بھی انسان یہ نہیں چاہتاہے کہ اُس کی زندگی یوں ہی بیکار اور لاحاصل گزرجائے۔
چناںچہ ہم انسان اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی اپنے لیے، اپنے اہل وعیال کے لیے، اپنے ملک ومعاشرے کےلیے اور پوری انسانی برادری کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں نتیجہ خیز ثابت ہوتو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اپنی زندگی کے مقاصد کو پہچانیں اور اُسے یوں ہی بیکارنہ گزار دیں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ مرنے کے بعد بھی ہمیں اس زندگی سےفائدہ پہنچے اور دوسرے بھی اُس کی روشنی میں اپنی زندگی بسرکرنے کے طورطریقے جانیں۔ محسن انسانی رسول اَکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:جو شخص کسی مومن کی دنیوی پریشانی دور کرےاللہ رب العزت قیامت میں اُس کی پریشانی دور فرمائےگا، جو شخص کسی کی سختی کو آسانی میں بدل دے اللہ رب العزت اس کے لیے دنیا وآخرت میں آسانی پیدا فرمائےگا، جوشخص کسی مسلم کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے اللہ رب العزت دنیاو آخرت میں اُس کے عیبوں کو چھپا دےگا، اور اللہ رب العزت ہمیشہ ایسے شخص کی مدد فرماتا ہے جو اَپنے بھائی کی مدد میں لگا رہے۔ (مستدرک،حدیث:۱۸۵۹)
اِس حدیث پاک میں مسلمانوں کےپردے میں پوری انسانی برادری سے خطاب کیا جارہا ہےکہ اگر ہم انسان اِن چار باتوں کاخاص طورپر خیال رکھ لیں، مثلاً:(۱)  انسانوں کی پریشانیاں دورکریں،(۲)انسانوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں،(۳) انسانوں کے عیبوں پر پردہ ڈالیں، اور(۴) انسانوں کی امداد کرنے کے لیے ہمہ دم کمربستہ رہیں۔ تو بلاشبہ ہم میں سے ہرفرد بشر کے لیے ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے فارمولے پر عمل کرنا انتہائی آسان ہوجائے۔چوں کہ مذکورہ چاروں باتیں انسانی زندگی میں کسی نہ کسی نہج پر ضرور پائی جاتی ہیں، نیز یہ باتیں انسانی زندگی سے اُسی طرح جڑی ہوئی ہیں جیسے انسانی جسم کے ساتھ اُس کے اعضا، مثلاًہاتھ، پاؤں، ناک، کان وغیرہ جڑے ہیں، اِس لیے اِن تمام باتوں سے ہمارے لیے کسی بھی طرح مفر نہیں۔ اگر بغور دیکھاجائے تواِنسانی زندگی میں پیش آنے والی مصیبتیں اور پریشانیاں موٹےطورپردوطرح کی ہوتی ہیں :
۱۔دینی پریشانی: وہ یہ ہے کہ ایک انسان دینی اُمورومعاملات سے ناواقف ہےتووہ انسان چاہتے ہوئے بھی دینی اصول کی روشنی میں اپنی ذمہ داری نہیں ادا کرپاتا، اِس لیے ایسے انسان کو دِینی اصول واُمور سے واقف کرایا جائےاور دین نے زندگی جینے کے جوطریقے اور ضابطےبنائےہیں اُسے ناواقف انسانوں تک پہنچایا جائے، تاکہ وہ انتہائی آسانی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی صحیح صحیح ادائیگی کرنے پر قادر ہوسکیں اور دُنیا وآخرت میں ہرطرح کی پکڑ سے محفوظ وسلامت رہ سکیں۔
۲۔دنیوی پریشانی: وہ یہ ہے کہ ایک انسان مقروض ہے، معاشی طورپر تنگ حالی کا شکار ہے،اپنی آل و اولاد کو مناسب حال تعلیم وتربیت کی طاقت نہیں رکھتا وغیرہ، تو اُس مقروض انسان کے قرضے ادا کرنے کا اہتمام کیا جائے، اُس کی معاشی بدحالی دور کرنے کےلیےاُس کی مدد کی جائے، اوراُس کی آل واولاد کی تعلیم وتربیت کا انتظام کیا جائے۔ اِس سےجہاں ایک انسان قرضے کی فکر اور مالی بدحالی کے باعث محتاجگی سے محفوظ رہےگا وہیں آپس میں ایک دوسرے سے انسانی ہمدردی پیدا ہوگی۔نیزیہ کہ جہاں بغیرتعلیم یافتہ بچے اپنی جہالت کی وجہ سے معاشرے میں فتنہ وفساد اور اَفراتفری کا باعث ثابت ہوسکتے ہیں، وہیں تعلیم یافتہ ہونے کے بعد اپنی زندگی سنوارنے کے ساتھ دینی ودُنیوی دونوں لحاظ سے ماحول کو سازگار بنانے میں مددگار ثابت ہوںگے۔ مزیدیہ کہ کسی بھی انسان کی غیبت اور اُس کے عیبوں کو ظاہر کرنے سے بہرحال بچناچاہیےکہ غیبت حرام ہے، اور اُس کی وجہ سے نہ صرف غیبت کرنے والے کا سخت نقصان ہوتا ہےبلکہ ملکی اور معاشرتی سطح پر بھی اُس کے خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں،مثلاً ملکی افراتفری، معاشرتی فتنہ وفساد ، آپسی ٹکراؤ وغیرہ، اور یہ تمام باتیں دینی اور دنیوی دونوں اعتبارسے انتہائی حساس اورخطرناک ہیں،اِس لیے اِن پہلوؤں پر بڑی سنجیدگی سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ 
خلاصہ یہ کہ اِن تمام باتوں کے پیش نظر ہم اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کس حد تک اِس حدیث پاک پر عمل کر رہے ہیں؟اگر ہمارا عمل اِس حدیث پر ہے تو اللہ کا شکرادا کریں اور اگر نہیں ہے تو آج ہی سے ہم اِس حدیث کی روشنی میں اپنی زندگی کو ڈھال لیں، ورنہ ہم میں سے ہرشخص یہ جان لے کہ اُس کے مسلمان ہونے کا کچھ حاصل ہوگا اور نہ ہی اُس کی تخلیق کا کچھ فائدہ اُسے ملے گا۔
 (ایڈیٹر ماہنامہ خضرراہ، الہ آباد)

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter