فکرِ اسلامی کے تابندہ نقوش اور  عصبیتِ قومیہ کا زوال

عہدِ جاہلیت کے باطل رسم و رواج کو اسلام نے ختم کیا اور عالمی نظامِ اخوت عطا کیا، جس میں انسانیت کی فوز و فلاح کا پاکیزہ دَرس ہے- جس میں معبودِ حقیقی پر ایمان اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق ہے- دینِ کامل اسلام کے دامنِ تقدیس میں آنے والا ایک آفاقی معاشرے کا رکن بن جاتا ہے-
  نسلی تفاخر کے گندے نظریات کو اسلام نے مٹا ڈالا- عصبیتِ قومیہ کا خاتمہ فرمایا- ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس میں اعتدال و توازن ہے اور احترام و اکرام کے پاکیزہ جذبات ہیں- علامہ قمرالزماں خان اعظمی (سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن برطانیہ) کہتے ہیں:
  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصبیتِ قومیہ کو ختم کیا- سلمان فارس سے آئے، صہیب روم سے آئے- بلال حبشہ سے آئے اور اسلامی سوسائٹی کے ممبر بن گئے اور ابوجہل سوسائٹی سے نکال دیا گیا-"
  حضرت سلمان فارسی بہت بڑے مذہبی پروہت کے بیٹے تھے؛ آتشکدۂ فارس کے پیشوا کے شہزادے تھے- کسی نے پوچھا کہ تمہارے باپ کا نام کیا ہے- فرمایا: سلمان اسلام کا بیٹا ہے- سر زمینِ عراق پر مزارِ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر بھی رقم ہے: " سلمان المحمدی" گویا سب کچھ اسلامی نسبتوں میں ڈَھل گیا ہے اور شناخت مصطفوی ہے بقول اقبال:

عجمی خم ہے تو کیا مے تو حجازی ہے مِری 
نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مِری

  بلادِ اسلامیہ میں لارنس آف عربیہ نے تاریخی آثار و قارئین کے مطالعہ و تحقیق کی آڑ میں نسبی و قومی عصبیتوں کے بیج بوئے- حجاز مقدس سے عثمانیوں کے انخلا میں نسلی منافرت کی قلمیں لگائیں- عصبیتوں کی آبیاری کی- عربی و عجمی قضیہ کو پروان چڑھایا- استعماری سازشوں کا یہ بنیادی پہلو تھا کہ مسلمانوں کو ان کے دینی مزاج سے منحرف کر کے قبائلی و لسانی، قومی و نسلی امتیازات و اختلافات میں مبتلا کر دیا جائے- مصر میں زوال پذیر فراعنہ کے نظام کو اعلیٰ نظامِ جہاں بانی کے بطور متعارف کروایا گیا- ان میں یہ فکر پیدا کی گئی کہ فراعنہ کی تہذیب بہترین تھی؛ تم شاہان مصر کی نسل سے ہو؛ اس طرح ان میں مردہ و زوال پذیر فرعونی کلچر و نسلی امتیاز کو باعثِ تفاخر ظاہر کیا گیا-
  قیصر و کسریٰ کے نظام کو متمدن بتایا گیا- مردہ تہذیبوں کو اسلام کے مقابل پیش کیا گیا- مسلمانوں کو انحراف کی شاہراہ پر گامزن کیا گیا- عربوں کو عجمیوں (عثمانیوں) پر تفوق و برتری کی فکر دی گئی- عصبیتوں کی جب فصل تیار ہو گئی تو وہ وقت بھی آیا جب سلطنتِ عثمانیہ پارہ پارہ ہو گئی-
  اُدھر ترکی میں فدائینِ استعمارِ مغرب نے عربی کلچر و زبان سے نفرت کا وہ زہر گھولا کہ اذان و زبان پر پابندی لگا دی گئی- لیکن ایمان دلوں میں پنہاں تھا- جب بیڑیاں ٹوٹی ہیں اور اقتدار کی چولیں ہل گئیں تو عصبیتِ قومیہ کا بت پاش پاش ہوا اور ایک نئے ترکی نے اقطارِ عالم میں سانس لی- ترکوں کے دل اسلامی تعلیمات سے مستنیر تھے- قلب اخوتِ اسلامی و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں دھڑک رہے تھے:

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

  جن ساعتوں میں بزورِ قوت بابری مسجد کو بت کدۂ شرک میں بدلا جا رہا تھا؛ قسطنطنیہ کی سرزمین پر مسجد آیا صوفیہ کی بازیابی و بحالی ہو رہی تھی اور صدیوں تک استعماری فکر کی حامل عمارت جو کبھی خرید کر مسجد میں تبدیل کی گئی تھی؛ جسے استعماری مزاج نظام نے میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا؛ نغماتِ توحید و رسالت سے گونج اٹھی- اذانِ سحر نے فضائے بسیط کا سینہ چیر دیا- تمدنِ مغرب کی شام اور ثقافتِ اسلامی کی فجر ہوئی:

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری 
مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری 
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری 
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری 
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں 
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مساوات کو اہمیت عطا فرما کر نسل پرستی و علاقائیت پر ضرب کاری لگائی- تقویٰ کے سوا کسی چیز کو بنیاد فضیلت تسلیم نہیں کیا گیا- ارشادِ الٰہی ہے: "وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا-" (سورۃ النساء:١)
  خطبۂ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "اے لوگو! تمہارا پروردگار ایک ہے- تمہارا باپ ایک ہے- عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے- نہ سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر بجز تقویٰ کے؛ اللہ کے جناب میں سے وہی زیادہ معزز اور محترم ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے-"
(حیاتِ انسانی کا عالمی منشور، ترجمہ مفتی محمد عرفان مصباحی، ص١١)
  اسی عظیم خطبہ میں یہ گوشہ بھی ہے: "سنو! جاہلیت کے تمام دستور میرے پاؤں کے نیچے ہیں (یعنی باطل ہیں) اور بے شک جاہلیت کے موروثی فخر و مباہات ختم کیے جاتے ہیں-" (نفس مصدر، ص١١-١٢)
  اسلامی نظامِ اخوت و محبت اور آفاقی معاشرتی سسٹم کے حامل ان نکات میں طبقاتی کشمکش کے خاتمے کا ضابطہ منحصر ہے- علاقائی عصبیتوں سے پاک معاشرے کی تشکیل کا پیغام ہے- محبتوں کی صبح تابندہ نمودار ہوتی- نفرتوں اور احساس برتری کے رجحانات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور تفاخر کے نعرے دَم توڑ جاتے ہیں:

ماکہ از قید وطن بیگانہ ایم
چوں نگہ نور و چشمیم و یکیم

  ’’ہم مشرق و مغرب میں رہنے والے کلمۂ وطن کی زنجیر سے آزاد ہیں۔ ہم ایک چہرے کی آنکھیں ہیں، ایک نور و ایک روشنی ہیں-"

از حجاز و چین و ایرانیم ما
شبنم یک صبح خندانیم ما

 "جغرافیائی حد بندیوں سے باہر نکل، حجاز و چین، ایران و روم سے نکل، ایک مسکراتی صبح کے شبنم کے قطرات بن جاؤ، جز بندیاں چھوڑ دو۔"

یہ ہندی وہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہوجا

غبار آلودۂ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا

عشق در جان و نسب در پیکر است
رشتۂ عشق از نسب محکم تر است

  اگر بنائے ملت نسب پہ رکھیں تو تصور اخوت پارہ پارہ ہوجائے گا۔ عشق سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، راحت کون و مکاں اگر جان و جسم، نسل و نسب کے پیکر میں نہ ڈھلے توچہ مسلمانی؟ کہ یہ تعلقِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب رکن سے محکم تر اور مضبوط تر ہے، اسی کو حضرت جامی امام عاشقاں نے یوں فرمایا:

بندہ عشق شوی ترکِ نسب کن جامی
دریں جا فلاں ابن فلاں چیزے نیست

  "جامی عشق کا بندہ بن اور نسب کے تصورات کو ترک کر، اس مقام پہ فلاں بن فلاں کچھ بھی نہیں"

  اسلامی نظامِ اخوت و رواداری رنگ و نسل اور تفاخر سے ورا و بلند ہے- جہاں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈور میں ہر رنگ و نسل کے بندۂ مومن پروئے ہوئے ہیں اور امتیازات کی تہیں چاک ہوئی جاتی ہیں- رشتۂ محبتِ رسول نے عصبیتوں کے بُتوں کو پاش پاش کر کے ایک ملت کی تشکیل کی ہے- اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

ترے غلاموں کا نقش قدم ہے راہ خدا
وہ کیا بہک سکے جو یہ سُراغ لے کے چلے
*
٧ جنوری ٢٠٢٣ء

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter