نعتِ نبی نہیں، گانے پر جھومتی عوام

نعت نبی کریم علیہ الصلاة والتسلم ہم سنیوں کے لیے اکیسر کا کام کرتی ہے، سادہ انداز، اچھی آواز ہو تو کیا کہنے، دنیا بھر کی اعلی درجے کی موسیقی اور سب سے بہتر مانے جانی والی آواز ایک طرف اور بغیر ساؤنڈ سروس کے ہمارے شعرا سے نعت نبی ایک طرف -اعلیٰ درجے کی موسیقی سے سجے کسی بھی قسم کے پروگرام کو سن لیجیے آپ کو وہ راحت نہ ملے گی جو نعت نبی کریم سنتے ہوئے محض آواز سے ہی مل جائے گی ۔

 لیکن پچھلے چند سالوں میں ہمارے نام نہاد شعرا پر فلم انڈسٹری کا سایہ ایسا پڑا ہے کہ مرغے کی طرح چِھلے چکنے، فرنچ کٹ یا پھر ہیرو اور کرکٹرز کی طرح داڑھی رکھنے والے شعرا ہی ہر چہار جانب اسٹیج پر براجمان نظر آرہے ہیں، اچھے اور با شرع شعراء  ان اَدھ چِھلے شعرا کی بھیڑ میں نہ جانے کہاں گم ہو گیے! ۔

ان نام نہاد شعرا نے گانوں کی طرز پر کثرت سے نعت نبی کریم پڑھنا شروع کر دیا ہے اور یہ بڑے بڑے اسٹیجوں میں ہو رہا ہے، وہاں علما بیٹھ کر صرف تماشا ہی دیکھتے ہیں، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں - بسا اوقات علما نے روکا بھی تو چِھلی داڑھی والوں کے عشاق نے صاف کہہ دیا کہ حضور جلسہ خراب نہ کریں، عوام کو مزہ آرہا ہے مزہ لینے دیں - مفتی صاحب عالم صاحب بے چارے خاموش سنتے رہتے ہیں کیوں کہ عوام نے ان شعرا کو گانے کے لیے ہی بلایا ہے نیز عوام ویسے بھی مقرر یا شعرا کو ہی قابل سمجھتی ہے جو ان دونوں فنوں سے خالی ہو وہ عوام کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔

جلسہ مافیاؤں کی پوری پوری ٹولیاں ہوتی ہیں ان میں بڑا زبردست اتحاد ہوتا ہے، ایک دو سرے کو پروگرامنگ دلاتے بھی ہیں اور اسٹیج پر بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں، اس طرح یہ لوگ زیرو کو ہیرو بنادیتے ہیں، یہاں مقررین فیل ہیں جلدی سے ایک مقرر دوسرے مقرر کے بولتے وقت اسٹیج پر ہی نہیں ملتا تو حوصلہ افزائی متصور ہی نہیں، اگر کسی جگہ کسی مفتی یا عالم صاحب نے کسی شاعر کو ٹوک دیا ہے تو پھر اس مقرر کے ساتھ دوسرا شاعر جلدی سے پروگرام نہیں کرتا، یوں وہ کسی بھی اچھے مقرر کو اہل سنت کے اسٹیج سے غائب کر دیتے ہیں ۔

گانوں کی طرز کیوں؟

عوام فلموں اور گانوں کی رسیا ہوتی ہے، شاعر صاحب بھی گانے سنتے ہیں اور اسی سے ملتی جلتی یا ہو بہو طرز پر نعت گنگناتے ہیں،اگر نعت گانے کی طرز پر ہے تو شاعر پہلا مصرع مکمل نہیں کر پاتا اور عوام گانے تک پہنچ جاتی ہے پھر شاعر کو وہ رسپانس ملتا ہے جو سنیما ہال میں ہیرو اور ہیروئین کو ملتا ہے، اگر گانا پرانا ہے تو پچاس سے ستر سال والے جھوم جاتے ہیں اور اگر گانا نیا ہے تو پانچ سے پینتالیس والے جھوم جاتے ہیں - شاعر کو پیسہ چاہیے عوام کو مزہ چاہیے بس ہو گیا جلسہ کامیاب، یہی کامیابی کی دلیل ہے - عوام کا لاکھوں روپیہ پانی میں بہا دیا گیا۔

نعت کی روح کو مار کر عشق کا چورن بانٹنے والے اگر یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ عمل حرام ہے تو ایسوں سے نعت سننا بھی حرام، جب بندہ گانے کی طرز پر جھوم رہا ہے تو آپ سمجھ جائیں کہ یہ نعت پر نہیں گانوں پر جھوم رہا ہے ، فرق بس اتنا ہے وہاں فلمی کلا کار ہے اور یہاں نام نہاد علمی کلا کار ۔

ہم نے ماضی میں انھیں شعرا میں سے چند کو رمضان المبارک میں کلکتہ کے ایڈن گارڈن میں آئی پی ایل کے میچ دیکھتے ہوے بھی پایا اور کئی ایک اپنی فن کاری دکھاتے ہوئے سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوے - جب بات بائکاٹ کی ہوتی ہے تو روزی روٹی کے ڈر سے لیٹر ہیڈ یا پھر ایک ویڈیو کلپ جاری ہوتی ہے اور پھر وہی پرانا انداز چل پڑتا ہے - عوام کو کیوں فرق پڑنے لگا کہ انھوں نے گانے کے لیے ہی بلایا ہے اور مزہ تو گانے پر ہی آتا ہے ۔

نعت نبی کریم سن کر ہمارا ذہن مدینے والے آقا کی طرف جانا چاہیے لیکن گانے کی طرز سے ہمارا ذہن سیدھے ہیرو، ہیروئن اور فلم کی طرف جاتا ہے، ہیرو ہیروئن کے اس گانے پر کیسے اسٹیپس سے تھے، کہاں لچکا تھا کہاں ٹھمکا، چہرے کے ہاؤ بھاؤ، آنکھوں کے اشارے، بدن کے ہر ہر عضو کی حرکت کے مناظر سامعین کی آنکھوں میں تیرتے نظر آتے ہیں .......... بتائیے جلسہ کتنا کامیاب ہوا؟ اور کب تک ایسے کامیاب جلسے ہماری عوام سنتی رہے گی؟..

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter