تحریکِ کربلا کا اصل ہدف اور نصب العین
امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ کی مبارک زندگی انسانی معاشرے کے لئے ہر لحاظ سے نصیحت آموز اور نمونہ عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا انفرادی، سماجی و سیاسی، معاشی اور انتظامی پہلوؤں سے مطالعہ کرنا معاشرے کے لئے بہت سود مند ہے۔ افسوس آج آپ کی حیاتِ مبارک کے اصل پہلو کو عموماً نظر انداز کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی تاریخ میں بھی بہت سارے ایسے نادان موجود ہیں جو اس عظیم المرتبت شخصیت کی فضلیت، شان و عظمت اور مقام و مرتبہ سے نابلد ہیں۔ اس پاک ذات کی فضیلت میں حضورِ اقدس ﷺ سے متعدد روایات نقل ہوئی ہیں آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں‘‘۔ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا: ’’حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘۔(سوانح کربلا) امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ کی فضیلت، شان و عظمت خود حضورِ اقدس ﷺ بیان فرما رہے ہیں۔
کربلا کا عظیم اور تاریخ ساز واقعہ محرم الحرام 61 ہجری میں رونما ہوا۔ تاریخ انسانیت کے ایک اہم ترین مذہبی، سیاسی و سماجی تحولات میں سے کربلا مشن ایک منفرد واقعہ ہے۔ اس کا ایک ایک لمحہ انسانیت کے لئے ایک درسگاہ ہے جس کا صحیح تجزیہ کرنا ضروری ہے تاکہ کربلا کی تحریک کو ہر ممکن حد تک بہتر طریقے سے پرکھا جاسکے۔ اس نہضت کا اصل چہرہ جس کو تاجران خون حسین نے چند سکوں کے عوض ہائی جیک کیا ہے سامنے آ جائے۔ آج کی تاریخ میں کربلا کو خانقاہوں، درگاہوں اور درباروں سے نکال کر میدان عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ آج سے چودہ سو سال قبل یزید نے مدینہ منورہ میں تعینات اپنے گورنر کو لکھا کہ حسین ابن علی، عبدالله بن زبیر اور عبدالله بن عمر کو بلاؤ اور ان سے میری بیعت کی دعوت دو۔ اگر وہ بیعت سے انکار کریں تو ان کا سر قلم کر دو۔ اس توہین کے جواب میں نواسہ رسول، فرزند علی و بتول، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ نے جرائت، جواں مردی اور بہادری سے تاریخی جملہ ارشاد فرمایا: ”مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا“۔( سوانح کربلا) اس تاریخی جملے سے تحریک کربلا کا اصل ہدف اور نصب العین واضع ہوگیا۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ کے اس چھوٹے مگر خوبصورت جملے نے یزید ابن معاویہ اور تاروں ابد سر اٹھانے والی یزیدیت کو للکارا اور حق و باطل کے فاصلے کی بے نظیر اور لا مثال فارمولا پیش کیا۔ بدنصیبی یہ کہ آج ہم نے قیام کربلا کو ایک حادثہ سمجھا ہے۔ امام عالی مقام واقعاً مظلوم تھے، یزیدی افواج نے امام عالی مقام اور آپ کے اصحاب و انصار اور اہل بیت پر ایسے مظالم ڈھائے جن کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن تحریک کربلا ایک مصمم ارادہ والی تحریک تھی۔ امام عالی مقام نے مصمم ارادے کے ساتھ اس تحریک کی بنیاد ڈالی اور یہ تحریک میدان کربلا میں پروان چڑھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی تحریک نہیں تھی بلکہ باطل نظام، فاسق و فاجر نظام کے خلاف علی الاعلان تحریک تھی جس کا ایک ایک مجاہد جواں مردی، بہادری، شجاعت و دلیری، صبر و رضا، مزاحمت اور استقامت کی مثال تھا۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ نے شعوری طور پر شہادت کا انتخاب کیا۔ نہ صرف مدینہ منورہ سے سفر کے آغاز اور روضہ رسول ﷺ کی الوداعی رات یا مکہ مکرمہ سے سر زمین عراق تک کے سفر میں بلکہ برسوں پہلے ہی سے معلوم تھا اور رسول خدا ﷺ کے زمانے میں ہی شہادت سے خبردار تھے۔ امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ نے علی الاعلان اپنے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے قیام کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ میرے قیام کا مقصد رسول الله ﷺ کی امت کی اصلاح، آپ کی سنتوں اور قوانین الٰہی کا احیا ہے جنہیں یزید ملعون نے پامال کیا تھا۔ نہضت کربلا کا یہ ہدف اس قدر عظیم ہے کہ امام فرماتے ہیں کہ آپ نہیں دیکھتے کہ حق کو روندا جارہا ہے اور باطل کو روکا نہیں جا سکتا۔ مدینہ منورہ سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت سید الشہداء حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ نے جو وصیت لکھی اس میں آپ نے پہلے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کیا پھر لکھا کہ میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ منورہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ رسول الله ﷺ کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں۔
چونکہ عاشورا کے کلچر میں یزید بذات خود ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اس الٰہی کلچر میں جب برائی سر نکالتی ہے تو اس کا خاتمہ کرنے کے لئے چھ ماہ کا معصوم بھی اپنے گلے پر تیر کھانے کے لئے نکلتا ہے۔ نوجوانوں کو شہادت قند سے شیرین لگتی ہے۔ عاشورائی کلچر کے یہ سرفروش سینہ تان کے نکلتے ہیں اور دین محمدی کی آبیاری کے لئے قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو خلیفۃ المسلمین کہنے والا یزید دین محمدی کی اصلی ہیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان حالات میں حضرت سیدنا امام حسین رضی الله عنہ کے پاس دو ہی آپشن تھے۔ مزاحمت یا بیعت۔ مزاحمت کا نتیجہ شہادت یا حکومت الٰہی کا قیام تھا اور بیعت کا نتیجہ اسلام کی رسوائی اور تباہی تھی۔ امام نے مزاحمت کا راستہ انتخاب کیا اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا علم بلند کیا، امت کو بنی امیہ کے خطرات سے خبردار کیا، آپ نے سب کو یزید پلید اور اس کے کارندوں کے خلاف مزاحمت کی دعوت دی۔ ایک غیر مسلم دانشور لکھتا ہے: ’’اپنے عزیز ترین لوگوں کی قربانی دے کر حسین نے دنیا کو قربانی کا سبق سکھایا، اسلام اور مسلمانوں کا نام تاریخ میں درج اور دنیا میں روشن کیا، اگر ایسا واقعہ رونما نہ ہوتا تو یقینی طور پر آج اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی نہیں رہتا۔‘‘(خطباتِ محرم) عاشورہ کا المناک واقعہ جو حق و باطل، ایمان و کفر کے درمیان خونریز معرکہ تھا اگرچہ بظاہر اصحاب حق کی شہادت ہوئی لیکن درحقیقت انہوں نے عظمت و بزرگی اور ایمان و یقین کے ایسے مظاہر دکھائے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے درج ہیں۔ حقیقی معنوں میں آپ نے اپنے اہداف و مقاصد حاصل کر لئے۔ کربلا کے ان جانثاروں نے لوگوں کو فخر و آزادی کا راستہ دکھایا، گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو نجات کی شمع دکھائی۔ پس وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ کربلا کے ایک ایک کردار کو اپنا رول ماڈل بنائیں۔ محفل امام حسین کے انعقاد کے ساتھ ساتھ ان کی سیرت کو بھی اپنائیں۔ جب تک کربلا کے جانبازوں کے کردار و افکار اور نظریات کو ہم معاشرے میں نافذ نہیں کریں گے تب تک کربلا کے اصل ہدف اور مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا۔