رسالہ"السیف البتار"  از "ممبرم تنگل": ایک مطالعہ

سید علوی مولی الدویلہ قدس سرہ کا شمارکیرالہ کے عظیم صوفیوں اور سادات میں ہوتا ہے۔آپ کو عموما "ممبرم تنگل" کہا جاتا ہے۔آپ کی ولادت 1749اور وفات 1843میں ہوئی۔اس حساب سے آپ نے اٹھارہویں صدی کا نصف آخر اور انیسویں صدی کا نصف اول پایا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی اور اپنی وہ شان و شوکت کھوچکی تھی جو کبھی اکبر یا اورنگ زیب کے دور حکومت میں ہوا کرتی تھی۔ہر طرف طوائف المکولی تھی۔انگریز نہایت چالاکی سے اپنے پاؤں پسار رہے تھے اور ہندوستان کے تمام معاملات میں دخیل ہوتے جارہے تھے۔پندرہویں صدی میں جب پرتگالیوں نے ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنے شروع کیے تھے اس وقت شیخ زین الدین مخدو م نے "تحفۃ المجاہدین "لکھ کر بادشاہ عادل شاہ سے فریاد کی تھی اور اب مسلمانوں کو انگریزوں سے تقریبا وہی مسائل درپیش تھے۔ظاہر ہے ممبرم تنگل بھی ان حالات سے متاثر ہوئے اور آپ نے بھی حسب موقع کبھی قلم اور کبھی تلوار سے انگریزوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔انگریزوں کے خلاف کئی ایک مہموں میں آپ کی شرکت کے تاریخی شواہد ملتے ہیں۔

اس مضمون میں ہم جس رسالے کا ذکر کر رہے ہیں اس کا پورا نام ’السیف البتار علی من یوالی الکفارویتخذھم من دون اللہ ورسولہ والمؤمنین انصارا‘ہے۔یہ رسالہ عام طور پر عبداللہ بن عبدالباری الاہدل کے نام سے پایا جاتا ہے مگربعض تاریخ نویسوں کے مطابق یہ رسالہ دراصل ممبرم تنگل سید علوی مولی الدویلہ قدس سرہ کا ہے اور عبداللہ بن عبدالباری الاہدل کی حیثیت محض ایک مولف کی ہے۔کے کے محمد عبدالکریم کے مطابق یہ رسالہ دراصل ممبرم تنگل کی فرمائش پر شمالی کالی کٹ کے قصبہ کوئیلانڈی کے رہنے والے عبداللہ بن عبدالباری الاہدل نے تحریر فرمایا۔سی این احمد مولوی کے مطابق یہ ممبرم تنگل ہی کی تحریر ہے۔سی حمزہ کا بھی یہی خیال ہے۔

رسالہ آٹھ سوالوں اور ان کے جواب پر مشتمل ہے۔یہاں آٹھوں سوال اور ان کے جواب مختصرا بیان کیے جاتے ہیں۔

۱۔اس شہر کا کیا حکم ہے جس پر حربی نصرانیوں یا ان کے علاوہ کسی اور کا تسلط ہے نیزان مسلمانوں کا کیا حکم ہے جو وہاں اپنی مرضی سے بود و باش اختیار کرتے ہیں اور ان (نصرانیوں)کی خلاف شرع باتوں پر بھی رضامند ہوتے ہیں ان شہروں کو پسند کرتے ہیں اور وہاں عمارتیں تعمیر کرتے ہیں؟ان کا یہ کام کیسا ہے اور ان کے ایمان کا کیا حکم ہے؟

۲۔ان مسلمانوں کے ایمان کا کیا حکم ہے جو نصرانیوں کی رعایا ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں نیز اپنی کشتیوں پر نصرانیوں کے جھنڈے نصب کرتے ہیں؟

۳۔اس شخص کا کیا حکم ہے جو نصرانیوں کو صاحب عدل بتاتا ہے مجلسوں میں ان کی تعریفیں کرتا ہے مسلمان سلاطین کی توہین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ نصرانی ظلم نہیں کرتے؟

۴۔اس شخص کا کیا حکم ہے جو کھانا یا کوئی اور شئے نصرانیوں کے شہر میں لے جاتا ہے اس پر کوئی مسلمان اعتراض کرتا ہے اور اسے منع کرتا ہے مگر وہ نہیں مانتا تو کیا اگر وہ مسلمان اسے قتل کردے یا اس کا مال چھین لے تو اس کا خون اور مال حلال ہوں گے یا نہیں؟یاد رہے کہ قاتل کی نیت کفار کو نقصان پہنچانا ہے جبکہ مقتول کی نیت ان کو فائدہ پہنچانا تھا۔نیز اس مسلمان کا کیا حکم ہے اگر وہ قتل ہوا تو کیا وہ شہید ہوگا یا نہیں اور ان مسلمانوں کا کیا حکم ہے جو اس کام میں اس کی مدد کرتے ہیں؟

۵۔اس جگہ کا کیاحکم ہے جس پر کافروں نے قبضہ کر لیا ہے اور مسلمان وہاں اپنے مال اور اولاد کے ساتھ آباد ہیں؟ان کا وہاں رہنا جائز ہے یا نہیں؟وہ کفار سے نفرت کرتے ہیں اور ضرورتا وہاں مقیم ہیں کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟ان کے ایمان کا کیا حکم ہے کامل ہے یا ناقص یا گھٹتا بڑھتا رہتا ہے؟وہ جہاد بھی کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے اس بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے؟ان لوگوں کا کیا حکم ہوگا جو کفار سے محبت کرتے ہیں اور جو نفرت کرتے ہیں اور ان لوگوں کا بھی جو یہ جانتے ہوئے بھی ان کے احکام مانتے ہیں کہ وہ اسلامی شریعت کے خلاف ہیں؟اگر وہاں شریعت اسلامی کا نفاذ نہ ہو بلکہ کفر کا قانون نافذ ہو تو وہاں رہنے والوں کا کیا حکم ہے؟کیا وہ اس قانون کو مانے اور وہیں رہے یا ایسی صورت میں وہ گناہ گار ہوگا اور اسے ہجرت کرنی پڑے گی؟

۶۔ان دولوگوں کا کیا حکم ہے جنہیں یہ پتہ ہو کہ اگر وہ ہجرت کرکے مسلمانوں کے شہرمیں جا بسیں گے تو انہیں مالی نقصان ہوگا اور اگر کافروں کے شہر میں رہیں گے وہ کوئی مالی نقصان نہ ہوگا بلکہ صرف دینی نقصان ہوگا۔پھر ان میں سے ایک مالی نقصان برداشت کرتا ہے اور اپنے دین کو بچانے کیلئے مسلمانوں کے شہر کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور دوسرا مالی نقصان سے بچنے کیلئے اپنے دین کو داؤ پر لگا کر کفار کے شہر کی طرف جاتا ہے۔ان دونوں کا ایمان کیسا ہے؟اور کفار کے شہر کی طرف سفر کرنے والے کو اگر کوئی منافق کہتا ہے تو کیا وہ گناہ گار ہوگا؟

۷۔دو جنازے لائے گئے دونوں مسلمان ہیں مگر ان میں سے ایک کا دعوی تھا کہ وہ نصرانیوں کی رعایاسے ہے اور دوسرے کا دعوی تھا کہ وہ مسلمان بادشاہ کی رعایا سے ہے ایسی صورت میں کس کی نماز پہلے پڑھی جائے گی؟

۸۔ اس شخص کا کیاحکم ہے جس پر مقدمہ چلایا گیا اور اسلامی شریعت کے مطابق فیصلہ کیا گیامگر اس نے کہا کہ میں نصرانیوں کی رعایا میں سے ہوں اور میرا فیصلہ انہیں کے احکام کے مطابق ہونا چاہیے۔آپ کا کیا خیال ہے کیا اس کا مال حلال ہے؟وہ مرتد ہے یا نہیں؟

یہ کل آٹھ سوال ہوئے۔اس مضمون میں جواب کا ماحصل ذکر کیا جائے گا جنہیں جواب کی تفصیل درکار ہو وہ براہ راست رسالے کا مطالعہ کریں۔

۱۔کفار نے جس شہر پر قبضہ کیا وہ پہلے دارالاسلام تھاتو اب بھی دارالاسلام ہی رہے گا۔ ان کے قبضہ و تسلط کی وجہ سے اس حکم میں تبدیلی نہیں ہوگی۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش بھر کافروں کو وہاں سے نکالنے کی تدبیر کریں۔جو شخص ایسے شہر کی طرف منتقل ہو جس پر اہل ذمہ کا قبضہ ہے وہ گناہ گار فاسق اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ کفر سے بے زار ہو۔ہاں اگر وہ کفر سے راضی ہے تو خود بھی کافر ہے اور اس پر وہ تمام احکام نافذ ہوں گے جو مرتد کے ساتھ خاص ہیں۔

۲۔وہ جاہل عوام جونصرانیوں کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں مگر ساتھ ہی اسلام کی رفعت و بلندی کے قائل ہیں وہ محض فاسق ہیں ان کی تادیب کی جائے اور وہ لوگ جو اسلام کے احکام سے واقفیت رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہیں ان سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا اگر توبہ کریں تو ٹھیک ہے ورنہ انہیں خارج از اسلام سمجھا جائے اور اگر کفر کی تعظیم کرتے ہیں توان پر مرتدکے احکام جاری ہوں گے۔ 

۳۔نصرانیوں کی تعریف کرنے والا فاسق اور گناہ گار ہے۔اس پر توبہ واجب ہے۔یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ نصرانیوں کی تعریف کرے اور اس کی یہ تعریف ان کے اندر موجود کفر کی بنا پر ہے تو اسے کافر قرار دیا جائے گامثلا اس نے کسی ایسی بات کی تعریف کی جسے اسلام نے کفر کہا ہے۔ابویعلی اور بیہقی کی روایت کردہ حدیث میں ہے جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ غضب ناک ہوتا ہے اور اس کا عرش لرز جاتا ہے۔جو لوگ نصرانیوں کو صاحب عدل قرار دیتے ہیں اگر ان کی نیت ان احکام کو بھی عدل ٹھہرانے کی ہے جو کفر ہیں تو وہ کافر ہوں گے اور اگر محض عدل مجازی مراد لیتے ہیں تو اس سے کفر لازم نہیں آئے گا۔ایک حدیث میں ہے میں نوشیروان عادل کی سلطنت میں پیدا ہوا۔امام ابن حجر نے" النعمۃ الکبری" میں فرمایا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔اور اگر اسے حدیث مان بھی لیا جائے تو عادل کا لفظ محض عرفا استعمال ہوا ہے (کیوں کہ نوشیروان اسی لاحقہ کے ساتھ مشہورہے۔) اس سے مراد یہ نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے عدل کی گواہی دے رہے ہیں۔امام سخاوی نے بھی اس حدیث کو موضوع لکھا ہے۔(خسرواول نوشیروان عادل کے لقب سے مشہور تھااس کی وفات 579میں ہوئی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 571میں ہوئی۔)

۴۔جو علاقہ جو شروع ہی سے نصرانیوں کاہے وہاں مسلمانوں کی تجارت اور دیگر معاملات جائز ہیں۔ان شہروں میں تجارت کرنے والے کا مال اگر لوٹا گیا تو لوٹنے والا ڈاکو کہلائے گا۔اگر لوٹنے والا اس شخص کو قتل کردے تو وہ شہید ہوگا۔اور اگر وہ علاقہ دارالاسلام تھا اور کفار نے اس پر قبضہ کرلیا تو ایسی صورت میں وہاں تجارت کرنے والا گناہ گار ہے اسے اس سے روکا جائے گامگر قتل کرنے کی اجازت بہر حال نہیں ہے۔

۵۔وہ مسلمان جو دارالحرب میں ہو اس کیلئے دارالاسلام کی طرف ہجرت کرنا مستحب ہے۔اگر وہ وہاں رہ کر اپنے دین پر عمل کر سکتا ہے تو ہجرت واجب نہیں ہے۔اور اگر دین پر عمل کرنا مشکل ہے تو اگر ہجرت کی طاقت رکھتا ہے توہجرت واجب ہے اور اگر ہجرت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو معذور ہے۔

۶۔دارالاسلام میں رہنے والا حق پر ہے اور جس نے دارالکفر کی طرف ہجرت کی اس نے اللہ کے غضب کو دعوت دی اور اس کی ہجرت حرام ہے۔ایسے شخض کو منافق کہنا بایں معنی کہ اس کا عمل منافقوں جیسا ہے بالکل درست ہے ہاں اعتقادا اسے منافق کہنا حرام ہے کیوں کہ اعتقاد دل کا حال ہے اور اس پر اللہ کے سوا اور کوئی مطلع نہیں ہے۔

۷۔مسلمان بادشاہ کی رعایا والے مسلمان کی نماز پہلے پڑھی جائے گی اور اسے کافروں کی رعایا والے مسلمان پر ترجیح دی جائے گی اگر چہ وہ فقیہ ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ فقہ سیدھی راہ دکھاتا ہے اور جو فقیہ تو ہے لیکن تقوی نہیں رکھتا اسے سوائے اللہ سے دوری کے اور کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔

۸۔اگر وہ شریعت اسلامیہ سے بغض رکھتا ہے اور نصرانیوں کے احکام کو صحیح مانتا ہے تو کفر ہے اس پر مرتد کے احکام جاری ہوں گے اور اگر اس نے مجبوری میں ایسا کہا ہے یا نصرانیوں کے احکام کو صحیح نہیں مانتا تو فاسق ہے۔

مصنف نے ہر سوال کا جواب تفصیل سے دیا ہے مگر یہاں صرف اہم ترین احکامات کے بیان پر اکتفا کیا گیا ہے۔مصنف نے رسالے کے آخر میں لکھا ہے کہ انہوں نے اسی رات خواب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی۔وہ اور ان کے بھائی سیدحسن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اور سوال کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داہنی جانب بیٹھا ہوا تھا۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ویسا ہی لباس پہن رکھاتھا جیسا کرد پہنتے ہیں۔مصنف نے لکھا ہے کہ یہ سوال اور جواب دونوں کے مقبول ہونے کی دلیل ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter