تربیت اولاد ایک معاشرے کی تشکیل کا ضامن
تربیت سے در حقیقت ایک صالح معاشرہ تیار ہوتا ہے۔ تربیت ہی وہ عظیم کارنامہ ہے جس کی بدولت سوسائٹی سرخرو ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ امام بیضاوی رب کے تحت تربیت کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں التربیۃ تبلیغ الشیء الی الکمال شیئا فشیئا یعنی کسی شیء کو بتدریج اوج کمال تک پہنچانے کا نام تربیت ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے تربیت پر کافی زور دیا ہے تاکہ ایک صالح اور بااخلاق معاشرہ تیار ہو۔اسی تربیت کی فقدان کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے میں گوناگوں جرائم دن بدن جنم لے رہے ہیں گھروں سے تربیت کی پرکریا ختم ہوگئی۔
آج کے اس آئی ٹی دور میں نہ تربیت کی اہمیت ہے نہ سماج میں بڑے چھوٹے کا امتیاز۔تربیت کے کئی گوشے ہیں جیسے تربیت خاندان تربیت افراد تربیت معاشرہ وغیرہ وغیرہ انہیں تربیتوں میں اولاد کی تربیت کو کافی اہمیت حاصل ہے اسی کی طرف قرآن عکاسی کرتے ہوئے کہتا ہے اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (تحریم:۶)یہاں گھر والوں کو بچانے کی جو بات کی جارہی ہے اسی کو ہم اپنے اسلوب میں تربیت سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے متعلقین کو تربیت کے حسین گلدستے سے سجادینگے تو وہ نیک وصالح ہوجائنگے جب صالح ہوجائنگے تو جہنم کے ایندھن سے بچ جائنگے۔ حضور پرنور ﷺ نے تربیت اولاد کی ڈھیر ساری مثالیں ہمارے سامنے پیش فرمائی ہیں جن میں سے ایک مثال ہم آپ کے سامنے نقل کرتے ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔
پیار ومحبت کے ساتھ آپ ﷺ بچوں کی تربیت کیا کرتے تھے بچوں کو ڈانٹے بغیر ان کی بری عادت واطوار کو چھڑا دیتے تھے حدیث میں ہے کہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں بچپن میں تاجدارِ کائنات کے زیر تربیت وسایہ میں تھا ایک دن دسترخوان پر کھانا کھانے کے دوران میرا ہاتھ برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا یہ دیکھ کر امام الانبیاء معلم کائنات ﷺ نے مجھ سے کہا اے لڑکے اللہ تعالی کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ(الحدیث) آپ نے غور کیا کتنا پیار بھرا لہجہ ہے۔سرکار مدینہﷺ نے اس نوخیز بچے کو ڈانٹا نہیں برا بھلا نہیں کہا اور نہ دسترخوان سے اٹھا دیا بلکہ والہانہ انداز اپنا کر اس نوعمر بچے کو کھانے کے آداب سکھائے۔
بچپن کی صحیح تربیت کا اثر دور آئند اور خوش آئند ہوتا ہے اگر بچپن میں اسلامی اصول وضوابط کے مطابق تربیت کی جائیں تو اس کا اثر بچے بڑے ہونے کے بعد بھی نظر آتا ہے اور اگر بچپن میں صحیح طریقے سے تربیت نہیں کی گئی تو بچے بڑے ہونے بعد عیاش وفحاش و بازاری بن کر ابھرئنگے اور ان سے بھلائی کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پورا خاندان بلکہ پورا معاشرہ ان سے پریشان و ہراساں رہیگا پھر عاملوں اور باباؤں کے چکر کاٹنے سے کچھ نہیں ہوتا۔یہ سب بچپن میں والدین وسرپرست کی غفلت وتساہلی کا نتیجہ ہے پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بابا یا عامل کا تعویذ پہنا دینے سے بچہ نیک وصالح و فرمانبردار بن جائیگا یہ سب خام خیالی ہے۔
تعویذ وپلیتہ کوئی اپلیکشن تھوڑی ہے جس کے انسٹال کردینے سے اب صحیح ہو جائیگا تعویذ کے اثر کا انکار نہیں بلکہ اس سے متعلق جو خام خیالی ووہم پرستی ہے اس کا انکار ہے اس لیے چاہیے کہ ہم بچپن میں ہی بچوں کی صحیح تربیت پر کڑی نظر رکھیں اور حتی المقد ور بچوں کو وقت دینے کی کوشش کریں آج ہر ایک کے پاس سب کچھ ہے لیکن کوئی چیز نہیں ہے تو وہ وقت یہی عدیم الفرصتی اور ذمہ داروں کی تساہلی کی وجہ سے مسلم معاشرہ پریشانیوں سے دوچار ہے اللہ ہمیں اپنے بچوں کی صحیح پرورش وپرداخت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے ۔آمین