آؤ اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں ...

آج پوری دنیا کے مسلمانوں کی حالت زاراس قدر زوال پذیر ہے جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ایسے پرآشوب دور میں جب کہ امت مسلمہ افتراق و انتشار کی شکار ہے ،اتحاد و اتفاق کا فقدان ہر طرف صاف طور سے دکھائی دے رہا ہے۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے۔برتری و انارکی کا دور دورہ ہے۔دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا،صاحب ثروت کا غریبوں کو تیکھی وٹیڑھی نظروں سے دیکھنا عام سی بات ہے۔حد تو یہ ہے صاحبان  علم و دانش اس بیماری میں زیادہ مبتلا نظر آرہےہیں۔ان کی آپسی چپقلش اور رسہ کشی کی وجہ سے عوام میں انتشارواضطراب کی جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں،گروپ بندی کےساتھ ساتھ مشربی اختلافات اپنے شباب پر ہیں یہ بیماری دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔خانقاہوں کے سجادگان(الاماشاءاللہ) اتحاد اتفاق کے موڈ میں  ہرگز نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔حالانکہ ان کے ذریعہ  اتحاد کی روشنی سارے عالم کو روشن وتابناک بناسکتی ہے،مگر یہ فکران کج کلاہان میں دوردور تک دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ایسے میں اتحاد کی جڑیں کیسے مضبوط ہوسکتی ہیں؟ جب کوئی بھی خانقاہ وادارہ کسی دوسرے ادارے و خانقاہ کو اپنے سے کمتر سمجھنے لگے تواتحاد کی باتیں دوراس کی بو بھی نہیں آسکتی۔ حالانکہ اس بوئے ناخوشگوار کا رخ موڑنے کے لئے ہمارے معاشرے میں ایک سے بڑھ کے ایک صاحب فضل و کمال،خلوص و للہیت کے پیکر موجود ہیں ،جن کے ایک اشارے پر آج بھی پوری جماعت ایک پلیٹ فارم پر آسکتی ہے۔ مگر انہیں اس کام  کی فرصت کہاں !ان کی انا کا خمار اس طرف سوچنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔انہیں تو اپنی دوکان چمکانے کی فکر دامن گیر ہے۔

یہاں پر ان تلخ حقائق سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں ۔نہ ہی ہم کسی پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش  کررہے ہیں، بلکہ اپنے درد کا اظہار کررہےہیں۔اگر کوئی ناسور کے زخم پر کراہ اٹھے اور درد و کرب کا اظہار کرے اور اس درد کے اظہارکو کوئی بد تمیزی سمجھےتو یہ اس کا اپناقصور ہے ۔ہم تو جگانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ بیدار ہوکر مسند نشینی والی سوچ ترک کرکے اپنے اسلاف کے نقش قدم پر گامزن ہوجائیں اورامت مسلمہ کا بکھرا ہوا شیرازہ اپنی جدو جہدسے متحد کردیں۔یہ بات بھی قابل غوررہے کہ کسی بھی عمارت کی تعمیر و ترقی  میں برسوں لگ جاتے ہیں، لیکن عمارت گرنے کے لئے چند ہی لمحے درکار ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ امت مسلمہ نے درد و کرب کے کٹھن سے کٹھن مرحلے دیکھے ، لیکن جب تک اتحاد و اتفاق کی رسی مضبوط رہی اس کے پائے استقامت کو کوئی بھی متزلزل نہ کر سکا،اور نا ہی دنیا کی کوئی طاقت ان کو نقصان  پہونچا سکی۔ یاد رہے جس طرح ایک ایک قطرے سے ساگر بنتا ہے اسی طرح سے ایک ایک فرد کو ملا کر ایک معاشرہ بنتا ہے، جس طرح سے قطرہ ساگر میں جاکر پورا ساگر بن جاتا ہے اسی طرح سے فرد واحد جب جماعت میں شریک ہوجاتا ہے تو پھر وہ فرد واحد نہیں پوری جماعت بن جاتا ہے۔ لہذا ہر فرد کو وہی کردار ادا کرنا چاہئے جو ایک اینٹ عمارت کو مضبوط کرنے میں کرتی ہے۔ 

یاد کیجئے زمانۂ جاہلیت کے اس دورپرخطر کو جس میں انسانیت سسکیاں لے رہی تھی ،حیوانیت اپنے عروج پر تھی۔ہر قبیلہ ایک دوسرے کے لئے کانٹا تصور کیاجارہا تھا،انسانیت نہ جانےکتنےخانوں میں تقسیم ہوچکی تھی،ایسے ماحول کو اگر کسی نے سازگار اور پرسکون بنایا تو وہ کوئی اورذات  نہیں بلکہ نبی آخر الزماں روحی فداہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات بابرکات تھی۔لیکن صد افسوس! جس رسول ہاشمی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں متحد رہنے کا درس عظیم عطا فرمایا۔ان کے لائے ہوئے کلام الٰہی نے ہمیں’’ واعتصموابحبل اللہ جمیعا‘‘ کی نوید دل ربا سنائی۔ ہم اس راستے پہ چلنے کے بجائے نفس امارہ کے شکار ہوگئے۔جب کہ عالمی سطح پرباطل قوتیں متحدہ محاظ کی شکل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خطرناک سازشیں رچ رہی ہیں۔ 

دوسری طرف ان عالمی سازشوں کے مابین ہم خود آپسی خانہ جنگی ورسہ کشی کے شکار ہیں۔گروپوں اور ٹولیوں،ٹکڑیوں میں بٹتے ہی چلے جارہے ہیں۔زیادہ ترانہیں باتوں کو جھگڑے کی جڑ بنا لئے ہیں جن کا فرض و واجبات سے ذرہ برابر بھی تعلق نہیں  ہے۔بلکہ اب تو اپنی رائے کو بعض جگہ شریعت سے بالا تر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جہاں کسی نے ان کے مقابل اسلام کی تعلیمات کو پیش کیا اسی کو اسلام سے خارجے کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا جاتا ہے۔بلکہ حال یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد ایک دوسرے کی مخالفت پر ایسا کمر بستہ نظر آرہا ہےاور اپنے بھائی کے مقابلے میں شمشیر برہنہ بن گیا ہے،اور اپنی چرب زبانی کو اپنی جیت کا معیار بنا لیا ہے اور جب کوئی صاحب فضل و کمال ارشاد خداوندی کے پیش نظر مصلحتاً خاموشی اختیار کرلیتا ہے تو مقابل پھولے نہیں سماتا اور ایسا ماحول بنایا  جاتا ہےجیسے کہ وہ کوئی بہت بڑامعرکہ جیت گیا ہو۔آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم بڑوں کی باتوں کو سننے کو تیارنہیں۔ وجہ صاف ہے کہ ہم میں کا ہر فرد اپنے آپ کو دوسرے شخص سے بہتر و برتراور زیادہ عقل مند سمجھتا ہے ۔اگر تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ہی کچھ حالات سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے تھے،اس تاریک ماحول میں ہر انسان اپنے آپ کو ایک دوسرے سے بہتر و برتر سمجھ رہا تھا اور اونچ نیچ رنگ ونسل ذات پات کے پیچیدہ داؤ پیچ میں الجھا ہواتھا۔ظاہر سی بات ہے کہ جس سماج میں یہ بری لعنت سرایت کر جائے تو وہ معاشرہ تباہ وبربادہوجاتا ہے۔وہاں زندگی 
 اجیرن بن جاتی ہے ۔

اب آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ گنواراور جاہل قوم کیسے متحد و متفق ہو گئی اور اسے کیسے سیدھی راہ مل گئی۔اس کی شیرازہ بندی کیسے ممکن ہوسکی ؟تو تاریخی حقائق پکار کر کہتے ہیں کہ آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےان کے بیچ سے دو ایسی بنیادی باتوں کا خاتمہ کیا جس نے صدیوں سے انہیں یرغمال بنا رکھا تھا۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نےاسلام کے ہمہ گیر پیغام کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسے درخت کی آبیاری فرمائی جس کے سائے میں آکر سسکتی ہوئی انسانیت کو چین و سکون میسر آیانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےسب سے پہلے یہ پیغام دیا کہ اے گروہ انسان! تم اپنےآپ کو پہچانو۔تم اس خدا کے بندے ہو جس نے ساری کائنات کو وجود بخشا ہے اس نے تم کو  ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے۔لہذا تم ایک خدا کے بندے اور ایک ماں باپ کی اولاد ہو۔ تمہارے بیچ نسلی و لسانی اور ملکی وقبائلی تفریق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔تم انسان ہو،ایک رب کے بندے ہو۔

پیغمبراسلام کا یہ ایک ایسا نعرہ تھا جس نے بڑےسے بڑے پتھر دلوں کو موم دل بنا دیا۔حقیقت اس بات کی عکاسی کررہی تھی کہ ان ظلمت کدہ دلوں کو اچھائیوں کی طرف پھیرناآسان نہ تھا بلکہ بڑا مشکل کام تھا۔ لیکن پیغمبر  اسلام نے اسلام کے اس آفاقی نظام زندگی و بندگی کو عربوں کے سامنے ایسا پیش کیاجسے جھٹلاپانا ان کےلئے نہایت ہی دشوار تھا۔ یہی وجہ تھی کہ خونخوار درندہ صفت انسان اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہوتے گئے اور اپنے پچھلے گناہوں سے تائب ہوکر پیغمبر اسلام کے قدم ناز پر اپنی جانیں قربان کرنے کو فخر محسوس کرنے لگے۔وہ جہل و ظلم و بغاوت کے پتھر دل لوگ جب نبئی پاک سےملے تو سب کے سب صراط مستقیم کے آئینوں میں ڈھلتے چلے گئے 

آقائے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ سعید کا نتیجہ یہ ہواکہ سب کے سب امن کے علمبردار اور اتحاد و اتفاق کے داعی بن گئے اور ہر فرد ایک دوسرے کی مدد و حمایت کا نعرہ لگانے لگا اور دنیائےانسانیت کو اتحادو اخوت کا وہ عظیم پیغام دیا جس کی مثالیں رہتی دنیا تک قائم ودائم رہیں گی۔اسی انقلابی سوچ اور نعرے کی بدولت عربوں میں ایک دوسرے کی محبت کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ ایسے متحد ہوئے کہ پوری انسانی تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی۔بلکہ دنیا آج اگر امن و آشتی کا گہوارہ بنی ہوئی ہے تو یہ کرم ہے محمد عربی ﷺ کے نظام اخلاق کا ۔جہاں جہاں دنیا کے قدم ڈگمگائےانسانیت نےمحسن انسانیت کے پیغام اور ان کی سیرت کا مطالعہ شروع کیا اور پھر اسے عروج واقبال منزلوں کا راہی بننانصیب ہوا ۔

  آئیے ذراہم ان کے اتحاد پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔مکہ کی سرزمین پر بسنے والے عشاقان رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو انصارمدینہ کے چہروں کی بشاشت لائق دید تھی مدینہ منورہ کی فضاؤں میں ہر چہارجانب خوشیوں کے بادل امنڈ آئے تھے ۔جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارومہاجرین کے درمیان اخوت و بھائی چارگی قائم فرمائی جس کی وجہ سے انصارنے اپنے مہاجر بھائیوں پراپنے گھربار کھیتی باڑی مال و دولت سب آدھے آدھے کا حصے دار بنا دیا۔اور اپنے بھائیوں کو یہ اختیار دیا کہ ان کا حصہ وہ ہے جو ان کی پسند ہو۔ان مقدس پیغامات کو ہم کتابوں میں پڑھتے اورمحدثین و مفسرین کی زبانی  سنتے آرہے ہیں ۔ 

آج ہمارے ماحول میں ہر پیراور ہرعالم اتحاد کی بات کرتا ہے ہر ذی شعور اتحاد کاراگ  الاپ رہا ہےاس زبانی جمع خرچ میں کوئی پیچھے نہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ اتحاد سے ہم کوسوں دور ہوتے جا رہے ہیں ۔اتحاد تو دور کی بات ہے ہماری صفوں کے درمیان اتحاد کی بو تک نہیں پہنچی۔ وجہ صاف ہے بولنے والے بولتے تو ہیں مگر دل میں خلوص و للہیت نہیں،اتحاد کا نعرہ لگانے والے خود ہی اتحاد نہیں چاہتےکہ ان کی اپنی دکان کہیں بند نہ ہوجائے ۔

یہاں پر میراایک سوال تمام ذمہ داران قوم و ملت سے ہے کہ  جب سارے پیروں کا شجرہ سرکار غوثیت مآب سے ہوتا ہوامولائے کائنات اور پھر نبی رحمت ﷺ تک پہنچتا ہے تو پھر آپس میں بٹوارہ کیسا؟ آپس میں دشمنی کیسی؟ آپس میں بھید بھاؤ کیسا ؟یہ اس کا مرید، وہ اس کا مرید ،سارے پیروں اور مریدوں کی ڈور جب سرکار غوث پاک کے ہاتھ میں ہے تو بٹوارہ چہ معنی دارد؟ ٹھیک ہے ! ہم اپنے پیر کے مرید ہیں لیکن دوسرے پیر کا احترام ہم پر لازم ہے ۔ ہمارا مسلک و مشرب ہمیں اسی بات کی تعلیم دیتا ہے ۔میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جس دن یہ بات ہماری خانقاہوں سے عام ہوجائے گی یقین جانیئے ہر مرید دوسرے پیر کی عزت و احترام اوراسے محبت کی نظر سے دیکھنا شروع کر دےگا۔ یہی حال مدارس اور بڑے بڑے اداروں کا ہے۔ وہاں سے بھی شاید یہی درس ملتا ہے کہ تم سے بڑا کوئی اور نہیں جو پڑھائی تم نے پڑھی ہے وہ کسی اور نے نہیں پڑھی ہے۔اسی لئے وہ(الاماشاءاللہ)ایک دوسرے کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ یہ فلاں ادارے کا میں فلاں ادارے کا وغیرہ وغیرہ۔جبکہ ہر ادارے سے قال اللہ وقال الرسول ہی پڑھایا جاتا ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر کسی کی صلاحیت الگ الگ ہوا کرتی ہے ۔صلاحیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کا احترام لازم ہے۔مگر یہاں ذرا سا علم آیا کہ اپنے علاوہ دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔جب کہ اسلام میں کسی کو  حقارت کی نظر سے دیکھنا قطعی درست نہیں ۔یہیں سے وہ ناسور جنم لیتا ہے جس سے نفاق کا پودااگتا ہے اور پھر چند دنوں میں ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلیتاہے۔ہمیں مل بیٹھ کر اس نفرتی بیج اور نفاق کے پودے کو ختم کرکے آپس میں اتحاد قائم کرنا ہی ہوگا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ ہمیں نفرتوں کو مٹانا ہے۔پیار کو پھیلانا ہے۔

کبھی جن صفوں میں اختلاف کی ذرہ برابر بھی بو نہیں پائی جاتی تھی آج انہیں صفوں میں سب سے زیادہ اختلاف و انتشار اور تفرقہ بازی حد درجہ سرایت کئے ہوئے ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے جسے ہر حال میں ختم کرنا ہی ہوگا ۔ہماراایک اللہ ایک رسول اور ایک قرآن اور ایک مسلک ہے جس کو ہم سب مانتے ہیں ۔ماننےکے باوجود افتراق و انتشار، کبرونخوت ،حسد وکینہ، بغض و عناد گروہ بندی وگروپ بندی کے ہم شکار ہیں۔

ہمارے مابین اختلاف وافتراق کی ایک وجہ اور بھی ہے جو اپنی ساری حدوں کو عبور کر چکی ہے جس کو آج کے دور میں مشربی اختلافات کہتے ہیں ۔مشرب کو مسلکی اختلاف کی نظر سے دیکھنے کا رواج عام ہوچکا ہے ،گویا کہ ایک پیر اور دوسرے پیر کا الگ الگ مسلک ہے جبکہ پیری مریدی اور مشربی معاملات سرکار غوثیت مآب سے ہوتا ہوا مولائے کائنات پھر وہاں سے سے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ تک پہنچتا ہے ۔ولایت کے سر چشمہ کا نام حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجھہ الکریم ہے ان کو جو کچھ ملا ہے وہ بھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ سے ملا ہے۔

ملت کے ہر با شعور فرد کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیئے کہ کچھ مفاد پرست اور دنیا طلب مولوی نما لوگوں کی نااہلی اوران کے مکر کی وجہ سےقوم  بکھراؤ کی شکار ہوئی اورآج تباہی کے  دھانے پر کھڑی ہے۔امت مسلمہ کی یکجہتی کا شیرازہ مکمل طور سے بکھیر دیا گیا ہے ۔جس کو سبو تاژ کرنے کیلئےجماعت میں چھپےجعفرومیر صادق  جیسے لوگ اپنے کام میں مکمل طور پر لگے ہوئے ہیں ۔ ان کا اولین مقصد ہی یہی ہے کہ اہل سنت و جماعت میں اتحاد و اتفاق کبھی نہ ہونے پائے ۔ایسےضمیر فروش لوگوں کو اپنی صفوں سے پہچان کر باہر کا راستہ دکھانے کی سخت ضرورت ہے ۔جو کبھی اصحاب ثروت اور کبھی خانقاہوں کے سجادگان اور اداروں کے بڑے ذمہ داروں کے درمیان اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بدگمانیاں پھیلا کر امت کابیڑا غرق کرنے میں لگے ہیں۔ ایسے فتین اور فسادیوں کو اپنی صفوں سے جب تک باہر نہ کیاگیا اتفاق و اتحاد ہرگز نہیں ہوسکتا۔اہل سنت کے مابین مشربی اختلافات کو ہوابالکل نہ دی جائے ۔اتحاد کا نعرہ زبان سے نہیں دل سے لگایا جائے۔ ایک دوسرے کا احترام شرعی اصولوں اور پیغمبر امن ورحمت ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں کیا جائے

آج اگرساری خانقاہیں اور سارے ادارے آپس میں متحد ہوگئےتو ایک نیا انقلاب پیدا ہوگا ایک نئی صبح جلوہ فگن ہو گی جو ملت کے لئے حیات نو کی نوید لے کر طلوع ہوگی ۔اور پھر غلامان مصطفی ﷺکا دبدبہ پوری دنیا پر ہوگا۔اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھیں دنیا نےتمہاری تباہئی نو کی بربادی کےتمام اسباب مہیاکر لئے ہیں وہ جس وقت چاہیں گے تمہیں بھیڑ بکری کی طرح ذبح کر کے رکھ دیں گے ۔ اللہ نہ کرے کے مسلمانوں پر وہ برا وقت آئے اس سے پہلے میری تمام ذمہ داران قوم و ملت اور خوش عقیدہ مسلمانوں سے دست بستہ گزارش ہےکہ آؤ سب مل کر اپنی صفوں میں اتحاد و اتفاق قائم کریں

تحریر: سگ بارگاہ آل رسول واسیر حضور تاج الشریعہ 
 ظفرالدین رضوی 
خطیب و امام رضا جامع مسجد ملنڈ ممبئی-۹۸۲۱۴۳۹۹۷۱

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter