اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بر یلو ی رحمتہ اللہ علیہ کا عشق رسول
مو لانا شاہ احمد رضا خا ں فا ضل بر یلوی رحمتہ اللہ تعالیٰ ،سچے عاشق رسول تھے ،تہجد کے وقت اپنا نعتیہ کلام با رگاہ رسالت ﷺ میں پیش کر تے اور صبح تک روتے رہتے ،ہجر وفراق کی کیفیت حد سے گزرگئی تو مد ینہ شریف حا ضر دربار ہو ئے ،گنبدخضرا کے انوار وتجلیات کے فا نوس سے محبت کی روشنی ،دل ونگا ہ کو منور کر رہی تھی ،طالب دید کے نیاز ،عشق کا مجسمہ بنے ہو ئے تھے ،ایسی ساعت سعید کی کیفیات کو سمٹیتے ہو ئے عر ض گزار ہوئے ’’فاران کے بت کدے کو دارالسلام بنا نے والے مجھے بھی شر ف زیا رت عطا کیجیے ۔‘‘رات بھر بے قراررہے ،صبح مو اجہہ شریف میں رات کی کما ئی یو ںپیش کر نے لگے ۔
وہ سوئے لالہ زار پھر تے ہیں ٭تیرے دن اے بہا ر پھر تے ہیں
کو ئی کیو ں پو چھے تیر ی با ت رضا ٭تجھ سے کتے ہزار پھر تے ہیں
رات بھر دربار گو ہر بار میں حا ضری دی اور زیارت کی درخواست گزاری ،اسی شب جمال جہاں آراکی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈ ی کیں ،جب آپ کا قافلہ مدینہ طیبہ سے الوداع ہو نے لگا تو بے اختیار پکار اٹھے ۔
مشرف گرچہ شد جا می زلطفش ٭خدا یا ایں کرم بار دگر کن
(پکارو یا رسول اللہ ،ص۳۱)
غر ض فاضل بر یلو ی کی ذات کسی تعارف کا محتاج نہیں آپ کا عشق رسول جگ ظاہر ہے جس کی تو ثیق آپ کے بیان وعمل اور حدائق بخشش سے ہو تی ہے ،جہا ں آپ نے عشق کی بہا ریں اردو زبان وادب کی شاعری میں لٹا ئی ہیں اور اہل شعروادب سے دادوتحسین حا صل کیں وہیں آپ نے عر بی اور فارسی زبان وادب میں بھی خوب طبع آزمائی کیں اور اس زبان کو بھی آپ نے عشق رسول کی حرارت سے گر مایا ۔مو لانا مفتی ولی محمد رضوی اپنے ایک مقالہ میں لکھتے ہیں:’’اعلیٰ حضرت اپنے قلم سے احقاق حق وابطال با طل کا فر یضہ بحسن وخوبی انجام دیا ،فتح ونصرت کے پر چم گا ڑدیے ،عشق رسول کے چراغ کو فروزاں کیا ،رگ رگ میں عشق حبیب بسا یا اور اسی کی تعلیم دیتا رہا ۔خود فر مایا ’’اگر میر ے دل کے دو ٹکڑے کیے جا ئیں تو ایک پر لا الہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا ہو گا ۔‘‘ (الملفوظ ،ج ۳،ص۸۸)
انہو ں نے مختلف زبا نو ں میں خدا اور رسول کی حمد وثنا کی اور اپنے معا صر ین پر سبقت لے گئے ۔آئیے بطور نمو نہ فارسی زبان میں ان کے نعتیہ اشعار ملا حظہ کر یں اور دل ودماغ کو سر شار کر یں ۔
(۱)مصطفیٰ نور جناب امر کن ٭آفتاب برج علم من لدن
(۲)معدن اسرار علام الغیوب٭برزخ بحریں امکان وجوب
(۱)پیا رے مصطفیٰ ﷺ امر کن فر ما نے والی ذات با ری تعالیٰ کا آپ نورہیں، علم لدنی کے آپ برج آفتاب ہیں ۔
(۲)غیب جاننے والے خداکے رازوں کی آپ کان ہیں ،امکان و وجوب کے سمندرو ں کے آپ بر زخ ہیں ۔
۳۔بادشاہ عر شیا ں و فر شیاں ٭جلوہ گا آفتاب کن فکا ں
۴۔راحت دل قامت انبیائے او ٭از دو عالم والہ شیدائے او
۵۔جان اسماعیل بر رویش فدا٭از دعا گو یا ں خلیل مجتبیٰ
گشت مو سی دو طویٰ جو یا ن او٭ہسب عیسیٰ از ہوا خوہان او
(۳)عرش والو ں ،فرش والو ں کے آپ با دشاہ ہیں ،کن فکاں کے آفتاب کی آپ جلو ہ گاہ ہیں ۔
(۴)آپ کا قد مبا رک حسین وجمیل دل کی راحت ہے ،دو نوں جہاں والے اور خود اللہ آپ کو چا ہتا ہے ۔
(۵)حضرت اسما عیل علیہ السلام کی پیا ری جان آپ پر فدا ہے ،بز رگ خلیل علیہ السلام آپ کے لیے دعاکر تے ہیں ۔
(۶)مقام طویٰ میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام آپ کے طالب ہو ئے ،حضرت عیسیٰ علیہ السلام آپ کی چا ہت والے ہیں ۔
۷۔بند گا نش حورو غلما ں و ملک ٭چا کرانش سبز پو شاں فلک
۸۔مہر تا بان علوم لم یز ل ٭بحر مکنونات اسرار ازل
۹۔ذرہ زاں مہر بر مو سیٰ ومید ٭گفت من با شم بعلم اندرفر ید
(حدایق بخشش کا تحقیقی جائزہ ص:۵۲۲)
(۷)حوروغلماں جنتی اور فر شتے آپ کے غلام ہیں ،آسمان پر سبز پوش پہننے والے آپ کے خا دم ہیں ۔
(۸)لم یزل کے علوم کے چمکنے والے آفتاب ،اسرار ازل کے پو شید ہ خزانوں کے آپ سمندر ہیں ۔
(۹)اس آفتاب کا ذرہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام پر چمکا تو فر مانے لگے کہ میں علم یگا نہ ہو ں ۔
(سہ ما ہی سنی دعوت اسلامی ممبئی ،اکتوبر تا دسمبر ۲۰۰۶ء ص۴۳مضمون :مفتی ولی محمد رضوی)
فا ضل بر یلوی نے اردو شاعری کو عشق رسول کی ساری بہا ریں نذر کر دیں کہ جس کی مٹھا س وچا شنی سے اہل اردو صبح قیا مت تک اپنے آپ کو دور نہیں کر سکتے ۔اب آئیے !جناب منیر نظامی کی زبان میں فاضل بر یلو ی کے منتخب اشعار کا خلاصہ پیش کیے دیتے ہیں پڑھیئے اور عشق رسول میں شرابور ہوتے جا یئے لکھتے ہیں :عشق رسول اتنا قمتی سر مایہ ہے کہ اس کے بالمقابل جتنا بھی ثمن ہو وہ کمتر ہے یہ دولت جسے بھی مل جا تی ہے اس کی دنیا بھی سنورجا تی ہے اور عاقبت بھی،اسے ہر نوع کا آرام وسکون مل جاتاہے یہی الفت رسول اکسیر جان ہے جس سے اضطرابی کیفیت دور ہو جا تی ہے ۔ملا حظہ ہو ۔
خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا٭جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی
عشق مجا زی میں ایک محب اپنے محبوب کے اندر کوئی عیب دیکھنا یا سننا پسند نہیں کر تا بلکہ اگر محبوب کی ذات میں فی نفسہ کو ئی عیب بھی مو جود ہو تو وہ خو بی میں بدل جا یا کر تا ہے تو بھلا عشق حقیقی میں یہ با تیں کب رواہو ں گی ۔امام عشق ومحبت ارشاد فر ما تے ہیں ۔
وہ کما ل حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہا ں نہیں ٭یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
اور وہ بھی اس جناب میں جو با عث تخلیق عالم ہے جس کے دم سے دنیا کا وجود ہے جو بنا ئے کون ومکاں ہیں۔
غایت وعلت سبب بہر جہاں تم ہو سبب ٭تم سے بنا تم بناتم پہ کروڑوں درود
سر کا ر کی عظمت ورفعت اور شان وشوکت کا اندازہ لگا نا اہل فرش کی طاقت وقوت سے با ہر ہے ،سر کار کی حقیقت کی معرفت میں عقل حیران ہے ،سرکار دوعالم ﷺخود فر ما تے ہیں :اے ابو بکر! میر ی حقیقت کو میر ے رب کے سوا کسی نے نہیں جانا اس کی تر جمانی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کی ہے ۔
فرش والے تیری شوکت علوکیا جا نیں ٭خسرواعرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
عرش کی عقل دنگ ہے چر خ میں آسمان ہے٭جان مراد اب کدھر ہا ئے ترامکان هہے
عشق کا کمال اگر دیکھنا ہو تواعلیٰ حضرت کی ذات کا جائز ہ لو ایک عاشق صادق کی تمنا بلکہ اس کا ایمان یہ ہو تا ہے کہ اپنے محبوب کے تلوؤں سے لپٹ جا ئے غیر کا منہ نہ دیکھے یہی حسرت وتمناسر کار اعلیٰ حضرت کو بھی ہے ۔فر ماتے ہیں ۔
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں ٭کون نظروں پر چڑ ھے دیکھ کے تلوا تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال ٭جھڑ کیا ں کھا ئیں کہا ں چھوڑ کے صدقہ تیرا
مصطفیٰ جان رحمت جان ایمان ہیں ایمان کے اندر کمال بغیر محبت شہر یارارم کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے ایمان میں پختگی بغیر الفت تا جدار حرم کے کیسے آسکتی ہے ،اسی لیے تو فاضل بر یلوی علیہ الرحمہ کا عشق بول پڑا ۔
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ ٭ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتا تا ہے انہیں ٭ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ
جو دل محبت رسول سے خا لی ہو ،جو عظمت رسول کا قائل نہ ہو، جو جھو ٹی محبت کا دعویٰ کر تا ہو ،جو ذکر خدا بغیر ذکر حبیب کے کر نا چا ہتا ہو ایسوں کے لیے فر مایا ۔
ذکر خدا جو ان سے جدا چا ہو نجدیو٭ واللہ ذکر حق نہیں کنجی سقر کی ہے
نور الہ کیا ہے محبت رسول کی ٭جس دل میں یہ نہ ہو وہ جگہ خوک وخر کی ہے
ہر عضو کا کوئی نہ کوئی کام ہے مثلاً آنکھ کا کام دیکھنا ،کان کا کام سننا ،ناک کاکام سو نگھنا وغیرہ دل اور سر بھی الگ الگ دو عضو ہیں ان کا کام اہل عشق ومحبت کے نزدیک کیا ہے سر کار اعلیٰ حضرت سے سنیے ۔
دل ہے وہ دل جو تیری یاد سے معمور رہا ٭سر ہے وہ سر جو تیرے قدموں پہ قر بان گیا
سر کار کے عشق میں دل کی وارفتگی اور کیفیت ملا حظہ ہو ۔
ارے اے خدا کے بندو کو ئی میر ے دل کو ڈھونڈو ٭میر ے پاس تھا ابھی تو ابھی کیا ہو ا خدایا
نہ کو ئی گیا نہ آیا
ہمیں اے رضا تیر ے دل کا پتہ چلا بمشکل ٭در روضہ کے مقا بل وہ ہمیں نظر تو آیا
یہ نہ پو چھ کیسا پا یا
بلکہ سر کا رکی محبت میں سر کار کے شہر مقدس سے بے پناہ عشق ومحبت کا اظہار یو ں فر ما تے ہیں ۔
لے رضا سب چلے مد ینے کو ٭میں نہ جا ئو ں ارے خدا نہ کرے
آگے چل کر عالم بے خو دی میں فر ما تے ہیں ۔
جان ودل ہوش خرد سب تو مدینے پہنچے ٭تم نہیں چلتے رضا سارا تو سامان گیا
اور پھر یہ بے قراری ایسی بڑ ھی کہ بڑ ھتی چلی گئی اور صبر کی تمنا بھی نہیں کر تے بلکہ ارشاد فر ماتے ہیں ۔
سنگ در حضور سے ہم کو خدا نہ صبر دے ٭جانا ہے سر کو جا چکے دل کو قرارآئے کیوں
سر کار کی گلی سے جا نے کو بے عقلی کی دلیل بتا تے ہیں ملا حظہ ہو ۔
پھر کے گلی گلی تبا ہ ٹھو کر یں سب کی کھا ئے کیوں ٭دل کو جو عقل دے خدا تیر ی گلی سے جا ئے کیوں
سر کار کی رحمت ورفعت اور نظر کر م دیکھ کر دل نے آواز دی ۔
اب تو نہ روک اے غنی عادت سگ بگڑ گئی ٭میرے کریم پہلے ہی لقمۂ ترکھلا ئے کیو ں
شہر محبوب اور سر زمین مقدس کی قدر ومنزلت اور ادب واحترام کا طر یقہ سر کار اعلیٰ حضرت کی ذات سے سکھیئے ۔
حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ٭ارے سر کا مو قع ہے او جانے والے
او!مد ینے کے مسا فر غفلت سے بازآ۔
ہا ں ہاں رہ مد ینہ ہے غا فل ذراتو جاگ ٭اوپا ئوں رکھنے والے یہ جا چشم وسر کی ہے
مکہ اور مد ینہ کی افضلیت میں بحث چھڑ گئی عقل نے کہا مکہ پر خا نہ خدا ٓباد ہے فضیلت اس کو حا صل ہو نے چا ہیے ۔عشق نے آواز دی مد ینہ پر رو ضئہ رسول ہے عظمت وبزرگی اس کو ملنی چا ہیے ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فیصلہ فر ماتے ہیں ۔
طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد ٭ہم عشق کے بندے ہیں کیو ں بات بڑ ھا ئی ہے
اسی عشق کی بدولت تو جہنم سے چھٹکارا ملے گا ۔
اے عشق تیر ے صدقے جلنے سے چھٹے سستے ٭جو آگ بجھا دے وہ آگ لگائی ہے
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کر ے خدا ٭جس کو ہو درد کا مزہ نا ز دوا اٹھا ئے کیوں
روضہ رسول کی زیارت کے بعد کی کیفیت بھی دید نی ہے ۔
پیش نظر وہ نو بہار سجدے کو دل ہے بے قرار ٭روکیے سر کو روکیے ہا ں یہی امتحان ہے
عشاق روضہ سجد ہ میں سوئے حرم جھکے٭اللہ جا نتا ہے کہ نیت کدھر کی ہے
سر کار آپ کی غلامی میری زندگی کی معراج ہے ،تو ہی میرا ما ویٰ اور ملجا ہے ،تو میر اآقا میں تیرا غلام ،آقا کو تصرف کا اختیار ہے چا ہے تو رکھے یا اپنے درسے نکال دے مگر یا رسول اللہ !تیرا غلام بننا پسند ہے ۔
اگر رانی وگر خوانی غلامم انت سلطانی ٭دگر چیز ے نمی دانم اغثنی یا رسول اللہ
ندارم جز تو ملجا ئے ندانم جز تو ما وائے٭تو ئی خود ساز وساما نم اغثنی یا رسول اللہ
غلام مصطفیٰ کا پٹا گلے میں ڈالنے کا فا ئدہ بھی ملا حظہ ہو ۔
خوف نہ رکھ رضا ذرا توتو ہے عبد مصطفیٰ ٭تیرے لیے امان ہے تیر ے لیے امان ہے
سر کار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی زیست کا مقصد بھی ملا حظہ کیجیے ۔
دہن میں زباں تمہا رے لیے بدن میں ہے جاں تمہا رے لیے ٭ہم آئے یہا ں تمہا رے لیے اٹھیں بھی تمہا رے لیے
صبا وہ چلے کہ باغ پھلے وہ پھول کھلے کہ دن ہو بھلے٭لوا کے تلے ثنا میں کھلے رضا کی زباں تمہا رے لیے
ثنا ے سر کار ہے وظیفہ قبول سر کا ر ہے تمنا ٭نہ شاعری کی ہوس نہ پر واروی تھی کیا کیسے قافیے تھے
(ما ہنا مہ اعلیٰ حضرت بر یلی شر یف ،جنوری ۲۰۰۱ء ص۶۸؍۷۱مضمون :محمد منیر نظامی)
آپ یقینا سچے عاشق رسول تھے آپ کی زند گی کا ایک ایک لمحہ عشق نبو ی سے سر شار تھا آپ کا سینہ تو عشق رسول کا گنجینہ تھا ایک مو قع سے آپ فر ماتے ہیں ۔بحمد اللہ ! اگر قلب کے دو ٹکڑ ے کیے جا ئیں تو خدا کی قسم ایک پر لا الہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد ر سول اللہ ہوگا۔
آپ کی محبت رسول ضر ب المثل ہے
حضور صلوٰ ۃ اللہ علیہ وسلم کی محبت مغز قرآں ،روح ایماں ،جان دیں ہے ،اور اگر اس محبت کی گر می نہ ہو تو عقائد و افکار بے معنی ہو تے ہیں ،اعمال وافعال کیف وسرورسے تہی لگتے ہیں ۔حضرت امام ربانی مجد الف ثا نی قدس سر ہ کے نز دیک اس محبت کی کیا اہمیت ہے ۔ملا حظہ کیجیے :’’ایک وقت درویشوں کی جماعت بیٹھی تھی ،اس فقیر نے اپنی محبت کی بنا ء پرجو آں سر و ر ﷺ کے غلامو ں سے ہے ان سے اس طرح کہا کہ آں سرور ﷺ کی محبت اس طور پر مسلط ہو ئی کہ حق سبحانہ کو اس واسطے سے دوست رکھتا ہو ں کہ وہ محمد ﷺکا رب ہے حا ضر ین اس بات سے حیرت میں پڑ گئے لیکن مخا لفت کی مجا ل نہ تھی ۔یہ بات حضرت رابعہ بصری علیہا الر حمہ کی اس بات سے خلا ف ہے جو انہو ں نے آں سرور ﷺ کے جواب میں کہی تھی کہ حق تعالیٰ کی محبت اس طور پر مسلط ہو گئی ہے کہ آپ کی محبت کے لیے جگہ با قی نہیں رہی ۔یہ دو نو ں با تیں اگر چہ سکر کی خبر دیتی ہیں لیکن میر ی بات اصلیت رکھتی ہے ،انہو ں نے عین سکر میں یہ بات کہی اور میں نے ابتدا ئے صحو میں۔ان کی بات مر تبہ صفات میں ہے اور میر ی بات مر تبہ ذات سے رجوع کے بعد کی ہے ۔‘‘
اعلیٰ حضرت بر یلوی علیہ الر حمہ کی محبت رسول ﷺ بھی ضر ب المثل ہے ۔آپ کی زبان وقلم سے جتنے حرف نکلے ،تمام کے دامن سے محبت شہ والا ﷺ کے سوتے پھو ٹتے ہیں ۔اور جب عالم فا نی سے رخصت ہو ئے اپنے علم و عمل پر کوئی ناز نہیں تھا ،ناز تھا تو بس محبت رسول ﷺ پر ۔
لحد میں عشق رخ شہ کا داغ لے کے چلے ٭اند ھیر رات سنی تھی چراغ لے کے چلے
آپ نے ایک جگہ قر آن و حد یث کا نچوڑ بیان کیا ہے :’’عبا دت ان کی کفر ،اور بے ان کی تعظیم حبط (بر با د ،نا قابل اعتبار ،منہ پر ما ردیے جا نے کے قابل )ایمان ان کی بھی یہی درس دیا کہ جو شخص لاالہ الا اللہ پر ایمان کا دعویٰ رکھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ما نے وہ ایسے ہی تو حید کی گو اہی دیتا ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو نہ بھیجا ،وہ ہر گز اللہ نہیں ۔اللہ یقینا وہ ہے جس نے محمد رسول اللہ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ۔ (ملفوظات ،ج ۲،ص ۲۰۴ )
گو یا وہی مجد د پا ک والی بات کہ اللہ تعالیٰ کو اس لیے ما نو اور دوست رکھو کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کا پر وردگار ہے ۔محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف بلا یا ہے ،یعنی تو حید کو رسالت ونبوت کے حوالے سے سیکھو ،جو تو حید رسالت ونبوت کے بغیر ما نی جا ئے وہ قابل قبول نہیں جیسا کہ ابلیس کا جذ بۂ تو حید رد ہوا ۔ (مجد د الف ثا نی اور امام احمد رضا بر یلوی ،ص ۱۵۹)
اعلیٰ حضرت بر یلوی علیہ الر حمہ نے بھی محبوب مکرم شفیع معظم ﷺ کے ذکر سے اپنی روح وضمیر کی دنیا کو شاد آباد رکھا ۔
فر ماتے ہیں۔
خا ک ہو جا ئیں عدو جل کر مگر ہم تو رضا
دم میں جب تک دم ہے ذکر ان کا سنا تے جا ئیں گے
حی و با قی جن کی کر تا ہے ثنا
مر تے دم تک ان کی مد حت کیجیے
ذکر ان کا چھیڑ یے ہر با ت میں
چھیڑ نا شیطاں کا عادت کیجیے
مثل فارس زلز لے ہو ں نجد میں
ذکر آیا ت ولادت کیجیے
کیجیے چر چا انہیں کا صبح وشام
جان کا فر پر قیا مت کیجیے
غیظ میں جل جا ئیں بے دینوں کے دل
یا رسول اللہ کی کثرت کیجیے
جو نہ بھو لا ہم غریبو ں کو رضا
یا د اس کی اپنی عادت کیجیے
(جاری)
شیر مہاراشٹر مفتی محمد علاؤ الدین قادری رضوی
صدر افتا:محکمہ شرعیہ سنی دارالافتا والقضا ، میرا روڈ ممبئی