میلاد کا اثبات قرآن وحدیث کی روشنی میں
جشن میلاد النبی صلى الله عليه وسلم منانا حضور خیر الانام وعلی آلہ افضل السلام کی ولادت باسعادت کی خوشی میں مسرت وشادمانی کا اظہار ہے۔ اور یہ مبارک عمل قرآنی آیات و احادیث نبویہ اور افعال صحابہ وسلف الصالحین سے ثابت ہے۔ اور شرع میں اس سے منع مفقود اور بے منع شرع مردود’’ ان الحکم الا اللہ وانما الحرام ما حرم اللہ وما سکت عنہ فعفو من اللہ‘‘ یہ ایک اصولی قاعدہ ہے اور ہر چیز میں اصل اباحت ہے کہ’’ الاصل فی الاشیائ الاباحۃ‘‘ اور علمائے کرام میلاد کے استحسان پر عبد اللہ بن مسعود ؓ کی حدیث موقوف سے قاعدہ بیان کرتے ہیں کہ’’ ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللہ حسن وما رآہ المسلمون قبیحا فہو عند اللہ قبیح‘‘ یعنی: جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھے وہ خدا کے یہاں اچھا ہے اور جسے مسلمان برا سمجھے وہ خدا کے یہاں برا ہے۔اور امام شافعی ؓ نے فرمایا ’’ما احدث وخالف کتابااو سنۃ او اجماعا او اثرا فہو البدعۃ الضالۃ وما احدث من الخیر فلم یخالف شیئا من ذلک فہو محمود ‘‘ یعنی: جو نئی چیز کتاب، سنت، اجماع یا اثر کے خلاف ہو وہ بدعت ضلالہ ہے اور جس نئی چیز میں خیر ہو اور وہ ان میں سے کسے کے خلاف نہ ہو ہو محمود ہے۔
اور اس دنیا کا اصول بھی ہے’’ جس کا کھانا اسی کا گانا‘‘ تو جس کے صدقے میں ہم وجود میں آئے، جس کی آخری سانس میں رب ہب لامتی کی صدا ہو، جس کی راتوں کی عبادت میںامت کی مغفرت کی طلب ہو، جس کے دل میں ہمیشہ امت کے درد ہووو، جس کی خوشی امت کی خوشی میں فنا ہو ،شب معراج کو براق سوار ہو کر جو یہ سوچے کہ میری امت کل پل صراط کو کیسے عبور کریگی، جس کی خواہش امت کو جہنم سے چھٹکارا دلانا ہو اور جو تونگری پر غربت کو ترجیح دے تو ایسے غم خوار کی یاد میں ہم اپنے زبان کو تر کیوںنہ کرے؟
میلاد النبی صلى الله عليه وسلم کا اہم مقصد محبت و قرب رسول اللہ کا حصول و فروغ اور آپ کی ذات گرامی سے مسلمانوں کے تعلق کا احیائ ہے۔ اور یہ احیائ منشأ شریعت ہے۔ چونکہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس امت مسلمہ کے ایمان کا مرکز ومحور اور حقیقی اساس ہے۔امت مسلمہ کی بقا وسلامتی اور ترقی کا راز ہی اس امر پر منحصر ہے کہ وہ فقط ذات مصطفی صلى الله عليه وسلم کو اپنی جملہ عقیدتوں ، محبتوںاور تمنائوں کا مرکز و محور گردانے اور یہ بات قطعی طور یہ جان لے کہ آپ کی نسبت کے استحکام اور واسطہ کے بغیر دنیا و آخرت میں کوئی عزت و سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی ہے۔
میلاد النبی کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے جلال الدین رقمطراز ہیں: ان اصل المولد ھو اجتماع الناس وقرائ ۃ ما تیسر من القرآن ورایۃ الاخبار الواردۃ فی مبدئ امر النبی وما وقع فی مولدہ من الٲیات ثم یمد لھم سماط یاکلونہ وینصرفون من غیر زیادۃ علی ذالک من البدع الحسنۃ التی یثاب علیھا صاحبھا لما فیہ من تعظیم قدر النبی واظھارالفرح والاستبشار بمولدہ الشریف صلى الله عليه وسلم (حسن المقصد فی عمل المولد ) یعنی: محفل میلاد کی اصل یہ ہے کہ لوگ اکٹھے ہو کر تلاوت قرآن کریں اور ان احادیث کو بیان کریں اور سنیں جن میں آپ کی ولادت مبارکہ کا تذکرہ ہے اور پھر شیرینی تقسیم کی جائے۔ یہ اچھے اعمال ہیں، ان پر اجر ہے کیوں کہ اس میں رسالت مآب ö کی قدر ومنزلت اور آپ کی امد پر اظہار خوشی ہے ۔
اسی طرح اعلیحضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ کے والد گرامی مولانا نقی علی خان بریلوی ؒ تحریر فرماتے ہیں:محفل میلاد کی حقیقت یہ ہے کہ خلوص عقیدت ومحبت حضرت رسالت مآب علیہ الصلوۃ والتحیۃ کی ولادت اقدس کی خوشی اور اس نعمت عظمی اعظم نعم الہیہ کے شکر میں ذکرشریف کے لئے مجلس منعقد کریں اور حالات ولادت باسعادت ورضاعت وکیفیت نزول وحی وحصول مرتبئہ رسالت واحوال معراج وہجرت وارہاصات ومعجزات واخلاق وعادات آنحضرت صلى الله عليه وسلم اور حضور کی بڑائی اور عظمت جو خدا تعالی نے عنایت فرمائی اور حضور کی تعظیم وتوقیر کی تاکید اور وہ خاص معاملات وفضائل وکمالات جن سے اللہ عز وجل نے اپنے حبیب صلى الله عليه وسلم کو مخصوص اور تمام مخلوق سے ممتاز فرمایا اور اسی قسم کے حالات وواقعات واحادیث وآثار صحابہ کتب معتبرہ سے مجمع میں بیان کئے جائیں اور بعد ازاں شیرینی تقسیم کریں یہ سب امور مستحن ومہذب ہے اور انکی خوبی دلائل قاطعہ وبراہن ساطعہ سے ثابت ہے ۔
میلاد کے جواز پر اعلان کرتے ہوئے خدانے ارشاد فرمایا ’’قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا‘‘ اس آیت خدانے رحمت پر خوشی منانے کا حکم دیاہے اور نبی کریم تو عظیم ترین رحمت ہے ارشاد باری تعالی ہے ’’وماأرسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ میلاد کا جشن محض خلق خدا نہیں بلکہ خود اللہ رب العزت نے بھی منایا ہے۔
خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا میلاد منایا حضرت عرباض بن ساریہ ؓ نے فرمایا ’’ انی عند اللہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ وسأخبرکم باول أمری دعوۃ ابرھیم وبشرۃ عیسی ورؤیاي امی التی رأت حین وضعتنی وقد خرج لھا نورا أضائ لھا منہ قصورا فی الشام‘‘ یعنی: بیشک میں اللہ کے نزدیک اس وقت بھی خاتم النبیین لکھا ہوا تھا جب آدم علیہ السلام مٹی کے خمیر میں تھے اور میں تم کو خبر دیتا ہوں اپنے اول امر کی، وہ دعائے سیدنا ابراہیم اور عیسی علیہما السلام کی بشارت ہے، اور میں اپنی کا وہ رویت ہوا جو انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلااور ملک شام کے محلات پر چمکنے لگا۔
امام حاکم وطبرانی وامام حلبی روایت فرماتے ہیں۔ غزوہ تبوک سے واپسی پر آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آپ نے کی نعت سنانے کی عرض کی تو آپ نے فرمایا’’ لا یفضض اللہ فاک‘‘ یعنی :اللہ تعالی تمہارے منہ کو سلامت رکھے اس قصیدے میں انہوں نے میلاد شریف کا ذکر بھی فرمایا مطلب: اور آپ جب پیدا ہوئے تو زمین روشن ہوگئی اور آپ کے نور سے اطراف عالم روشن ہوگئے اور ہم اسی روشنی ونور میں ہیں اور ہدایت کے راستے طے کررہے ہیں۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوشنبہ کے روزے کے سلسلے میں پوچھاگیاتو آپ نے ارشاد فرمایا’’ فیہ ولدت وفید انزل علی‘‘ یعنی: میں اسی روز پیدا ہوا اور اسی روز مجھ پر وحی نازل کی گئی۔ یہ تمام اعمال میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرادف ہیں۔ اگرچہ صورت مختلف ہے لیکن مقصود ومفہوم ایک ہی ہے۔
کعب بن احبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہے کہ’’ نجد مکتوما محمد رسول اللہ صلی اللہ عنہ عبدی المختار لا فظ ولا غلیظ ولا سخاب فی الاسوق ولا یجزی بالسیئۃ السیئۃ ولکن یعفو ویغفر مولدہ بمکۃ وہجرتہ بطیبۃ وملکہ بالشام‘‘ مطلب: ایک صحابی جن کا نام کعب بن احبار رضی اللہ عنہ ہے یہ اسلام لانے سے قبل یہودی تھے۔ ان کے مسلمان ہونے کے بعد صحابہ کرام ان کے پاس تشریف لے جاتے اور کہتے تھے کہ ہمیں توریت کی وہ آیتیں سنائو جن میں آقادوجہاں کی ولادت کا تذکرہ اللہ عز وجل نے فرمایا ہے تو حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ صحابہ کرام کو اپنے گھر میں بٹھاکر توریت کھول کر وہ آیات کریمہ سنایا کرتے جن میں اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان فرمائی ہے۔ صحابہ کرام جب اللہ کے پیارے حبیب صلى الله عليه وسلم کا میلاد شریف سنتے تو اللہ کی حمد وثنا اور حضور نبی اکرم صلى الله عليه وسلم پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کرنے لگتے (مشکوۃ،باب فضائل سید المرسلین)
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فائدہ کو بیان کرتے ہوئے امام بخاری اور حافظ ابن حجر عسقلانی اپنے مایاناز کتاب ’’فتح الباری‘‘ میں امام سہیلی کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں’’ ان العباس رضی اللہ عنہ قال لما مات ابو لہب رایتہ فی منامی بعد حول فی شر حال، فقال: ما لقیت بعدکم راحۃ الا ان العذاب یخفف عنی کل یوم اثنین قال: وذلک ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولد یوم الاثنین وکانت ثویبۃ بشرت ابا لہب بمولدہ فاعتقہا‘‘(فتح الباری،۹۵۴۱) یعنی: عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں: ابو لہب مرگیا تو میں نے اسے ایک سال بعد خواب میں بہت برے حال میں دیکھا اور یہ کہتے ہوئے پایا کہ تمہاری جدائی کے بعد آرام نصیب نہیں ہوا بلکہ سخت عذاب میں گرفتار ہوں، لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے اور یہ اس وجہ سے ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ پیر کے دن ہوئی تھی اور جب ثویبہ نے اس روز ابو لہب کو آپ کی ولادت کی خبر دی تو اس نے ثویبہ کو آزاد کردیاتھا۔
اس حدیث کی شرح میں حافظ شمس الدین محمد بن عبد اللہ جزری اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف ‘‘میں لکھتے ہیں :فاذا کان ابو لہب الکافر الذی نزل القرآن بذمہ جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ، فما حال المسلم الموحد من امۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم یسر بمولدہ وبذل ما تصل الیہ قدرتہ فی محبتہ صلی اللہ علیہ وسلم لعمری انما یکون جزائ ہ من اللہ الکریم ان یدخلہ بفضلہ جنات النعیم‘‘۔ ترجمہ: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اجر میں اس ابو لہب کے عذاب میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے تو امت محمدیہ کے اس مسلمان کو ملنے والے اجر وثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی مناتاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت وعشق میں حسب استطاعت خرچ کرتا ہے ۔ خدا کی قسم میرے نزدیک اللہ تعالی ایسے مسلمان کو اپنے حبیب مکرم کی خوشی منانے کے طفیل اپنے نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا۔
اور حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی اپنی معرکۃ الآرائ تصنیف’’ مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں نظم میں فرماتے ہیں یعنی :جب ابولہب جیسے کافر کیلئے جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں اس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر پیر کو اس کے عذاب میں تخفیف کردی جاتی ہے، تو اس شخص کے بارے میںتیرا کیا خیال ہے جس نے اپنی ساری عمر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی خوشی منائی اور توحید پر فوت ہوا۔
اور شیخ عبد الحق دہلوی اسی روایت کا تذکرہ کرنے کے بعد’’ مدارج النبوۃ ‘‘میں رقم طراز ہےں’’ در اینجا سند است مر اھل موالید راکہ درشب میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سرور کنند وبذل اموال نمایند یعنی ابو لہب کہ کافر بود ،وقرآن بمذمت وے نازل شدہ ،چوں بسرور میلاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جزا دادہ شد تا حال مسلمان کہ مملو ست بمحبت وسرور وبذل مال در وے چہ باشد ولیکن باید کہ از بدعتہا کہ عوام احداث کردہ انداز تغنی وآلات محرمہ ومنکرات خالی باشد تا موجب حرمان از طریقہ اتباع نگردد‘‘یعنی: یہ روایت میلاد کے موقع پر خوشی منانے اور مال صدقہ کرنے والوں کیلئے دلیل اور سند ہے۔ ابو لہب جس کی مذمت میں ایک مکمل قرآنی سورت نازل ہوئی جب وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کرکے عذاب میں تخفیف حاصل کرلیتا ہے تو اس مسلمان کا خوش نصیبی کا عالم کیا ہوگا جو اپنے دل میں موجزن محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ولادت مصطفی صلى الله عليه وسلم کے دن مسرت اور عقیدت کا اظہار کرے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بدعت سے پاک ہو جنہیں عوام الناس نے گھڑ لیاہے۔ جیسے موسیقی اور حرام آلات اور اسی طرح کے دیگر ممنوعات تاکہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے محرومی کا باعث نہ بنے۔
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ابو لہب کے عذاب میں تخفیف محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز واکرام کی وجہ سے ہوئی۔ جیسے کہ ابو طالب کے عذاب میں تخفیف ہوئی ۔ ثوبیہ کو آزاد کرنا باعث تخفیف عذاب نہیں بلکہ یہ محض تعظیم واحترام رسول ہے ورنہ اعمال کفار کے بارے میں ارشاد باری تعالی ہے ’’وحبط ما صنعوا فیہا وباطل ما کانوا یصنعون‘‘(ھود) ۔
میلاد کے موقع پر قیام کا مسئلہ عادی ہے دینی نہیں۔ یہ نہ عبادت ہے اور نہ ہی شریعت اور کوئی سنت بس لوگوں کی عادت ہے اور رواج چل پڑا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے مستحسن سمجھا۔ میلاد النبی پر ایک کتاب کے مئولف شیخ برزنجی نے خود لکھا ہے ’’وقد استحسن القیام عند ذکر مولدہ الشریف ائمۃذو روایۃ ودرایۃ فطوبی لمن کا ن لتعظیمہ صلی اللہ علیہ وسلم غایۃ مرامہ ومرماہ‘‘ یعنی: آپ کے ذکر میلاد کے وقت قیام کو رویات ودرایت ائمئہ کرام نے مستحسن جانا ،بشارت ہے اس مسلمان کیلئے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی جس کے مطلوب ومقصود کی انتہائ ہو۔ اور نظم میں انہوں نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اہل علم وفضل وتقوی نے دقت نظر اور حسن توجہ کے ساتھ قیام کا طریقہ جاری کیا۔ ذات مصطفی کے تصور کےلئے جو حاضربلکہ قریب ہیں جہاں بھی انہوں نے یاد کیا۔ امام نووی نے اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی اور علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب مسمی بہ ’’رفع الملام عن القائل باستحسان القیام من اہل الفضل‘‘ میں امام نووی کی تائید کی۔ اور ابن الحاج جنہوں نے امام نووی کا رد کیا تھا جو ان کی تردید کی۔
اسی طرح ایک متفق علیہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’ قوموا الی سیدکم‘‘ یہ قیام سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی تعظیم کیلئے تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی شہزادی فاطمۃ الزہرائ رضی اللہ عنہا کیلئے کھڑے ہوجاتے اور جب فاطمہ نے اسی طرز قیام سے حضور کی تعظیم کی تو حضور نے انہیں منع نہیں فرمایا۔ یہ تمام اقوال واحادیث قیام کے مستحسن ہونے پر دلیل ہے۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو محفل میلاد کے انعقاد کی توفیق ورفیق عطا فرمائے اور حضور کی محبت کی دولت سے مالا مال فرمائے۔آمین بجاہ سید المرسلین۔
میلاد کے جواز اور مستحسن ہونے پر علمائے کرام نے بیشمار کتاب تصنیف فرمائی یہاں پر انشائ اللہ چند مایہئ ناز کتب کے ذکر پر اکتفا کریں گے ۔
٭حافظ محمد بن ابو بکر بن عبد اللہ قیسی دمشقی شافعی معروف بہ ابن ناصر الدین دمشقی کی معرکۃالارائ تصنیف ’’جامع الآثار فی مولد النبی المختار‘‘ جو تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ۔اور’’ اللفظ الرائق فی مولد خیر الخلائق‘‘ اور ’’مورد الصادی فی مولد الہادی ‘‘ جو مختصر ہے ۔
٭حافظ عبد الرحیم بن حسین بن عبد الرحمن مصری معروف بہ حافظ عراقی کی معرکۃ الآرائ کتاب’’ المورد الہنی فی مولد السنی‘‘ تحریر فر ما ئی جس سے بہت سارے حفاظ نے اپنی تالیفات میں ذکر کئے ۔
٭حافظ مجتہد امام ملا علی قاری بن علی بن سلطان محمد ہروی جن کے بارے میں علمائے کرام کہتے ہیں کہ وہ مجتہد اور محدث ہیں ۔ان کی میلاد پر مایاناز کتاب’’ المورد الروی فی مولد النبوی‘‘ ہے ۔
٭حافظ شہاب الدین احمد بن حجر الہیتمی کی شہر ہ آفاق کتاب’’ النعمت الکبری علی العالم فی مولود سید ولد آدم ‘‘ہے ۔
٭حافظ جلال الدین سیوطی کی میلاد النبی پر معرکۃ الآرائ تصنیف ’’حسن المقصد فی عمل المولد‘‘ہے۔
٭ حافظ شمس الدین محمد بن الجزری الشافعی کی مشہور ومعروف کتاب ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ ہے۔
٭ حافظ ناصر الدین بن شمس الدین الدمشقی کی معروف کتاب ’’عودۃ الصاجی فی مولد الہادی‘‘ ہے۔