اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں (۵)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺسے ایک ایسی دعا کی درخواست کی جو میں نماز میں کرسکوں تو اللہ کے رسولﷺنے یہ دعا تعلیم فرمائی۔اللھم إنی ظلمت نفسی ظلما کثیرا ولایغفرالذنوب الا أنت فأغفرلی مغفرۃ من عندک وأرحمنی إنک أنت الغفور الرّحیم۔اے اللہ میں نے خود پر بہت ظلم کیا ہے اور میرے گناہوں کو تیرے علاوہ اور کوئی معاف نہیں کرسکتا لہذا تو اپنے فضل وکرم سے میرے گناہوں کی مغفرت فرما اور مجھ پر رحم کر بے شک تو مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺفرماتے ہیں بندہ سجدے کی حالت میں اللہ سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے لہذاسجدے میں سب سے زیادہ دعا کرنی چاہیے۔نماز میں سجدے کے علاوہ تشہد اور درود کے بعد بھی دعا کی جاتی ہے۔حدیث کے مطابق عین سجدے کی حالت میں دعاکرنا زیادہ بہتر ہے لیکن سجدے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے جو دعا کی جاتی ہے وہ بھی قریب قریب اسی معنی میں شامل ہے۔لہذا اس وقت بھی جو دعا کی جائے گی اس پر ایک طرح سے سجدے میں دعا کرنے کا اطلاق ہوگا اور وہ اس طرح کہ سجدے کے بعد تشہد پھر درود اور پھر فورًا دعا کی جاتی ہے۔ان سب کے بیچ میں کوئی فاصلہ نہیں ہے جو ان سب چیزوں کو ایک دوسرے سے بالکل جداکرے لہذا سلام سے پہلے کی جانے والی دعا پر بھی مجازا سجدے میں دعا کرنے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔
آج جو دعا ہمارا موضوع بحث ہے وہ کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔پہلی وجہ تو یہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود ایک دعا کی درخواست کی جو وہ نماز میں پڑھ سکیں دوسرے یہ کہ یہ دعا خود اللہ کے رسول ﷺنے تعلیم فرمائی اور تیسری یہ کہ یہ دعا عین نماز کی حالت میں پڑھی جاتی ہے۔دعا کا آغاز ’اللھم‘ سے ہوتا ہے جس کا معنی ہے اے اللہ!۔اللہ کو مخاطب کرنے سے انسان خود کو اس کے اور قریب پاتا ہے۔مخاطب کرنے کا یہ طریقہ انسان کے اندر ایک خوداعتمادی پیداکرتا ہے کہ وہ بلاواسطہ اللہ کو مخاطب کرسکتا ہے۔اللہ کو اس طرح مخاطب کرنے سے بندے کے اندر یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ہر حال میں اس کی مناجات سن رہا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی دعا کا جواب دے سکتا ہے۔اللہ کو مخاطب کرتے وقت عقل اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ بندہ اس وقت کسی اور چیز میں مشغول نہ ہو بلکہ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اللہ کے سامنے دست دعا دراز کرے۔
دعا کی ابتدا اس اعتراف سے ہوتی ہے کہ اے خدامیں نے خود پر بہت ظلم کیا ہے۔تقصیر کا اعتراف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے بندہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے۔اعتراف گناہ دراصل توبہ کا بالکل ابتدائی مرحلہ ہے۔انسان کو جب تک یہ احساس نہیں ہوگا کہ مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے اور میں نے اللہ کی نافرمانی کی ہے اس وقت تک وہ توبہ کی طرف مائل نہیں ہوگا۔اللہ کی نافرمانی خود پر ظلم کرنا ہے۔قرآن اور حدیث میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ کون سے اعمال و افعال اللہ کی اطاعت کے زمرے میں آتے ہیں اور کون سے اس کی نافرمانی کے زمرے میں۔ساتھ ہی اللہ کی اطاعت کرنے والوں کے لیے ثواب اور اس کی نافرمانی کرنے والوں کے لیے عذاب کا بھی ذکر ہے۔اتنی وضاحت ہونے کے باوجود اگر کوئی بندہ گناہ کرتا ہے یا اللہ کی اطاعت سے نکل جاتا ہے تو اسے خود پر ظلم کرنا ہی کہا جائے گا کہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے مرنے کے بعد اس کے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا وہ ایسا کام کرتا ہے۔اللہ کے رسولﷺنے اسی لیے معصیت کو ظلم سے تعبیر کیا۔ہر انسان خطا اور تقصیر کا مجاز ہے لہذا سب کو اللہ کی بارگاہ میں اپنی تقصیر کا اعتراف کرنا چاہیے۔امام حجر العسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں ”اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی انسان گرچہ وہ صدیق ہی کیوں نہ ہو تقصیر سے خالی نہیں ہے“۔
اعتراف تقصیر کے بعد اللہ کی ایک خصوصیت کاذکر ہے اور وہ ہے گناہوں کو معاف کرنا۔ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی گناہ معاف کرنے کا حق نہیں رکھتا۔اور اللہ اپنے کرم سے بہت سے گناہوں سے درگزر فرمادیتا ہے۔بندہ جب کہتا ہے کہ تو ہی گناہوں کو معاف کرتا ہے تو وہ اللہ پر اعتماد کررہا ہوتا ہے اور اس یقین کا اظہار کرتا ہے جو اللہ کے تئیں اس کے دل میں ہے کہ گناہ ہونے کے بعد وہ کہیں اور نہیں جاتا بلکہ اسی کی بارگاہ میں واپس آتا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اللہ ہی اس کے گناہوں کو بخش سکتا ہے۔دعا کے اگلے حصے میں مغفرت کا سوال ہے۔دعا کے لیے ’فاغفرلی‘ یعنی میری مغفرت فرما کا لفظ کافی تھا مگر آگے’مغفرۃ من عندک‘یعنی اپنی طرف سے کہہ کر دعا کی معنویت میں اور اضافہ کردیا گیا ہے۔
علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ جوآٹھویں صدی ہجری کے محدث ہیں لکھتے ہیں کہ’مغفرۃ من عندک‘ میں ایسی مغفرت کا سوال ہے جو بہت ہی عظیم ہے اور جس کی حقیقت تک پہنچنا مشکل ہے کیوں کہ یہاں اللہ سے سوال کیا جارہا ہے کہ تو میری خطاؤں پر نظر مت کر بلکہ اپنی شان کے لائق میری مغفرت فرما تو ایسی مغفرت یقینا بہت ہی عظیم الشان ہوگی۔ابن دقیق العید رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ اس میں دو احتمال ہوسکتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اس میں توحید کی طرف اشارہ ملتا ہے اور وہ اس طرح کہ بندہ کہہ رہا ہے کہ اے اللہ مغفرت کا حق صرف تیرا ہے لہذا میری مغفرت فرمااور دوسرا معنی جو زیادہ بہتر ہے یہ ہوسکتا ہے کہ یہاں ایسی مغفرت کا سوال کیا جارہا ہے جو محض اللہ کے فضل و کرم سے ہوتا ہے نہ کہ بندے کے کسی نیک عمل سے۔بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے اور اس کے بعد کوئی نیک کام کرتا ہے تو وہ نیک کام پچھلے گناہ کو مٹا دیتا ہے۔اس میں تفصیل ہے کہ کون سا گناہ نیک عمل سے مٹ جاتا ہے اور کون سا نہیں لیکن یہاں یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔بہرحال یہاں ایسی مغفرت مراد نہیں جو کسی نیک عمل کی وجہ سے ہو بلکہ ایسی مغفرت مراد ہے جو محض اللہ کی عطا سے ہوتی ہے۔گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ میں مغفرت کا حقدار تو نہیں ہوں مگر چوں کہ تو گناہوں کو بخش دیتا ہے لہذا میرے بھی گناہوں کو بخش دے۔
مغفرت کے فورا بعد رحم وکرم کا سوال ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اللہ کے رحم و کرم کا محتاج ہے۔دعا کے آخر میں اللہ کے دونام غفور اور رحیم اسی مناسبت سے کہے گئے ہیں جیسا کہ پہلے دعا میں سوال کیا گیا ہے۔دعا میں پہلے مغفرت اور پھررحمت کا سوال ہے اسی لیے آخر میں غفور یعنی مغفرت کرنے والا اور رحیم یعنی رحم کرنے والا کہاگیا ہے۔دعا کا یہ انداز بھی بہت خوبصورت اور بامعنی ہے کہ انسان جس چیز کا سوال کررہا ہے اللہ کو اسی نام سے یاد کرے مثلا اس دعا میں مغفرت اور رحمت کا سوال ہے تو اللہ کو غفوراور رحیم کہا گیا۔اسی طرح اگرکوئی شخص رزق کا سوال کررہا ہے تو وہ یا رزاق! کہے گا کوئی شفا چاہتا ہے تو یا شافی! کوئی مدد چاہتا ہے تو یا ناصر! غرض جس مقصد کے لیے دعا کی جائے بہتر یہی ہے کہ اللہ کو اسی نام سے یاد کیا جائے۔
شمس الدین الکرمانی رحمۃ اللہ علیہ آٹھویں صدی ہجری کے محدث ہیں۔آپ کی کتاب’الکواکب الدراری فی شرح صحیح البخاری‘ مشہور ہے۔آپ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں ”یہ دعانہایت ہی جامع ہے کیوں کہ اس میں تقصیر کے اعتراف کے ساتھ مغفرت کا سوال بھی ہے۔مغفرت نام ہے گناہوں کو چھپانے کا اور رحمت بھلائیوں کی رسائی کا۔مغفرت کے سوال سے جہنم سے دوری اور رحمت کے سوال سے جنت میں داخلہ مراد ہے اوریہ(جنت میں داخلہ) بہت بڑی کامیابی ہے“۔
ابن ابی جمرہ رحمۃ اللہ علیہ چھٹی صدی ہجری کے محدث ہیں۔آپ فرماتے ہیں ”یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ نماز میں دعا کرنا مشروع ہے اور اس حدیث میں جو دعا بیان کی گئی ہے وہ دوسری دعاؤں سے افضل ہے۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں سے سوال کرنا چاہیے جو مرتبے اور علم میں ہم سے بڑے ہوں اگرچہ ہم اس چیز کے متعلق پہلے ہی تھوڑا بہت جانتے ہوں۔نیز دعا میں آخرت کو ترجیح دینی چاہیے جیسا کہ اس دعا میں کیا گیا ہے۔دعا کا یہ جملہ کہ”میں نے خود پر بہت ظلم کیا ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی میری مغفرت نہیں کرسکتا“کمال عاجزی اور انکساری کو ظاہر کرتا ہے کیوں کہ اس میں اپنے گناہوں کا دفاع کرنے کے بجائے ان کا اعتراف کیا گیا ہے لہذا اس دعا کے مقبول ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں“۔