چندریان کی ترقی کے ساتھ نفرت کا طوفان تھمنا ضروری
ابھی دو-چاردِن ہوئے کہ ہم چندریان-3 کی مدد سے چاند پر پہنچ چکےہیں اور چاند پر پہنچنے والے عظیم ممالک میں سے ایک ہم بھی ہوگئے ہیں۔اِس موقع پر صرف ہندوستانی سطح پر ہی نہیں بلکہ انٹرنیشنل سطح پرعالمی ممالک کےکونے کونے سے ہماری لائق وفائق سائنسی ٹیم اِسرو(ISRO) کوڈھیرساری مبارکبادیاں دی گئیں اور اُن کے اِس عظیم اور تاریخی کارنامے کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا بھی گیا۔ اس کے ساتھ ہم تمام باشندوں کے لیے انتہائی خوشی اور فخر کی بات ہے کہ ہمارے ملک نے سائنس کی دنیا میں چندریان-3 کے سہارے وہ کارنامہ کردکھایا جس کو اَنجام کےلیے روس اور امریکا جیسے ممالک دن -رات مصروف بہ عمل ہیں لیکن ہنوزاُن کی کوششیں بارآور نہیں ہوسکی ہیں۔
چناںچہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ اس سائنسی کامیابی کے پیچھے جہاں اِسرو(ISRO) کی انتھک کوششیں کارفرما ہیں وہیں تمام ملکی باشندوں کی دعائیں بھی شامل ہیں، اور یہ بات میں اِس لیے بھی کہنے حق بجانب ہوںکہ جہاں ایک طرف اِسرو (ISRO)اپنی تحقیقات اور تکنیک کے ذریعے چندریان-3 کو چاند پر پہنچانےمیں جی جان سے لگے ہوئے تھےوہیں دوسری طرف ہر مذہب/طبقے اور علاقے سے تعلق رکھتے والے باشندے اپنے اپنے طورپرچندریان-3 کو کامیاب بنانے کےلیے دعائیں اور پوجا-اَرچنا کررہے تھے۔ہم سب کا یہ عمل بخوبی بتاتا ہےکہ ملک کوتعمیر وترقی کےہمکنار کرنے اور اُسے اعلی مقام پر پہنچانے کے لیےہم میں کاہرفرد بیتاب وبیقرار ہے ،لہٰذا اِس طرح کے معاملات کو مذہب/طبقہ یا علاقے کی عینک سے دیکھنا کسی بھی لحاظ سے نیک فال نہیں ہے۔
لیکن اِس کے باوجود اگر ہمارے ملک اور معاشرے میںکوئی ایسا واقعہ/سانحہ رونما ہوتا ہے کہ جس سے ملک کا ماحول مکدر ہوتا ہےاور آپسی بھائی-چارے کو نقصان پہنچتا ہےاور خیرسگالی جیسے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، تو یہ معاملہ انتہائی حساس ہے۔ بلکہ چندریان-3 کے سہارے،چاند پر پہنچے والے ملک کےلیے انتہائی شرمناک بات ہے کہ ایک طرف توعالمی ترقیات میں دیگر سپرپاور ممالک کے ساتھ قدم سے قدم ملاتے ہوئے آگے بڑھ رہاہےاور آسمان چھونے کی بات کررہا ہے اوردوسری طرف ملکی سطح پرنفرت کی گرم بازاری کے سبب پاتال میں جارہاہےاور اِنسانیت شرمسار ہورہی ہے۔ گزشتہ چندبرسوں میں رونما ہوئے متعدد سانحات کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اکثریت کی طرف سے اقلیت کے حق میں جس قدر بدکلامی(Hat Speech) کازور بڑھا ہے آزادی کے بعد شاید ہی کبھی اِس کثیرپیمانے پر ایسے معاملات سامنے آئے ہوں۔ بالخصوص تہواروں کے مواقع پر مذہبی جلوس کے پردےمیںمساجد ومعابد کے سامنے ہلڑبازی کرنااور ایک خاص طبقے کو بدکلامی کا نشانہ بنانا۔پولیس کے سامنے نہتے طالب علموں پر گولی چلانا۔یہاں تک کہ اُونچ-نیچ اور طبقاتی بھید-بھاؤ کی بنیاد پر خواتین کی عزت وناموس کو تار- تار کرناوغیرہ ،اِس کی بہترین مثالیں ہیں۔جب کہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب بھی ملک وملت پر کبھی کوئی آفت آئی ہے اور جب کبھی سرحد پار شرپسندعناصر نے ملک کے خلاف سازشیں کی ہیں، توایسے میںہم نےویرعبدالحمید اور بریگیڈیئر عثمان کی شکل میں اپنے ملک وملت کی حفاظت کی ہے۔اِس کے باوجود ایک خاص طبقے کے ساتھ بدکلامی اور نفرتی معاملات کی حمایت کہاں تک درست ہوسکتی ہے!
ایک منٹ کے لیےیہ تسلیم کہ موجودہ عہد کےسیاسی/عام افراد بیشتر کم پڑھےلکھےاورغیرتعلیم یافتہ ہوتےہیں ۔ان کے اندر تعلیم وتربیت کی بڑی کمی ہوتی ہے۔انسان دوستی سے وہ کوسوں دور ہوتے۔ بلکہ مفاد پرست ہوتے ہیںاور اپنے حصول مفاد کےلیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اُنھیں صالح سیاست اور ملک وملت کی سلامتی سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ محض کرسی کے مرید ہوتے ہیں اور کرسی ہی اُن کے لیےسب کچھ ہوتا ہے،اِس لیے اُن سے ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ لیکن جب بات آتی ہے ایک اُستاذاور ایک مربی کی، اوراُس کے جاہلانہ ، غیرمہذب ،بدکلامی اور نفرت آمیز معاملات کی، تب کان کھڑا ہونا فطری امر ہے۔ایک اُستاذ کا کام محض تعلیم دینانہیں ہوتاہےبلکہ اِس کے ساتھ ایک طالب علم کے اندریہ احساس بھی بیدار کرنا ہوتا ہے کہ انسانیت اور درندگی میں فرق ہوتاہے،نیزملک ومعاشرے میں اتحاد واتفاق کے لیے وہ کیا کردار اداکرسکتا ہے۔یہی سبب ہےکہ ایک اُستاذ پر طالب علموں کی تربیت بھی لازم ہوتی ہےتاکہ وہ زندگی کی کسی بھی منزل پراپنی تعلیم کا غلط استعمال نہ کرسکیں۔ لیکن اگر ایک استاذ ہی اپنےاسکول میں تعلیم وتربیت (محبت والفت/اتحادواتفاق)کی جگہ، نفرت (مار-پیٹ)کا چلن عام کرے ،تو ایسا اِنسان دراصل تعلیم وتربیت کا دشمن ہی نہیں بلکہ ملک وملت اور سیاست وسماج کے لیے انتہائی مضر ہے۔ایسے فرد کو تعلیم وتعلّم جیسے پاکیزہ پیشے سے جڑے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔کیوںکہ جب اُسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ ’’شکشا مندر‘‘ دراصل محبت واُلفت اور اِتحاد ویگانگت کا پیامبرہوتاہےاوراُس میں صرف اور صرف انسانوں کوآپس میں جوڑے کی باتیںہی کی جاتی ہیں توڑنے کی نہیں،توپھر وہ کیسے تعلیم وتعلّم کا حق ادا کرسکتا ہے۔اِس موقع پر’’صوفی شکشامندر‘‘کے ایک عظیم استاد بابا فرید گنج شکرکی یہ نصیحت یادرکھنے کی ہے کہ ایک بار آپ کے کسی مریدنے آپ کی خدمت میںایک قینچی پیش کی۔ آپ نے کہا:’’مجھے قینچی دینے کی بجائے،سوئی دو‘‘کیوں کہ ہم اِس دھرتی پر جوڑنے آئےہیں توڑنے نہیں۔ لیکن اِس کے باوجودریاست اترپردیش کے مظفرنگر اَسکول میں ایک معلمہ کا، اقلیت کے بچے کو اکثریت کے بچے سے مارکھلوانااور اقلیتی قوم کے لیے حقارت آمیز جملے کا استعمال کرنابہت ہی نازیبا حرکت اور گھٹیا عمل ہے۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بلکہ انصاف کاتقاضاتو یہ ہے کہ اُس معلّمہ کو اُس کے عہدےسے برطرف کردینا چاہیے تاکہ مستقبل میں دیگر نفرتی اساتذہ کےلیے عبرت وسبق ہو۔حالاںکہ اکثریت طبقے کےبعض افرادنے اِس کی تلافی کرنے کی کوشش ہےکہ ہندو ٹیچر کی نفرت کےشکارطالب علم التمش کواپنے بچے سے گلے لگایا اور اُسے سب کچھ بھول جانے کو کہا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ اگر طرف ہندواُس ٹیچرکے ذہن میں نفرت ہے توپھراقلیت بچوںکااکثریت بچوں سے گل ملنے سے کیا ہوگا؟ اس کے برعکس خیراِس میں ہےکہ ایسے انتہاپسند اور نفرت کے سودائی اساتذہ کو اُن کے کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔ورنہ اِس طرح کے حالات رونما ہوتے رہیںگے اورملکی حالات بدسے بدتر ہوتے چلے جائیںگے اور اِس کاذمہ دار محض نفرتی گروہ نہیں ہوگا بلکہ وہ جماعتیں بھی ہوںگی جو محبت والفت اور اتحاد ویکانگت کا راگ الاپتی رہتی ہیں۔لیکن ایسے نفرتی افراد کے خلاف منھ کھولنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔پھر اِس طرح کی غیرانسانی حرکتوں کے ذمہ دار براہِ راست اہالیان حکومت نہیں، تو بالواسطہ ضرور ہیں۔
القصہ!اہالیان حکومت کو اِس پربالخصوص توجہ دینی چاہیےتاکہ وہ ہندوستان کو جس اونچائی پر لے جانے کا خواب دیکھ رہے ہیںوہ شرمندۂ تعبیر ہو۔بصورت دیگرکہیں ایسا نہ ہو کہ چندریان-3 جیسے عظیم کارنامے بھی بےرنگ اور پھیکے پڑجائیں۔کیوں کہ جس طرح اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ چندریان-3 کی تاریخی کامیابی، ا ِسرو(ISRO)میں موجود اقلیت واکثریت ہرفرد کی محنتوں کا نتیجہ ہے، بعینہ اِس بات کوبھی جھٹلایانہیں جا سکتا کہ ہندوستان کی ہمہ جہت ترقی، اقلیت واکثریت ہردوطبقات کے اتحادواتفاق اور اُن کی کوششوں سےہی ہو سکتی ہے، اور اِس طرح اقلیت واکثریت میں سے کسی طبقہ کوبھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔نیز یہ کہ اِس طرح کے معاملات رونما ہونے پر اقلیتی طبقے کوبھی چنداں گھبرانے کی ضرورت نہیںہےبلکہ ایسے مواقع پرخود کو اِسٹرانگ بنائے رکھنا چاہیے،بالکل ہمت نہیں ہارنا چاہیےاوراس کے ساتھ ہی ایک طرف قانونی چارہ جوئی سے کام لینا چاہیے تو دوسری طرف اِن شرپسند وںاور نفرت بازوں کے تابوت میںاپنی تعلیم وتعلّم اور علم وہنر کی کیل ٹھونک دینی چاہیے تاکہ یہ دوبارہ کسی کی طرف نفرتی نگاہ اٹھانے کی جرأت نہ کرسکیں۔