مآب لینچنگ کے بڑھتے واردات ملک کی صحت کے لیے خطرہ

عنوان سے آپ کو مضمون کا پورا مواد مل گیا ہوگا۔ اخبارالٹتے ہی کچھ نہ کچھ فرقہ وارانہ تشدد اور درندگی کے بارے میں پڑھتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ شاید ہم کسی تاناشاہی یا ہٹلر شاہی دور سے گزر کر رہے ہیں۔ اس عنوان پر ہم نے دو سال پہلے بھی اپنی درد بھری معروضات پیش کئے تھے۔آئین کو بدلنے کی بات کرنے والوں کو ہندوستان میں اقلیت طبقے پر جو ظلم ہورہا ہے اس کی فکر ہی نہیں۔ انگریز کے دور کے فوجداری قانون کو بدلنے کی گرما گرم بحثیں چل رہی ہیں۔ کچھ دن پہلے اجتماعی عصمت دری اور مآب لینچنگ کے بارے میں بھی قانون بنا تھا لیکن پتہ نہیں وہ قانون کہاں گیا۔ ایسا تو نہیں کہ قانون بھی ہمارے محترم وزیراعظم آنجہانی مودی جی کے ساتھ عالمی دورے پر ہو۔ شاید ہوسکتا ہے کوئی بعید نہیں۔ ہم نے اس لئے ایسا کہا کہ قانون پاس ہونے کے باوجود ملک میں اقلیت پر ہجومی تشدد ہورہا ہے۔ برسر عام ایک مظلوم شخص کو درندے صفت حیوان پیٹ پیٹ کر ادھ مردہ کردیتے ہیں یا کبھی موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور آخری نیند سلا دیتے ہیں۔ یہ سب قانون کے رکھ والے اور پراشاسن کے سامنے ہوتا ہے اور یہ نام نہاد قانون کے پاسدار خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اگر شکایت بھی ہوگی تو ملک کے پولیس افسران اس معاملے کو لیپاتوپی کرنے لگتے ہیں۔ ملک جہاں اک طرف چندریان 3 کی کامیابی کا جشن منارہا ہے وہی کچھ بے وقوف اور الو صفت فرقہ پرست یہ کہہ رہے ہیں کہ چاند کو ہندو راشٹریہ گوشت کیا جائیں وغیرہ وغیرہ۔یہ فرقہ واریت کا زہر کس نے ہندو بھائیوں کے دلوں میں کھولا تو صاف وشفاف اور دوٹوک جواب یہ ہوگا کہ بی جے پی نے اور صرف اور صرف بی جے پی نے۔ ہر دن ملک کے کسی نہ کسی ریاست میں اقلیت پر دھاوا بولا جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا جاتا ہے۔ مار مار کر نیم مردہ کردیتے ہیں۔ پھر بہانہ یہ رہتا ہے کہ اس نے گئو اسمگلنگ کی ہے۔ اس نے کسی ہندو لڑکی سے محبت رچائی ہے۔ اس نے ہمارے دیوتاؤں کی بے حرمتی کی ہے۔ اس نے کسی ہندو کو ڈھکا ہے۔ وغیرہ یہ سب ہذیان گویاں اور بکواس کے علاوہ کچھ نہیں۔ مآب لینچنگ کی اگر پوری داستان بیان کی جائیں تو آپ کبھی یقین بھی نہیں کرینگے۔الٹا آپ مجھ فقیر پر طعنہ دینگے کہ ایسا کچھ ہو نہیں رہا ہے یہ سب اناپ شناپ کی باتیں ہیں۔ اگر آپ بھی میری طرح ہردن بلا ناغہ اخبار خوانی کرتے تو اس پر حیرت واستعجاب کے عوض کف افسوس ملتے ہوئے آنسو بہاتے۔ چلئے ہم آپ کو مآب لینچنگ کی پوری داستان تو نہیں سنائیں گے کیونکہ ہمارے اندر بھی اتنی ہمت وجسارت نہیں کہ ہم ان خونچکاں واردات کو سپرد قرطاس کریں۔ بطور مشتے نمونہ از خروارے تازہ تازہ دو واقعہ سنادیتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ سب مبنی بر حقیقت ہے۔واقعہ سننے سے آپ تمام لوگوں سے مخلصانہ ودردمندانہ اپیل ہے کہ ان انسانیت سوز واقعات پڑھنے کے بعد آپ کے اندر ایک بیداری پیدا ہونی چاہیے تاکہ ملک کی فضا میں جو فرقہ پرستی کی مسموم ہوا چل رہی ہے۔ تشدد واستبداد کی جو گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی ہے۔جس کی وجہ سے ملک تباہ و بربادی کے دھانے پر کھڑا ہے۔ لہذا یہ سوچ وفکر ہونی چاہیے کہ  کس طرح اس آفت ومصیبت سے ملک کی جمہوریت، اقلیت، اور سالمیت کی حفاظت کی جائیں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ اس ظلم وستم کے سیلاب میں آپ بھی تنکے کی طرح بہہ جائنگے اور پتہ تک نہ ہوگا۔ تو ہمہ تن گوش ہوکر سنئے اور اشک کے بدلے لہو بہاتے رہئے۔ خدا ہماری حفاظت کرے۔ پہلا واقعہ ریاست جھارکھنڈ کے رام گڑھ ضلع کے سکنی گاؤں کا ہے۔سکنی گاؤں میں شمشاد انصاری کو پیٹ پیٹ کر قتل کردیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق مویشی کا کاروبار کرنے والے شمشاد پر شدت پسندوں کے ہجوم نے ایک شخص سے 5 ہزار روپے ٹھگنے کا الزام لگاکر ایک شمشاد کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ شمشاد کے گھروالوں نے کہا کہ یہ شمشاد سے رقم لوٹنے کے لیے تھا۔ شمشاد پر جو ٹھگی کا الزام لگایا گیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔اس دلخراش واقعہ کی تفصیل کچھ یوں  جس میں چند ہندو یہ الزام لگاتے ہیں کہ شمشاد نے مبینہ طور پر سکنی گاؤں کے ہردھن مہتو کو دھوکہ دے کر اس سے پانچ ہزار روپے لیے تھے۔ اس بات کی اطلاع ملتے ہی ہردھن کا بیٹا اور گاؤں کے افراد شمشاد کو تلاش کررہے تھے۔ ہجوم نے شمشاد کو ریل پل کے قریب دیکھا اور اسے بری طرح پیٹا، یہاں تک کہ اس کے کپڑے پوری طرح پھٹ چکے تھے۔ بعد میں پولیس نے شمشاد کو اسپتال منتقل کیا جہاں اس نے علاج کے دوران دم توڑ دیا۔شمشاد کے افراد خاندان نے ہجوم پر شمشاد کی رقم لوٹنے کی غرض سے مارپیٹ کرنے کا الزام عائد کیا۔ شمشاد کے قتل کے بعد علاقہ میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔۔ پولیس نے شمشاد انصاری کے قتل کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ اور تعجب اس بات پر کہ شمشاد کے موت کے بعد یس پی یہ بیان دیتے ہیں کہ اس واقعہ کو مآب لینچنگ نہیں کہہ سکتے چلئے انہیں کا بیان سن لیجئے وہ کہتے ہیں۔’’کچھ اخبارات اور میڈیا کے دیگر ذرائع نے اس واقعہ کو ماب لنچنگ قرار دیا ہے۔ اس واقعہ کو ماب لنچنگ کے زمرے میں رکھنا مناسب نہیں ہوگا جیسا کہ ماب لنچنگ کے واقعہ میں بڑی تعداد میں بے قابو ہجوم قتل کی واردات کو انجام دیتا ہے جبکہ اس واقعہ میں کچھ مجرموں نے اس واقعہ کو انجام دیا ہے۔واہ رے یس پی تمہارے اس منطق دانی پر تمہیں داد دینے کی ضرورت ہے۔ ریاست جھارکھنڈ میں اس کے قبل بھی کئی ایک مآب لینچنگ اور ماب وائلنس کی واردات رونما ہوئیں ہیں۔ اس وجہ سے ریاست جھارکھنڈ نے اس پر سختی سے قدم اٹھاتے ہوئے 2021 میں قانون بھی  پاس کیا تھا وہ منظور بل کچھ اس طرح تھا کہ"ماب وائلنس اور ماب لنچنگ بل،2021 کے قانون بننے پر ماب لنچنگ کے قصوروار  پائے جانے والوں کے لیے جرمانے اور جائیدادکی قرقی کے علاوہ تین سال سے لے کرعمر قید تک کی سزا کا اہتمام کیا گیا ہے۔ "بل کافی شاندار و جاندار ہے مگر عمل کہاں ہورہا ہے۔ یہ مجرموں کو سزا، نہ جائیداد کی ضبطی، نہ مظلوموں کو انصاف۔اب دوسرا واقعہ بھی سنئے جو 28 اگست کا ہے۔ جو مدھیہ پردیش کے ضلع ساگر کا ہے۔ انسانیت کو شرمسار کر دینے والا تازہ معاملہ مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع میں پیش آیا۔ جہاں سینکڑوں لوگوں کی بھیڑ نے ایک دلت کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا اور ظالموں نے اس کی ماں کو برہنہ کر کے علاقے میں گھمایا۔ بتایا جا رہا ہے کہ مہلوک دلت کی بہن اور دلت خاتون کی بیٹی نے 2019 کے ایک معاملے میں سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، اسی بات سے ناراض بھیڑ نے ان کے گھر پر حملہ بول دیا۔بھیڑ نے مہلوک دلت کی بہن کو پیٹا اور جب اس کی ماں نے اسے حملہ آوروں سے بچانے کی کوشش کی تو انھیں بے لباس کر دیا گیا۔ مہلوک دلت نوجوان کی ماں نے دل دہلا دینے والے حادثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ حملہ آوروں نے بیٹے کو اتنا پیٹا کہ اس کی موت ہو گئی۔ وہ بچ نہیں سکا۔ مجھے برہنہ کر دیا گیا۔ خبر ملنے کے بعد پولیس کی ٹیم موقع پر پہنچی اور جسم کو ڈھانکنے کے لیے ایک تولیہ دیا۔ متاثرہ خاتون نے بتایا کہ وہ وہاں تولیہ سے اپنا جسم چھپائے کھڑی رہی جب تک کہ ساڑی نہیں دی گئی۔یہ کیا ہو رہا ہے؟ اقلیت پر اتنا گھناؤنا ظلم ہورہاہے۔ اور مرکزی حکومت خاموش ہے۔ حکومت کی مجرمانہ خاموشی ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر اس انسانیت سوز مآب لینچنگ واردات پر قدغن نہیں لگایا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ یہ درندے ایک ایک کرکے اقلیتی برادری کو ختم کردیں گے۔ اور ملک کی شبیہ کی بگاڑ دیں گے۔ یہ بڑھتے ہوئے واردات ملک کی صحت کے لیے جان لیوا وائرس سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ مآب لینچنگ ، مآب وائلنس اور ہجومی تشدد پر سخت قانونی بل منظور کیا جائیں اور سخت سے سخت دردناک سزا متعین کیا جائیں تاکہ آگے کوئی بھی جتھا ہجومی تشدد سر انجام دینے سے پہلے سوچنے پر مجبور ہو اور اس گھناؤنا جرم سے باز رہیں۔ خدا ہمارے ملک کی خدا حفاظت فرمائے اور اس بہیمانہ فرقہ پرستی اور مآب لینچنگ سے چھٹکارا نصیب فرمائے آمین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter