مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری کے پیچھے سیاسی کھیل جاری

4 فروری 2024 کے رات کو ہندوستان کے مشہور ومعروف عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر مفتی سلمان ازہری کو گجرات کی اے ٹی یس کی ٹیم نے ممبئی سے گرفتار کرکے گجرات لے گئے۔ ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ دو مذہب کے ماننے والوں کے بین نفرت پیدا کر رہے ہیں۔ اور اپنی تقریر میں ہندو سماج کے لوگوں کو کتا کہہ کر خطاب کیا۔بس اسی بات کو بتنگڑ بناتے ہوئے آر یس یس کی نیوز چینل سدرشن نیوز اور ویب پورٹل اوپ انڈیا نے خوب مرچ مسالےلگا کر ہندو سماج کو مشتعل کیا۔ پولیس پر دباؤ ڈال کر گرفتار کرنے پر مجبور کیا۔ جوناگڑھ کے یم پی کی طرف سے بھی کافی دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مفتی سلمان ازہری نے کہیں بھی ہندو سماج کا ذکر نہیں کیا۔ جس چیز کو پکڑ کر اشتعال انگیزی کی جارہی ہے اس کا پس منظر ہی کچھ الگ ہے۔ آئیے حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔مفتی صاحب کے ساتھ مقامی منتظمین میں  محمد یوسف ملک اور عظیم حبیب اوڈیدرا کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153بی اور 505 (2) کے تحت ایف آئی آر درج کرکے ان کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ گجرات کے شہر جوناگڑھ میں مولانا مفتی سلمان ازہری نے 31 جنوری کی رات بیڈویژن پولیس اسٹیشن کے قریب کھلے میدان میں منعقد ہ ایک دینی  پروگرام میں اصلاحی تقریر کر رہے تھے۔ تقریر کے دوران انہوں نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دنیا آج ہمیں طعنے دیتی ہے کہ اگر تم اتنے ہی ایماندار ہو تو مارے کیوں جاتے ہو؟ تمہیں فلسطین میں اتنا کیوں قتل کیا گیا؟ عراق، یمن، فلسطین، افغانستان، عرب اور برما، ہر جگہ تمہیں کیوں مارے جاتے ہو؟'' ''نوجوانو! ان ظالموں کو یہ جواب دو کہ مفتی اعظم ہند نے ہمیں سکھایا تھا۔ ہم رسول اللہ کے پروانے ہیں۔ جو پیدا ہی مرنے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ کہاں جینے کے لیے آتا ہے۔ پروانے کی محبت اپنے شعلے کے ارد گرد گھوم کر اپنی جان قربان کرنا ہوتا ہے۔''

مفتی سلمان ازہری اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ اگر ''ہم کسی سرزمین پر مارے جائیں تو ایک بات یاد رکھیں کہ ہمارے قتل سے اسلام ختم نہیں ہوتا۔ اگر اسلام کو ختم ہونا ہوتا تو کربلا میں ختم ہو جاتا۔ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔۔۔۔ نہ گھبراؤ  اے مسلمانوں ابھی خدا کی شان باقی ہے۔ ابھی اسلام زندہ ہے، ابھی قرآن باقی ہے۔ جو لوگ ہم سے روز الجھتے ہیں، ابھی تو کربلا کا آخری میدان باقی ہے۔  یہ کچھ دیر کی خاموشی ہے، پھر شور اٹھے گا۔ آج کتوں کا وقت ہے۔ کل ہمارا وقت آئے گا۔''

آپ نے ملاحظہ کیا۔ یہ تقریرکا وہ حصہ ہے جس کو اشتعال انگیزی قرار دے کر ایک اسلامی اسکالر پر بے جا الزام عائد کرکے گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاری در حقیقت ایک عالم دین کی صرف نہیں بلکہ پوری مسلم قوم کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ ہم یہاں ہمارے جمہوری ملک کے پولیس انتظامیہ سے بھی چند معروضات پیش کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ جب کہیں ایسے معاملات پیش آتے ہیں تو پولیس انتظامیہ پر ناگزیر ہے کہ وہ پہلے جانچ پڑتال کریں۔ جس تقریر کو لیکر یف آئی آر درج کیا جارہا ہے اس تقریر کی ویڈیو کو مکمل سنیں، اور فورینسک جانچ کریں۔، گرفتاری سے پہلے نوٹیس جاری کریں، کیا یہ سب ہوا۔ تو جواب منفی میں ہوگا۔ نہیں پھر قانون کے رکھ والے ہی قانون کی خلاف ورزی کریں تو پھر اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟

سیکولر ملک میں ہر مذہب کو اپنے طریقے سے دعوت اور مذہبی امور انجام دینے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ یہی جمہوریت کی جڑ اور بنیاد ہے۔یہی ہندوستان کی شناخت اور پہچان بھی ہے۔ کسی بھی مذہب کی بالادستی ہندوستان کے آئین کے خلاف ہے۔یہاں اکثریت اور اقلیت ضرور ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقے پر اپنا رعب ودبدبہ قائم کریں۔ ظلم و ستم کا نشانہ بنائیں۔ اظہار خیال کے آزادی پر اقلیت کو نشانہ بنائیں۔ ان کی عبادت گاہوں کو زور زبردستی چھین لیا جائیں۔ انہیں قتل عام کرنے کی باتیں کی جائیں۔ ان کی ماں بہنوں کی عزت و آبرو سے کھلواڑ کیا جائیں۔ برسر عام انہیں زدوکوب کا شکار بنایا جائیں۔ سماجی بائیکاٹ کیا جائیں۔ گئو رکشا کے نام پر معصوموں کے خون سے ہولی کھیلی جائیں۔ یہ سب ہوائی فائرنگ نہیں بلکہ دن دھاڑے قانون کے آنکھوں کے سامنے ہوئے دلخراش واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ مفتی صاحب نے کتا کہا تو برا مان گئے اور حقیقت تو یہ کہ کتا نہ انہیں کہا تھا نہ کسی خاص سماج کو جیسے کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے۔ اگر یہ اشتعال انگیزی ہے تو ان دھرم سنسد کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس میں ہزاروں کے سامنے مسلمانوں کو قتل عام کرنے کی دعوت ہی نہیں بلکہ ہتھیار بھی فراہم کئے گئے تھے۔ ملک کے کئی علاقوں میں دھرم کے محافظ کہلانے والے مسلمانوں اور مساجد کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ ناموس رسالت مآب ﷺ کی شایانِ شان میں گھناؤنی گستاخیاں کررہے تھے۔ بزرگانِ دین کی عزت کیچڑ اچھال رہے تھے۔ تب انہیں فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ کیا تب انہیں آئین ہند کے دفعات ذہن سے اوجھل ہو گئے تھے۔ شاید آپ سمجھتے ہونگے کہ یہ سب زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کریں گا تو کرنے دیجئے۔ زخم باقی نہ رہا تو نمک کس پر چھڑکیں گے۔ اس وقت حاشیہ ذہن پراکبر الہٰ آبادی کا شعر آرہا ہے 

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام 
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا۔

اس روح فرسا حالات میں ہم اپنوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اب تو اتحاد واتفاق کا مظاہرہ کرو۔ آپسی انتشار وباہمی خلفشار کو بالائے طاق رکھ کر ایک مرد مجاہد کی رہائی کے لیے میدان میں اترو اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑو۔ یہ ہتھیار یا تیغ و سنان کا دور نہیں بلکہ علم و حکمت اور قلم وقرطاس کا دور ہے۔ تعلیم کو فروغ دو۔ بچوں کو پڑھاؤ اور بڑھاؤ۔ خانقاہوں میں گدی نشینوں سے اپیل کرتے ہیں کہ


نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری 
کہ فقر خانقاہي ہے فقط اندوہ و دلگيری 
ترے دين و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی 
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری

الحمدللہ اس نازک حالات میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے لیڈران مفتی سلمان ازہری کے لیے آوازیں اٹھارہے ہیں۔ اور خانقاہوں سے بھی حمایت کا اعلان بھی کیا جارہا ہے۔ یہی اتحاد واتفاق باقی رہا تو ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں کہ ہمارے حالات بہتر سے بہترین ہوجائیں گے۔ہماری کمزوری اور شکست و ریخت کی سب سے بڑی وجہ ہمارا انتشار و خلفشار ہے۔ اگر ان حالات میں بھی بیدار نہ ہوئے تو پھر ہمارے وجود پر بھی سوالیہ نشان ہو گا۔

اس ملک کے غدار اور انگریزوں کے غلام اور جوتے چاٹنے والے ہمیں وطن پرستی اور حب الوطنی کی تعلیم دے رہے ہیں۔ یہی فرقہ پرست اس ملک کے امن وامان کو غارت کرنے پر تلے ہیں۔ جمہوریت اور قومی یکجہتی کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہندو سماج کو اندھیرے میں رکھ کر اپنا ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بے جا الزام کو بڑھا چڑھا کر سیاست کھیلنا چاہتے ہیں۔ مسجد مندر کی آڑ میں اپنی اپنی روٹی سیکنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ہندو بھائیوں سے بھی ہم اپیل کرتے ہیں کہ اس خفیہ ایجنڈے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔یہ آپ کے یا آپ کے دھرم کے پاسبان نہیں بلکہ قوم کے ڈکیت ہیں۔ہندوؤں سے ظاہری ہمدردی کا ڈھکوسلہ نعرہ لگا کر ووٹ بینک استوار کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ یہ سیاست ہے نہ کہ دھرم کی حفاظت۔مفتی ساحب کی گرفتاری یہ کوئی ایک فرد کی بات نہیں بلکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گودی میڈیا بھی میدان میں اتر کر اچھل کود کر رہی ہے۔ اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں فرقہ واریت کو بڑھانے میں میڈیا نے کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ 
حالات اتنے سنگین ہونے میں گودی میڈیا کا کردار ناقابلِ فراموش بھی اور قابل مذمت بھی ہے۔ آج الزام کو لیکر جہاں میڈیا شور مچارہا وہیں اس بے جا الزام کے ساتھ ایک سے ایک تانے بانے جوڑکر اس مسئلہ کو مزید الجھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ مفتی صاحب کو زبردستی پاکستان سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے۔ لہذا ان نازک صورتحال میں ہمیں چاہیے کہ حکمت عملی سے کام لیں اور جوش میں ہوش نہ کھوئیں۔ میں اپنی تنظیم کی طرف سے مفتی صاحب قبلہ کی رہائی کے لیے حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ اور حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد اس معاملے کو نپٹانے کی کوشش کریں اور ملک کے امن وامان کو برقرار رکھیں۔ یہی ملک کی سالمیت اور جمہوریت کے لیے بہتر ہے۔ اللہ دشمن کی بد نظر سے ہمارے ملک کی حفاظت فرمائے اور مفتی سلمان ازہری صاحب قبلہ کو باعزت بری فرمائے۔ دشمنانِ دین کو کیفرکردار تک پہنچائے آمین

 

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter