وائناڈ سانحہ اور ایک دردمند ہاتھی کی درد بھری داستان

 نوک قلم پر لرزہ طاری ہے کہ وائناڈ کے قیامت خیز سانحہ کو کیسے الفاظ کا پیرہن پہناؤں؟  اگر میں وائناڈ کی ہلاکت خیز مصیبت کو  قیامت صغری کہوں تو ہرگز مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ اس لینڈ سلائڈنگ میں بے شمار خاندان لاپتہ ہو گئے، بے شمار بچے یتیم ہوگئے اور اب بھی کتنے سیکڑوں افراد زیر زمین ہے کسی کو کوئی خبر نہیں۔ انہیں رات کو سوتے وقت کبھی یہ وہم وگمان نہیں تھا کہ ہماری یہ نیند آخری نیند ہوگی۔ کل صبح ہم تہہ زمین آرام کررہے ہوں گے۔ ہمارا گھر ہی ہماری آخری آرام گاہ ہوگی۔ اللہ ان تمام مہکوکین پر رحم کریں۔ انہیں اپنی آغوش رحمت میں جگہ نصیب فرمائے۔ پسماندگان کو صبر وشکیب عطا فرمائے۔ آمین! ان نوجوانوں کو بھی میں سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اس قیامت خیز دھرتی پر جان کی بازی لگا دی اور دن رات ایک کردیے۔اللہ تعالی ان کی خدمات گراں مایہ کو قبول فرمائے اور ان کے دست وبازو میں قوت عطا فرمائے۔ آمین!
 یہ سانحہ ہمارے لیے کسی عبرت ناک واقعے سے کم نہیں۔ قدرت کے قہروجلال کا ایک چھوٹا سا جھٹکا ہے۔ اور یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ دنیوی زندگی پر کبھی بھروسہ نہیں کرسکتے۔ پیک اجل جب چاہے آکر روح قبض کرسکتا ہے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جب تک ہم زندگی گزاریں نیک کام کریں، دوسروں کے کام آئیں۔ اس وقت مجھے مشہور نوجوان شاعر طارق نیازی کے اشعار یاد آرہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ:


چار دن کی بہار ہے دنیا 
موت کا انتظار ہے دنیا 
تو کہاں میری بات سمجھے گا 
تیرے سر پر سوار ہے دنیا 
زندگی جس پہ چلتی رہتی ہے 
ایسے خنجر کی دھار ہے دنیا
یہ تجھے کیا قرار بخشے گی 
جب کہ خود بے قرار ہے دنیا 
کیسے کیسے کو کھا گئی ہے تو 
کچھ ترا اعتبار ہے دنیا


 آمدم برسرِ مطلب، میں آپ کے سامنے اسی سرزمین جگر سوز وائناڈ کی ایک دل سوز داستان سنانے جارہا ہوں۔ اپنا دل تھا م لیجیے کہ یہ کہانی ایک کمزورو لاغر، بے بس و لاچار سجاتا نامی بوڑھی خاتون کی درد بھری داستان ہی،جسے پڑھ کر سینے میں انسانیت کا درد رکھنے والے تمام لوگ اشکبار ہوجائیں گے۔ ذرا وہ روح فرسا حالات بھی آنکھوں کے سامنے لائیں اور اس قیامت خیزی کا تصور کریں پھر اس غم اندوہ داستان کو سنیے جس سے بے ساختہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں گے۔ جب میڈیا والے اس بزرگ خاتون کے پاس آتے ہیں تو وہ آبدیدہ ہو کر اپنی کہانی سناتی ہیں کہ:
 ”رات کے اندھیرے میں جب یہ قیامت خیز سانحہ وقوع پذیر ہوا، تو باہر سے دار و گیر کے شور بلند ہونے لگے ہر کوئی بچاؤ بچاؤ کی داد وفریاد کررہا تھا۔ مدد کی دہائیاں دے رہا تھا اسی پرآشوب ماحول میں اچانک میرے گھر کا سلیپ گر نے لگا میں جان بچاتے ہوئے رسوئی گھر کی طرف دوڑنے لگی اسی بیچ مجھے میرا پوتے کی آواز سنائی دی”دادی بچاؤ، بچاؤ“۔یہ سن کر میرا کلیجہ منہ کو آرہامیں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ چھت کے ملبے کے نیچے پھنسا تڑپ رہا تھا۔میں نے فوراہاتھ بڑھایا اور اس کی چھنگلی پکڑ کر اسے باہر نکالنے کی کوشش کرنے لگی حتی کہ ایشور کی کریپا سے میں کامیاب ہوگئی اور پوتے کو سینے سے لگا کر اپنی جان بچانے کے لیے جیسے ہی دو قدم آگے بڑھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ میری ایک پڑوسن مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ میں نے اس بیچاری کا ہاتھ پکڑا اور ہم اس تیز رفتار پانی کے بہاؤ میں خدا خدا کرکے لب سڑک پہنچ گئے۔سڑک کنارے پہونچ کر میں نے ایک بھیانک منظر دیکھاجس سے میرا پورا بدن تھوڑی دیر کے لیے سن ہوگیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے ایک قوی ہیکل،سینگ دار جنگلی ہاتھی سامنے کھڑا ہے اور اس کے دونوں بازوؤں پر دو مزید ہاتھی کھڑے ہیں۔ یہ سوہان روح منظر دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا اور یہ محاورہ میرے حاشیہ ء ذہن میں گردش کرنے لگا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔ ایک مصیبت سے خدا خدا کرکے جان بچاتے ہوئے دوڑتے ہانپتے لب روڑ پہنچے ہی تھے کہ اور ایک بڑی مصیبت میں پھنس گئے۔ اسی شش و پنچ میں میں اس جنگلی ہاتھی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر منت سماجت کرنے لگی اور میں نے کہا کہ اے ہاتھی!ہم یہاں ایک بڑی مصیبت سے بچ کر آئے ہیں۔ خدارا تم ہمارے ساتھ کچھ برا نہ کرنا ہمیں ایذا نہ پہنچانا۔ اتنا کہنا تھاکہ وہ بے شعور جانور کی آنکھیں بھرآئیں اور اس کی دونوں آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔ یہ روح پرور منظر دیکھ میں حیران وششدر ہوکر رہ گئی پھر وہیں رات بھر اس جنگلی ہاتھی کے پائنتی میں اس امید کے ساتھ لیٹ گئی کہ صبح کوئی ہمارا پرسان حال اور مسیحا بن کر آئے گا اور ہمیں زندگی کی بہاریں لوٹائے گا۔ گاؤں والے سب کے سب مٹی کے تودے کے تلے دب کر اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر چکے تھے۔ اس لیے اب ان سے کوئی امید وابستہ نہیں تھی۔ اس وحشت ناک سانحہ سے پورے گاؤں کی آبادی شہر خموشاں بن گئی۔ پوراگاؤں تاریک تھا۔ موسلادھار بارش اور زوردار ہواؤں نے پورے گاؤں کے لوگوں کی زندگی کے چراغ گل کردیے تھے۔ کسے معلوم تھا کہ اس رات کی نیند آخری نیند ہوگی۔ صبح کا سورج اپنے ساتھ موت اور ہلاکت کا پروانہ لے کر آئے گا۔  وائناڈ کو لوگ قدرت کا ایک عظیم شاہکار تسلیم کرتے تھے۔ قدرتی مناظر کا حسن وجمال اور پہاڑ وکوہسار پر جمے سرسبزوشاداب گھنے پیڑ پودے خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے تھے آج وہی وائناڈ قدرت کے قہر وجلال کا شکار ہوکر ویران ہوگیا۔ راتوں رات لہلہاتے چمن اجڑ گئے۔ زندگیاں تہہ زمین دب کر سسکتی رہ گئیں۔ اس درد مند ہاتھی کے آنکھوں میں اشک کی لڑیاں دیکھ کر میں حیران رہ گئی اور دل ہی دل میں یہ کہنے لگی کہ جب ایشور بچانے پر آتا ہے تو وہ جنگل کے موذی جانور کے ذریعے بھی حفاطت کرواتا ہے، میں ایشور کی بارگاہ میں شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میرے پریوار کے کئی لوگ ہاسپٹل میں شدید زخمی میں ہیں اور زیر علاج ہیں۔ میں اور کچھ لوگ علاقہ منڈاکئی سے جان بچاکر یہاں میلپاڈی کیمپ میں باقی ماندہ لوگوں کے انتظار میں بے بسی سے نڈھال ہیں۔ ایشور سب کی حفاظت کریں۔ اتنا کہہ کر بیچاری سجاتا حسرت بھری آہیں بھرنے لگیں“۔
 یہ تھی وہ درد بھری کہانی جس میں ایک بے شعور جنگلی ہاتھی بھی سُجاتا کی آہیں سن کر اشکبار ہوگیااور اس جانور نے اپنے پائنتی میں ان کو سلاکر یہ پیغام دے رہی تھی کہ تم جسے جانور سمجھ کر بے دردی کے ساتھ سلوک کرتے ہوں آج اسی جانور نے ان بے بسوں کو پناہ دی۔ رات بھر دیگر مؤذی جانوروں سے ان کی حفاظت کی۔ علی الصباح! جب انسانوں کا ہجوم وائناڈ کا رخ کیا تو اپنے منزل کی طرف رواں دواں ہوگی۔ افسوس اس بات کا کہ پوری دنیا کی نگاہیں وائناڈ کے خونچکاں قیامت خیز سانحہ پر ہے تو ہمارے ملک کے چند فرقہ پرست سیاست دان و حکمرانوں پر چپی طاری ہے اور وہ بدنصیب گھڑیالی آنسو تک بہانے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں اس جنگلی ہاتھی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس کے دل پر بھی ٹھیس پہنچی لیکن ان درندے صفت حکمرانوں پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ یہ حکمران اس جنگلی ہاتھی سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ انہیں لوگوں کے بارے میں شاید یہ کہا گیا ہے کہ یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گرے ہوئے ہیں۔ اب ہمیں  چاہیے کہ ہم وائناڈ والوں کے لیے دعا کریں۔ امدادی اشیاء کی فراہمی کی کوشش کریں۔ اس وقت میں یس کے یس یس یف کے وقایہ رضاکاران کو تہہ دل سے مبارکبادیاں پیش کرتا اور ان کے حوصلوں کو سلام کرتا ہوں کہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر وہ وہاں پر دن رات مہلوکین کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ کیمپ میں جو لوگ پناہ گزین ہیں انہیں خورد ونوش کے اشیاء فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ علاج ومعالجہ کا بھی بندوبست کررہے ہیں۔ اللہ ان نوجوانوں کی خدمات کو قبول فرمائے ان کے دست وبازوکو قوت عطا فرمائے۔ اہل وائناڈ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ جتنے مسلمان فوت ہوئے انہیں شہادت کا درجہ عطا فرمائے۔ ہم سب اس قیامت خیز سانحہ میں دل و جان سے اہل وائناڈ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کے ہر دکھ ودرد میں برابر شریک ہیں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter