بھاجپا کا دھرم سنسد جادو چل نہ سکا
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہونے کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب کا گہوارہ ہے، جہاں پر مختلف مذاہب و ادیان کے لوگ بستے ہیں۔ ہندوستان میں کسی مذہب کو اس بات کی قطعی اجازت نہیں کہ وہ کسی مذہب یا کسی مذہب والوں کو نشانۂ نشتر بنائے؛ لیکن افسوس صد افسوس کہ چند دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندوتوا کے نام پر کچھ شرپسند عناصر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر آلود تقریریں کر رہے ہیں۔ بالخصوص اترپردیش اور ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں۔۔۔ جمعیت علماء ہند کی مسلسل کوششوں سے دو نام نہاد سنتوں یعنی سوامی نرسمہانند اور جیتندر تیاگی (وسیم رضوی) کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پیش قدمی میں جمیعت علماۓ ہند کے ارشد مدنی کے علاوہ عرضی گزار مشہور زمانہ صحافی و نامہ نگار "قربان علی " اور پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق جج اور سینئر ایڈوکیٹ" انجنا پرکاش " قابل ستائش و مبارکباد ہیں، جنہوں نے دھرم سنسد میں کی گئی زہر آلود بیان بازیوں کو عدالت تک پہنچانے میں کافی تگ و دو کی۔ اس کا ثمرہ کہیے کہ ان دونوں کو قانونی شکنجے میں جکڑ دیا گیا۔ لیکن پھر بھی یہاں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا ان دونوں کو حراست میں لینے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شر انگیز رویوں اور فتنہ سامانیوں کا دروازہ بند ہو جائے گا؟ جواب ہوگا ہرگز نہیں! پھر بھی ملک کے اندر نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے اندر ضرور کہیں نہ کہیں خوف و ہراس گھر کرے گا اور ان فرقہ واریت سے وقتی طور پر باز آئیں گے۔
درحقیقت ان اشتعال انگیز تقاریر کے پیچھے کہیں نہ کہیں بھاجپا کی شاطرانہ چال ضرور کار فرما ہے۔ جب سے اتر پردیش میں انتخابات کا بگل بج چکا ہے تب سے بھاجپا کے کارکن مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے درمیان منافرت کے شعلے بھڑکانے کی کوشش کرتے نظر آرہے ہیں؛ لیکن جب ان دو شرپسند عناصر کو پولیس افسران نے گرفتار کیا، بھاجپا کی مذہبی منافرت والی سیاست گول مٹول ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ بھاجپا نے اس انتخابی مہم کے دوران ہندو مسلم منافرت کی آگ لگانے کے لیے دھرم سنسد کا جادو چلانے کی کوشش کر رہی تھی؛ لیکن صد حیف کہ بھاجپا کو بری طرح رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ جادو نہ چل سکا۔
یوپی میں عوام یوگی بھاجپائی حکومت سے بیزار ہیں۔ عوام ہی نہیں بلکہ یوگی حکومت سے بدظن ہوکر ارکان اسمبلی، وزراء کے عہدوں پر فائز قائدین و عمائدین سیاست کی اس ڈوبتی کشتی سے اپنے تیئیں آپ کا تحفظ کرنے کے لیے کنارہ کشی اختیار کرتے نظر آرہے ہیں۔ وزراء اور ارکان اسمبلی کا استعفی دے کر بھاجپا سے کنارہ کشی اختیار کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ بھاجپائی نظریۂ حکومت سے خود اس کے ارکان اسمبلی بیزار ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان مستعفی ارکان میں سوامی موریہ پرساد نے یہ حیرت انگیز انکشاف بھی کیا ہے کہ بھاجپا عوام اور ملک کے مفادات سے اوپر اٹھ کر صرف اور صرف آر ایس ایس کے ایماء و اشارہ پر کام کرتی ہے۔ یوگی حکومت کا اہم ایجنڈا آر ایس ایس اور ہندو توا کو فروغ دینا ہے۔ اس منافرت والی سیاست سے نہ انصاف پسند اکثریت راضی ہے نہ اقلیت۔ اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جمہوری ہندوستان میں تاناشاہی کے خواب ادھورے ہی رہ جاتے ہیں ہیں۔ جیسے کہ یوگی اور مودی کے تمام خواب خواب ہی رہ گئے؛ نہ کبھی شرمندہ تعبیر ہو سکتے ہیں، نہ ہی ہونے کی کوئی گنجائش۔
یوگی حکومت میں خواتین کی عصمت دری، مہنگائی، بے روزگاری اور فرقہ واریت تشدد اور زہرآلود تقریروں کے جراثیم ہندوستانی سماج میں اپنی جڑیں مضبوط کرتے نظر آرہے ہیں۔ آزادئ خیال کے نام پر ہندو سیاست داں ہندوؤں کو پولرائز کرنے کے لیے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہی زہرآلود تقریریں جمہوریت کی پوری عمارت کو مسمار کر دیں گی۔ لہذا پورے ہندوستانی سماج سے ہماری مخلصانہ اپیل ہے کہ کسی کی چکنی چپڑی باتوں اور تقریروں کے جال میں آئے بغیر پوری سمجھ اور سوچ کے ساتھ ترقی پسند پارٹی کو ووٹ کریں اور ایسی سیکولر پارٹی کو برسراقتدار لائیں؛ جو انسانی معاشرے کی تعمیر اخوت و بھائی چارگی اور باہمی الفت و محبت کے اصولوں پر اٹھائی گئی۔ مذکورہ بالا سطور کسی ایک مذہب کی حفاظت کی بات نہیں، بلکہ پوری جمہوریت کی پاسداری کا ضامن ہے۔ وہ جمہوریت جس پر ہندوستان کا اساسی دستور و آئین قائم ہے۔