حجاب کا احترام یا سیاسی لغزش؟
ذمہ دار جمہوریت کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ طاقت کے مظاہر سے نہیں بلکہ احترامِ انسانیت سے پہچانی جائے۔ ہندوستان جیسی کثیرالمذاہب، کثیرالثقافتی ریاست میں جہاں آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی، شخصی وقار اور مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے وہاں کسی بھی بااثر شخصیت کا ایسا طرزِ عمل جو کسی طبقے کے جذبات کو مجروح کرے محض ایک لمحاتی لغزش نہیں بلکہ اجتماعی ضمیر کے لیے ایک سنجیدہ سوال بن جاتا ہے۔ حالیہ دنوں بہار کی سیاست میں ایک ایسا ہی واقعہ زیر بحث آیا ہے جس نے نہ صرف ریاست بلکہ پورے ملک میں حساس دلوں کو بے چین کر دیا ہے اور خاص طور پر مسلم خواتین کے دلوں میں عدمِ تحفظ کے احساس کو گہرا کیا ہے۔ پٹنہ میں منعقد ایک سرکاری تقریب کے دوران وزیرِ اعلیٰ بہار نتیش کمار سے منسوب ایک عمل نے عوامی حلقوں میں شدید ردِعمل کو جنم دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ ایک مسلم خاتون ڈاکٹر کے چہرے سے برقع یا حجاب کو ہٹانے کی کوشش کی گئی جسے لوگوں نے نہایت ناپسندیدہ، غیر ذمہ دارانہ اور ناقابلِ قبول قرار دیا۔ چاہے یہ واقعہ کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو یا لمحاتی لاپروائی حقیقت یہ ہے کہ عوامی تاثر نے اسے مسلم خواتین کے مذہبی وقار پر حملہ کے طور پر لیا ہے۔ سیاست میں بعض اوقات ایک لمحے کا عمل برسوں کی ساکھ کو مجروح کر دیتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر آج بہار کی سیاست آ کر ٹھہر گئی ہے۔ حجاب اور برقع محض کپڑے کے ٹکڑے نہیں بلکہ کروڑوں مسلم خواتین کے لیے مذہبی تشخص، ذاتی وقار اور آئینی حق کی علامت ہیں۔ اسلام عورت کو عزت، پردہ اور شخصی اختیار دیتا ہے اور ہندوستان کا آئین بھی ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں کسی بھی خاتون کے مذہبی لباس کے ساتھ سرِ عام چھیڑ چھاڑ، بالخصوص جب وہ اقتدار کے بلند منصب پر فائز شخص سے منسوب ہو، ایک خطرناک پیغام دیتی ہے۔ یہ پیغام صرف مسلم خواتین تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا واقعی اس ملک میں کمزور طبقات کی عزت و حرمت محفوظ ہے؟
بہار کی سیاست کا پس منظر اس معاملے کو اور بھی حساس بنا دیتا ہے۔ نتیش کمار طویل عرصے سے خود کو سیکولر سیاست، سماجی انصاف اور اقلیتوں کے تحفظ کا علمبردار بتاتے رہے ہیں۔ بہار میں مسلم ووٹ ایک اہم سیاسی حقیقت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت کو اقلیتوں کے جذبات کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر وزیرِ اعلیٰ سے منسوب کوئی عمل مسلم خواتین کے مذہبی احساسات کو ٹھیس پہنچائے تو اس کے سیاسی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ محض ایک فرد کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ پورے سماجی معاہدے پر سوال بن جاتا ہے جس کی بنیاد آئین نے رکھی تھی۔ مسلم خواتین پہلے ہی ملک کے مختلف حصوں میں حجاب کے مسئلے پر تعصب، تضحیک اور دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں۔ کہیں تعلیمی اداروں میں پابندیاں، کہیں سڑکوں پر نفرت آمیز رویے اور کہیں سوشل میڈیا پر کردار کشی ان سب کے درمیان اگر اقتدار کے ایوانوں سے بھی غیر حساس رویوں کے اشارے ملیں تو خوف اور بے اعتمادی کا بڑھنا فطری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ پر ردِعمل اتنا شدید ہے اور لوگ اسے ایک علامتی خطرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جمہوری نظام میں ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ عوامی نمائندے اپنے ہر عمل میں آئین، قانون اور اخلاقیات کو پیشِ نظر رکھیں۔ وزیرِ اعلیٰ جیسے منصب پر فائز شخص سے یہ توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کسی بھی شہری کے شخصی دائرے میں مداخلت کرے خواہ وہ کسی بھی نیت سے کیوں نہ ہو۔ عوامی مقامات پر خواتین کے وقار کا احترام ریاستی ذمہ داری کا حصہ ہے اور یہ احترام محض قوانین سے نہیں بلکہ رویوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس معاملے کو سیاسی بیان بازی کے بجائے سنجیدگی، حساسیت اور ذمہ داری کے ساتھ دیکھا جائے۔ اگر کسی عمل سے کسی طبقے کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو اس کا اخلاقی تقاضا یہی ہے کہ وضاحت کے ساتھ معذرت پیش کی جائے اور یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ آئندہ ایسے کسی طرزِ عمل کی گنجائش نہیں ہوگی۔ معافی کمزوری نہیں بلکہ جمہوری بلوغت کی علامت ہوتی ہے اور یہی عمل عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے۔ حکومتِ بہار اور متعلقہ حکام پر بھی لازم ہے کہ وہ اس معاملے کا سنجیدہ نوٹس لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ ریاست میں ہر شہری بالخصوص خواتین اور اقلیتیں خود کو محفوظ اور باوقار محسوس کریں۔ آئینِ ہند صرف کتابی اصولوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک زندہ عہد ہے جس کی پاسداری ہر حکمران پر فرض ہے۔ اگر آج ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کی گئی تو کل یہ خاموشی ایک خطرناک روایت بن سکتی ہے جو جمہوریت کے جسم میں ناسور کی طرح پھیلتی چلی جائے گی۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہندوستان کی طاقت اس کی کثرت میں وحدت ہے۔ اس وحدت کی حفاظت اسی وقت ممکن ہے جب ہر مذہب، ہر لباس اور ہر شناخت کا احترام کیا جائے۔ مسلم خاتون کے حجاب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی ایک فرد کی دل آزاری نہیں بلکہ اس نظریے کو مجروح کرنے کے مترادف ہے جس پر ہمارا آئین اور ہماری جمہوریت قائم ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم بطور قوم یہ واضح پیغام دیں کہ عورت کی عزت، مذہبی آزادی اور شخصی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا چاہے سوال اقتدار کے کسی بھی درجے سے کیوں نہ اٹھے۔
یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج سیاست میں اقلیتوں کے احترام کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں مگر عملی سطح پر حساسیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر کسی مسلم خاتون کے مذہبی لباس کو سرکاری اسٹیج پر بھی تحفظ حاصل نہ رہے تو عام زندگی میں اس کے وقار کے تحفظ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟ یہی احساسِ محرومی وہ چنگاری ہے جو وقت کے ساتھ بڑے سماجی شعلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں تبھی مضبوط ہوتی ہیں جب وہ اپنے کمزور طبقات کے اعتماد کی حفاظت کرتی ہیں نہ کہ ان کے زخموں کو نظر انداز کرتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ بہار کی قیادت اس واقعہ کو محض ایک سیاسی تنازع سمجھ کر نظر انداز نہ کرے بلکہ اسے ایک اخلاقی اور آئینی تنبیہ کے طور پر لے۔ واضح دو ٹوک اور باوقار انداز میں معذرت اور مستقبل کے لیے احتیاط کی یقین دہانی ہی وہ راستہ ہے جو حالات کو سنبھال سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف مسلم خواتین کے دلوں میں پیدا ہونے والی بے چینی کم ہوگی بلکہ یہ پیغام بھی جائے گا کہ بہار کی سیاست اب بھی آئینی قدروں اور انسانی احترام سے جڑی ہوئی ہے۔ آخرکار یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اقتدار عارضی ہوتا ہے مگر کسی قوم کے دلوں پر لگنے والے زخم دیرپا ہوتے ہیں۔ مسلم خاتون کے حجاب کا احترام دراصل عورت کے وقار، مذہبی آزادی اور آئینی بالادستی کا احترام ہے۔ اگر آج اس احترام کو مضبوطی سے قائم کیا گیا تو یہی عمل ہندوستانی جمہوریت کی ساکھ کو تقویت دے گا اور اگر اس میں کوتاہی برتی گئی تو آنے والی نسلیں اسے ایک سنگین اخلاقی ناکامی کے طور پر یاد رکھیں گی۔ یہی وقت ہے کہ ہم بطور معاشرہ اور بطور ریاست یہ ثابت کریں کہ ہمارے لیے آئین محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ زندہ اقدار کا عہد نامہ ہے جس میں ہر عورت کی عزت اور ہر مذہب کی حرمت برابر محفوظ ہے۔