ہنومان چالیسہ کی آڑ میں ہندوتوائی دہشت گردی
تقریبا دو تین مہینوں سے اخبار پڑھنے کا شوق ہی مدھم پڑا جا رہا ہے۔ آپ جاننا چاہیں گے وجہ کیا ہے؟ تو سنیۓ! جیسے علی الصباح نماز و دیگر نجی کاموں سے فارغ ہونے کے بعد چائے نوشی کے ساتھ اخبار الٹتے ہیں سرخیاں کچھ یوں نظر آتی ہیں "حجاب سے جل اٹھا ہندوستان"، "حلال سے بائیکاٹ"، "مسلم تاجروں سے بائیکاٹ"، اب سرخیوں میں کچھ تبدیلی تو ضرور ہوئی ہیں، آج کل کی سرخیاں کچھ یوں ہیں "مساجد میں لگے لاؤڈ اسپیکر کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت"، "ہندو تنظیموں کا ہنومان چالیسا پڑھنے کا اعلان"، جیسے ہی ان سرخیوں پر نظر پڑتی ہے تو من نہیں کرتا کہ اخبار پڑھیں۔ بڑا افسوس بھی ہوتا ہے کہ جس دیس کو بلا تفریق ملت و مذہب ظالم و جابر انگریزوں کے شکنجوں سے آزاد کرانے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں دی گئی تھیں، جس کا نتیجہ کہیے کہ ہندوستان آزاد ہوا اور آج ہم آزادی کا جشن مناتے ہیں، لیکن مسٹر مودی ہندوستان کے وزیراعظم بننے کے بعد سے دیس میں 8 سال سے کوئی نہ کوئی تنازعہ ہوتا رہتا ہے۔ پتہ نہیں مودی اس کے ذمہ دار ہیں یا ریاستی سیاسی پارٹیاں؟؟
ایک طرف بڑی خوشی بھی ہوتی ہے کہ مسلم اسکالرز ان تمام پر آشوب حالات میں مسلم قوم کو صبر و تحمل کی تعلیم و تلقین کرتے ہیں۔ میں ڈاکٹر عمران رشادی کو مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس کے خطاب میں کہا کہ اگر مسجد و خانقاہ اور درگاہوں کے سامنے بھی شدت پسندوں ہندووادی آ کر ہنومان چالیسہ پڑھیں تو مسلمان جذباتی ہوکر ردعمل ظاہر نہ کریں اور نہ ہی ان کی بیجا کوششوں میں مزاحمت کریں اور نہ قانون ہاتھ میں لیں بلکہ پولیس کو اطلاع کریں اور ہو سکے تو ویڈیو گرافی کریں؛ تاکہ آگے کچھ قانونی کارروائی کی جا سکے۔ شدت پسند ہندو تنظیم سری رام سینا نے یہ اعلان کروایا ہے کہ مندروں میں لاؤڈ اسپیکروں کے ذریعے ایک دن میں تین مرتبہ ہنومان چالیسہ پڑھا جائے گا؛ صبح پانچ بجے، دوپہر ایک بجے اور شام پانچ بجے۔ اس کے لیے رام سینا نے ملک کی مختلف ریاستوں سے مدد و تعاون کی اپیل بھی کی ہے۔
ان روح فرسا حالات میں بھی ہندو بھائیوں نے اخوت و محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منگلور کی شدت پسند ہندو تنظیم "سری رام سینا" کی گزارش و اپیل کو مسترد کر دیا اور منگلور کے مندروں کی منتظمہ کمیٹی نے لاؤڈ اسپیکر پر ہنومان چالیسہ پڑھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریاستوں کے بھائی چارہ کو نقصان پہنچا کر حالات خراب کرنا نہیں چاہتے۔ اس اقدام پر مسلم و غیر مسلم تنظیموں کی طرف سے بنگلور کی منتظمہ کو مبارکباد پیش کی گئی۔
الحمد للہ! مسلم قائدین نے بھی اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ارباب حکومت سے پر زور اپیل کی کہ ریاست کے امن و امان میں بگاڑ و خراش پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کریں اور نوٹس لیں۔ ریاستی اسمبلی کے نائب اپوزیشن لیڈر عالی جناب پوٹی قادر نے بھی مسلمانوں سے اپیل کی کہ ان حالات میں پورے تحمل و بردباری کا مظاہرہ کریں اور کہا کہ پولیس دست آہین سے نپٹے گی مسلمان کوئی قانون ہاتھ میں نہ لیں۔
اور مزید کہا کہ صوتی آلودگی کے بارے میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ صادر کیا وہ صرف اذان پر منحصر نہیں بلکہ دیگر مذہبی و غیر مذہبی لاؤڈاسپیکر کے بیجا استعمال پر روک تھام کا اقدام ہے۔
سابق وزیر اعلی ایچ ڈے دیوے گوڑے نے کہا کہ مندروں میں ہر دن علی الصباح سپرابات ڈالا جاتا ہے، مساجد میں اذانیں ہوتی ہیں، آج تک کسی نے اس کو تنازعہ نہیں بنایا، کہیں پر بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، لیکن آج کل ریاستی سیاست دان اس مسئلہ کو کھینچ تان کر بتنگڑ بنا تے ہیں اور سیاسی دال گلانے کے لیے اس قسم کا ماحول پیدا کرنے کی سعی ناتمام کر رہے ہیں۔
آخر ہم تمام قارئین سے یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو اس کے رسم و رواج کے مطابق عمل کرنے کی اجازت ہے۔ کسی کو کسی پر کوئی سوال نہیں ہونا چاہیے۔ یہی جمہوریت کا معنی اور یہی آئینی حق ہے۔