مظلوموں کی حمایت کے بغیر اَمن وآشتی کا دعویٰ ایک چھلاواہے
قدیم زمانے کی بہ نسبت موجودہ عہد تعلیم وترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور کیا شہر، کیا گاؤں تعلیم وترقی نے تقریباً ہرجگہ اپنی روشنی بکھیر رکھا ہے۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی اِس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تعلیم وترقی کے نور سےجہاں بعض انسانوں نےاپنے تاریک قلوب کو منور اور پژمردہ اذہان کو زندہ کیا ہے وہیں تعلیم وترقی کی چکاچوندھ نے بعض انسانوں کو خودغرضی کی غار میں بھی ڈھکیل رکھا ہےاور وہ اِس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ اُنھیں اپنے مفاد وبرتری کے سوا کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا۔ اِس لیے ہمیں یہ کہنے کوئی جھجھک نہیں کہ ہم چاہے جس قدر تعلیم وترقی کی منزلیں طے کرلیں اور چاہے جس قدر تعلیم وترقی سےاپنے آپ کو مزین ومرصع کرلیں، جب تک ہمارے قلوب واذہان میں اِنسان دوستی اور خیرسگالی کا صادق جذبہ تناور درخت کی شکل اختیار نہیں کرےگا اُس وقت نہ تو ہمارا ترقی یافتہ ہونا مفید ہوگا اور نہ ہی ہمارا اَعلی تعلیم سے مزین ومرصع ہونا سودمند ثابت ہوگا۔ چناں چہ آج دنیا میں جس طرف بھی نظر اُٹھائی جائے تعلیم وترقی کے مظاہر ضرور دکھائی پڑیں گے لیکن تعلیم وترقی سے مزین ومرصع لوگوں کے اعمال وکردار دیکھنے کے بعد یہ محسوس کیے بغیر ہم نہیں رہ سکتے ہیں کہ آج بھی تعلیم وترقی سے مزین لوگ اُسی ذہنی دیوالیہ پن کے شکار ہیں جیسا کہ جاگیردار اور سرمایہ دار لوگ ہوا کرتے تھے۔ فرق صرف اتنا ہےکہ پہلے جاگیرداری اور سرماداری کا لبادہ پہنا کرتے تھے اور آج تعلیم وترقی کا چوغہ زیب تن کیے ہوئے ہیں۔ مزید واضح انداز میں کہاجائے تو یہ کہ شراب پُرانی ہے البتہ جام نیا ہے۔
موجودہ عہد میں تعلیم وترقی کی برق رفتاری سے کسے انکار ہوسکتا ہے لیکن اِس کے باوجود اِنسانوں کو جوڑنے کی بجائے اُنھیں توڑنے کی بات ہو رہی ہے، کیوں؟ انسانوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے اُسے نیست ونابود کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے، کیوں؟ حقوق انسانی کو بحال کرنے کی بجائے اُنھیں پامال کیا جارہا ہے، کیوں؟ ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل لینا چاہتی ہے، کیوں؟ اِس کا واحد مطلب یہی ہے کہ ہم لوگوں نے تعلیم وترقی تو حاصل کرلی ہے لیکن تعلیم وترقی کا اصلی مفہوم کیا ہے اُس سے ابھی تک یکسر ناآشنا ہیں۔ تعلیم وترقی سے مزین ومرصع ہونے کے بعد ہونا تو یہ چاہیےتھا کہ ٹوٹے ہوئے انسانوں کو جوڑا جائے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے آپسی اتحاد واتفاق کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ نیست ونابود ہوتے انسانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ کیوں کہ ایک جان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے جیسا ہے۔ حقوق انسانی کو پامال ہونے روکا جائے۔ کیوں ایسا کرنے سے امن وآشتی کی فضا بنتی ہے اور فتنہ وفساد کا خاتمہ ہوتا ہے۔ مزید تعلیم ترقی کے حصول کے بعد تو یہ بھی ہونا چاہیے کہ ہرمظلوم کی امداد کی جائے اوراُس کے ساتھ ہمدردی کا معاملہ کیا جائے، اور ایسا کرنے میں نہ کسی مذہب کا دخل ہو اور نہ کسی بھید-بھاؤ کا گزر ہو۔ یہاں یہ خیال ضرور رَہےکہ چاہے ہم جتنی بھی ترقی حاصل کرلیں اور چاہے جس قدر اپنی سیاسی اور ریاستی طاقتیں مضبوط کرلیں، لیکن جب تک ہم مظلوموں کی امداد منصوبہ بند طریقے سے نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم سیاسی وسماجی اور ریاستی کسی بھی سطح پر مضبوطی حاصل نہیں کرپائیں گے۔ اِس کی سیکڑوں مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ کیا آج ہم یہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ تعلیم وترقی اور جملہ سیاسی وریاستی طاقت وقوت رکھنے اور ایک تہائی سپرپاور ممالک کی حمایت حاصل ہونے کے باجود ایک معمولی اور نہتے جتھے کو بھی ہم خاموش نہیں کرپارہے ہیں اور تمام تر کوششوں اور آلات حرب کواِستعمال کرنے کے باوجود بےبس نظر آرہے ہیں۔ کیا اِس کے بعد بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں گی کہ کہیں نہ کہیں ہم سے خطا ہو رہی ہےاور وہ خطا یہی ہے کہ مظلوموں کی امداد کرنے کی بجائے ہم نے اُنھیں مشق ستم بنا رکھا ہے۔حالاں کہ ہمیں یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ مظلوموں کی حمایت وہمدردی اور اُن کی امداد کیے بغیر نہ تو اپنی سیاسی وریاستی ساکھ برقرار رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی دنیا میں امن وآشتی کا خواب شرمندۂ تعبیر کرسکتے ہیں۔
اگر واقعی ایمانداری کے ساتھ ہم امن وآشتی چاہتے ہیں اور دنیا کو پُرسکون دیکھنا چاہتے ہیں، تو تمام تر دنیا سے کنارہ کش ہوکر کچھ دیر کے لیے کامل ومکمل انسان حضرت پیغمبر کی چرنوں میں بیٹھنا ہوگا جن کا محتاج پوری انسانی برادری ہے۔بقول برناڈ شاہ:’’محمد(ﷺ) اِس وقت دنیا کے حاکم ہوتے تو دنیا میں اَمن قائم ہوجاتا۔‘‘ باوجودیکہ اِس وقت جناب محمد رسول اللہﷺ دنیا میں موجود نہ سہی لیکن اُن کے پیش کردہ اُصول تو بے کم وکاست موجود ہیں۔ اُن کے اُصولوں کو بھی اگر ہم اہل دنیا راست بازی کے ساتھ حاکم مان لیں تو وہ سارے فتنے ختم ہو سکتے ہیں جن کی آگ سے آج نسل انسانی کا گھر جہنم بنا ہوا ہے۔ آپ ﷺ مظلوموں کے سلسلے میں کس قدر ہمدردی اور خیرسگالی کا جذبہ رکھتے ہیں اِس کا اندازہ 590ء میں طے ’’حلف الفضول معاہدہ ‘‘سے لگایا جاسکتا ہے۔ اِس معاہدے میں جو قیمتی دفعات تھے وہ یہ ہیں:(1)اہل مکہ مظلوموں کا ساتھ دیں گے، خواہ وہ کسی قبیلے کے ہوں، یہاں تک کہ اُن کا حق ادا کیا جائےگا۔ (2)ملک میں ہر طرح کا امن و امان قائم کریں گے۔(3)مسافروں کی حفاظت کریں گے۔ (4)غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔ (5)کسی ظالم / غاصب کو مکہ میں نہیں رہنے دیں گے۔ موجودہ عہد میں بھی اِن دفعات کی اہمیت جوں کا توں بر قرار ہے کہ اہل دنیا آج بھی اِن دفعات پر ایمانداری سے عمل کرلیں تو پوری دنیا خوشحالی اور خیرسگالی کے جذبے سے سرشار نظر آئے گی۔
القصہ! موجودہ عہد کے سپرپاور ممالک اور سربراہان مملکت اگر واقعی اَمن وآشتی کے خواہاں ہیں، انسان دوستی کے متمنی ہیں اور مظلوموں کو ظالمو ں کے ظلم سے نجات دلانا چاہتے ہیں، تو وہ سبھی حلف الفضول معاہدے میں مذکور دَفعات پر متفق ہوجائیں، ان دفعات کو اپنی اپنی مملکت کا حصہ بنالیں۔ مظلوموں کے حقوق کی پامالی سے باز آجائیں اور اُن کی امداد کو اپنی زندگی کا حصہ بنالیں تو لاریب ہم سب کی دنیا امن وچین اور اخوت ومحبت کی گہوارہ نظر آئےگی۔ ورنہ یاد رکھیں کہ مظلوموں کو نظر انداز کیے بغیر امن وآشتی کے لیے ہماری تمام تر کوششیں بیکار ثابت ہوں گی۔