ماہ صفر خیالات ونظریات

    اسلامی کیلنڈر کے بارہ مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ماہِ صفر المظفر ہے۔ مذہب اسلام کی رُو سے دیگر مہینوں کی طرح ماہ صفر بھی اپنا دامن شادی بیاہ، سفر وسیاحت، خرید وفروخت نیز دیگر جائز امور کے لیے وسیع کئے ہوئے ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں باشندگان عرب اس ماہ کو منحوس سمجھتے تھے، نیز آسمانوں سے بلاؤں اور مصیبتوں کے نزول کا تصور ان کے ذہن وفکر میں سمایا ہوا تھا۔ مگر دامن اسلام سے وابستہ حضرات نے اس مہینے کو 'صفر المظفر' اور 'صفر الخیر' (کامیابی اور بھلائی کا مہینہ) کے نام سے متعارف کرایا۔

وجہ تسمیہ

صفر کا معنی خالی ہونا ہے، چونکہ ماہ صفر سے پیش تر مسلسل تین مہینے: ذو القعدہ، ذو الحجہ، اور محرم الحرام حرمت والے ہیں۔ مذکورہ مہینوں میں اہل عرب جنگ وجدال، قتل وغارت گری سے اجتناب کرتے، مگر جب یہ حرمت والے مہینے گزر جاتے تو اہل عرب رختِ سفر باندھ لیتے یا میدانِ جنگ وجدال کا عزم کرلیتے، بایں سبب ان کے گھر خالی ہوجاتے تھے، نتیجتاً اس مہینے کو ماہ صفر سے یاد کیا جانے لگا، جیسا کہ اہل عرب اسی معنی کو ادا کرنے کے لیے بولتے ہیں 'صفِر المکان' (مکان خالی ہوگیا)۔

ماہ صفر میں لوٹ مار، قتل وقتال، چوری ڈکیتی کی بہتات تھی مزید برآں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ماہ محرم کو ماہ صفر قرار دے دیتے پھر کسی دوسرے مہینے کو ماہ محرم مان لیتے، اس طرح وہ حلت کو حرمت اور حرمت کو حلت والا مہینہ قرار دے کر جرم عظیم کا ارتکاب کرتے، جب انہیں اپنے کرتوتوں کے سبب مصائب وآلام کا سامنا ہوا تو یہ فاسد نظریہ قائم کرلیا کہ صفر منحوس مہینہ ہے ۔ پھر دورِ جاہلیت کے یہ نظریات نسل درنسل منتقل ہوتے رہے یہاں تک کہ اب بھی  بعض ذہنوں میں یہ فاسد نظریات پروان چڑھ رہے ہیں۔ حالاں کہ اللہ کے رسولﷺ نے 'لا صفر' فرماکر تمام باطل عقائد ونظریات کا قلع قمع فرما دیا تھا۔

تیرہ تیزی اور مہینے کا آخری بدھ

تیرہ تیزی یعنی صفر المظفر کے ابتدائی تیرہ تاریخوں اور اسی ماہ کے آخری بدھ کے متعلق عوام الناس نے کئی خلاف شرع باتیں گڑھ لی ہیں، جس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:  "ماہ صفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور ان کو تیرہ تیزی کہتے ہیں یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ (بہار شریعت ج٣، ح١٦، مسئلہ٣٨)

 یوں ہی بعض حضرات ماہ صفر کے آخری بدھ کو سرور ومستی اور مسرت و شادمانی کا دن سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم تاجدار مدینہ ﷺ کو اسی روز شفا ملی تھی اور غسلِ صحت فرمایا تھا۔ حضور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان سے آخری بدھ کے متعلق سوال ہوا کہ: ماہ صفر کے آخر چہار شنبہ کو عورتیں بطور سفر شہر سے باہر جائیں اور قبروں پر نیاز وغیرہ دلائیں جائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا

الجواب : ہرگز نہ ہو سخت فتنہ ہے۔ اور چہار شنبہ(بدھ کا دن منانا) محض بے اصل ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔

(فتاوی رضویہ، کتاب الحظر، ج٢٢)

نحوست معصیت میں ہے

کائنات کی ہر ہر شے کی تخلیق اللہ ربّ العزت نے فرمائی ہے، یوں ہی جملہ اوقات، تمام مہینے بھی اللہ ربّ العزت کے زیر تخلیق رونما ہوئے۔ فرمان باری تعالی ہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا...بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہے. اللہ جل جلالہ نے اپنی تخلیق کردہ کسی بھی وقت اور  مہینے پر منحوسیت کا لبادہ نہیں اڑھایا۔ بلکہ جس مہینے یا دن کو فرائض، واجبات اور سنن کی ادائیگی میں گزارا جائے وہ دن رحمت وبرکت کا منبع و سرچشمہ ہوتا ہے۔ ہاں!  جس دن کو مذکورہ چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر معصیت و نافرمانی میں صرف کیا جائے تو وہ دن نحوست اور آفات و بلیات کا متقاضی ہوتاہے۔ پتہ چلا کہ نحوست انسان کے افعالِ بد کے سبب ہے نہ کہ اوقات کے سبب۔ قرآن پاک میں ہے: وَ مَاۤ اَصَابَکُمۡ مِّنۡ مُّصِیۡبَۃٍ  فَبِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ یَعۡفُوۡا عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿پ٢٥، سورة الشورى آيت۳۰﴾ ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے۔

لہذا جب انسان کسی بلا وآزمائش میں مبتلا ہو یا کوئی مصیبت وآفت دستک دے تو زمانہ اور وقت پر الزام نہ لگائے بلکہ اپنے افعال واعمال کا محاسبہ کرے، بدشگونی اور غیر ضروری رسم ورواج سے اجتناب کرے، گناہوں سے توبہ کرے، ترکِ معصیت کا عزم مصمم کرے، افعال خیر کی انجام دہی کا التزام کرے۔ ان شاء اللہ! دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔۔۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter