مسلم معاشرے کو مؤمن قائدین کی ضرورت ہے (پہلی قسط )
بعض لوگوں کی یہ کج رفتاری و ناہنجاری ہے کہ دین کو دنیا سے الگ گردانتے ہیں جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات اور دستور العمل ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق رہنمائی موجود ہے ۔ جہاں تک حکمرانی اور حکومت کا تعلق ہے اسلام طوائف الملوکی اور ایسی طرزِ حکومت کے خلاف ہے جو عوامی مسائل اور ان کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر صرف حزب اقتدارکے مفادات کا تحفظ کرتی ہو۔ اسی لیے دین اسلام نے حاکم کے لیے عالم، عادل، مدبرِ امور دین و دنیا کی شرط لگائی ہے تاکہ وہ ملک و قوم کے تمام طبقات کے مفادات کے لیے کام کرسکے۔ اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فساد سے دور ہوجائیں۔ جس کو قرآن حکیم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے نام سے یاد کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم حاکم وقت کے لیے دولت و ثروت کے بجائے علم وشجاعت کو ضروری قرار دیا چونکہ حاکم وقت کے پاس علم ہوگا تو اچھائیوں کا حکم دیگا اور شجاعت و طاقت ہوگی تو برائیوں سے روکنے میں کامیاب ہوگا۔
لیکن آج اس ترقی یافتہ دورکا انتہائی تاریک پہلو یہ ہے کہ بعض کج فہم قائدین اپنے جھوٹے اور فانی رعب و دبدبے کو برقرار رکھنے لیے اپنے اطراف و اکناف غیر سماجی عناصر کا حلقہ بنائے رکھتے ہیں جس کی وجہ سے عوام کی ان تک رسائی مشکل مرحلہ بن جاتی ہے اور درمیانی لوگ اس قربت کا بیجا استعمال اپنے ذاتی مفادات کے لیے کرتے ہیں جس کے سبب حقدار اپنے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ قائدین کی یہ روش اسلامی تعلیمات اور انسانی فطرت کے بالکل مغائر ہے چونکہ اس سے ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے جبکہ اسلام نہ صرف مظلوموں کی فریادرسی اور معاونت کرنے کا اپنے پیروکاروں کو حکم دیتا ہے بلکہ ظالم کو ظلم سے روکنے کی بھی تاکید فرماتا ہے۔ رحمت عالمﷺ ارشاد فرماتے ہیں’’اپنے بھائی کی معاونت کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم‘‘ (بخاری) صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ مظلوم کی مدد کرناسمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی کس طرح مدد کریں تب آپ ﷺ نے فرمایا ظالم کو اس کے ظلم سے بازر کھنا اس کی مدد کرنے مترادف ہے۔
انسان غیر سماجی عناصر کی مدد سے دنیا میں وقتی طور پر فوائد تو حاصل کرسکتا ہے لیکن بروز قیامت وہ کف افسوس ملتا رہ جائے گا ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے’’ اور اُس روز ظالم (فرطِ ندامت سے) کاٹے گا اپنے ہاتھوں کو (اور) کہے گا کاش! میں نے اختیار کیا ہوتا رسول (مکرم) کی معیت میں (نجات کا) راستہ ہائے افسوس! کاش نہ بنایا ہوتا میں نے فلاں کو اپنا دوست‘‘ (سورۃ الفرقان آیات 27-28) قائدین کا کام ظلم کو بڑھاوا دینانہیں بلکہ عوام الناس کو ظلم و زیادتی سے بچانا، انہیں راحت پہنچانا اور ان کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ مؤمن قائد اس لیے ظالم نہیں ہوسکتا چونکہ وہ جانتا ہے کہ آج میں لوگوں کے لیے آسانیاں فراہم کروں گا تو اللہ تعالی میدان قیامت میں میری مشاکل کو آسان فرمادے گا ۔ حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ سے مروی ہے تاجدار کائناتﷺ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص دنیا میں اپنے بھائی کی مشکلات کو دور کرتا ہے اللہ تعالی بروز قیامت اس کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا‘‘ (بخاری شریف) ۔
جس طرح فرعون نے انسانی معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کردیا تھا عصرِ حاضر کا ترقی یافتہ دوربھی اسی نحوست کا شکار ہے۔یعنی انسان آج بھی امیری و غریبی اور اونچ نیچ کے غیر انسانی خانوں میں بٹا ہوا ہے جس کا اسلام سختی سے مخالف ہے چنانچہ اس خرافاتی طرزِ فکر کو باطل قرار دیتے ہوئے رب کائنات ارشاد فرماتا ہے ’’ کیا وہ بانٹا کرتے ہیں آپ کے رب کی رحمت کو؟ ہم نے خود تقسیم کیا ہے ان کے درمیان سامانِ زیست کو اس دنیوی زندگی میں اور ہم نے ہی بلند کیا ہے بعض کو بعض پر مراتب میں تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں‘‘ (سورۃ الزخرف آیت 32) اس آیت پاک میں پہلی بات یہ بیان کی گئی کہ انسان کا حاکم یا محکوم، غالب یا مغلوب ،قاہر یا مقہور، مطاع یا مطیع بننا من جانب الہی ہے اس فرق و اختلاف، تفوق و امتیازات میں انسان اور اس کی فطری، ذہنی اور اختراعی صلاحیتوں کا کو کوئی دخل نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ بیان کی گئی کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت اس لیے نہیں دی کہ لوگ مال و دولت، تزک و احتشام ، منصب و اقتدار، خوب صورت لباس و عالیشان محلات کو انسانی اقدار کا معیارسمجھنے لگیں یا حاکم اپنے اقتدار کے نشے میں مست ہوکر محکوم افراد کو تابع فرمان بناکر ان کا استحصال کرے اور خود غرور و تکبر کا شکار ہوجائے یا پھر محکوم اپنی خودداری کو بالائے طاق رکھ کرچاپلوسی کی زندگی گزارے بلکہ یہ تفاوت درجات اس لیے ہے کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کی استعداد اور صلاحیتوں سے وقت ضرورت بہر مند و مستفید ہوں تاکہ انسانوں کے درمیان جذبۂ معاونت اور الفت و محبت کا اٹوٹ رشتہ قائم رہے۔
اور ایک مقام پر فرمایا گیا ’’اور وہی ہے جس نے بنایا تمہیں (اپنا) خلیفہ زمین میں اور بلند کیا ہے تم میں سے بعض کو بعض پر درجوں میں تاکہ آزمائے تمہیں اس چیز میں جو اُس نے تمہیں عطا فرمائی ہے‘‘ (سورۃ الانعام آیت 166) یعنی انسانوں کے درمیان ارزاق و اخلاق، افضال و اکرام، محاسن و معائب، عادات و اطوار، اشکال و الوان اور مناصب و مراتب میں پائے جانے والے فرق کی حکمت و غایت صرف آزمائش و ابتلا ہے کہ کون حسنِ عمل بجالاکر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے اور کون سرکشی و نافرمانی میں مبتلا ہوکر دنیاو آخرت کو تباہ و تاراج کرلیتا ہے۔ مالدار کو اس کی تونگری میں آزمایا جاتا ہے اور اس سے کل بروز قیامت شکر کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ آیا وہ دولت و ثروت کی وجہ سے غرور و تکبر کا شکار ہوگیا تھا یا پھر شکر بجالاکر عجز و انکساری کا برتائو کرتا تھا۔ محتاج کے لیے فقر و ناداری اس کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور اس سے بروز محشر صبر کے متعلق سوال کیا جائے گاکہ آیا وہ مصائب و آلام سے گھبراکر گناہوں کے ارتکاب میں ملوث ہوگیا تھا یا پھر ہماری رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا تھا۔ جن حکمرانوں کے دل نورِایمانی سے محروم ہوتے ہیں ان کا اکثر یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنی ساکھ اور اقتدار کو بچانے کے لیے عوام الناس میں منافرت کی میں آگ میں ڈھکیل کر اپنے آشیانیوں کے لیے روشنی فراہم کرنے کا سامان کرتے ہیں۔ ایسے ہی جابر و ظالم حکمرانوں کے شبستانوں کے سایوں میں انسانیت سسکتی رہتی ہے، انہی کے عشرت کدوں سے گناہوںاور عیش پرستی کو بڑھاوا ملتا ہے اور یہ مومنانہ صفت کے بالکل برعکس عمل ہے۔
ہادی اعظمﷺ ارشاد فرماتے ہیں ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں‘‘ (مسلم شریف) چونکہ جو شخص کسی فرد کا اپنے قول یا عمل سے دل توڑدیتا ہے اسے خدا کی معرفت کبھی نہیں ملتی۔ بد زبانی سے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور بد اخلاقی سے ایمان خطرے میں پڑھ جاتا ہے۔ لیکن اس احساس کی دولت سے محروم عصرِ حاضر کے رہنما اپنی کرسیوں کے کھیل میں غربا و مساکین کی عافتیوں سے کھیل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہر سو مایوسی کا عالم ہے جو انسان کی روح کے لیے سم قاتل ہے۔ اور جب انسان کی روح مر جاتی ہے کہ وہ مردوں سے زیادہ بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مؤمن قائد وہ ہوتا ہے جو محروم و مظلوم افراد کے درد سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ خلیفہ چہارم حضرت علیؓ ارشاد فرماتے ہیں تم میں بہترین شخص وہ ہے جو کسی کے لیے روئے اور بدترین شخص وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی روئے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آج کے قائدین کی ذمہ داری اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے مفادات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے عوام الناس اور ان کے مسائل اور حل سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے لیکن یہ ایک مومن قائد ہی کی نشانی ہوسکتی ہے کہ وہ اقربا پروری کے جال سے نکل کر مظلوموں کی فریادرسی کرے جیسا کہ حضرت سیدنا موسیؑ نے فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے ’’ وہ شہر میں داخل ہوئے اُس وقت جب وہ بے خبر سو رہے تھے اس کے باشندے۔ پس آپ نے پایا وہاں دو آدمیوں کو آپس میں لڑتے ہوئے یہ ایک ان کی جماعت سے تھا اور یہ دوسرا ان کے دشمنوں سے پس مدد کے لیے پکارا آپ کو اس نے جو آپ کی جماعت سے تھا اس کے مقابلے میں جو آپ کے دشمن گروہ سے تھا تو سینہ میں گھونسا مارا موسی نے اس کو اور اس کا کام تمام کردیا‘‘ (سورۃ القصص آیت 15)
(بقیہ آئندہ)