رمضان المبارک اور اہل غزہ کی سسکیاں

 

عنوان ہی سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ہم کیا لکھنا چاہتے ہیں۔ ہماری نفسانی کیفیت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی ہے کہ ہم کچھ سپردِ قرطاس کریں۔ لیکن دل تو تڑپ رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھ کر اپنے دل میں اسرائیلی جارحیت و بربریت کے تئیں جو بھڑاس ہے اسے نکال دیں ایسے دل کا درد بھی کم ہو جائے گا اور بوجھ بھی ہلکا ہو جائے گا۔ رمضان کی آمد آمد ہے۔ دنیا بھر میں خوشیوں کا سماں ہے۔ مسجدوں سے  لے کر محلوں تک بہار ہی بہار ہے۔ کہیں افطار کی تیاریاں ہیں تو کہیں سحری کا شور شرابہ، یہ سب کچھ ہمارے یہاں موجود ہیں۔ لیکن ہمارے ہی بھائی بہن فلسطین میں بھوک وپیاس کی شدت میں تڑپ رہے ہیں۔ آبادیاں کھنڈر میں تبدیل ہو گئیں۔ معصوم بچوں کو سفاکانہ طور قتل کیا جارہا ہے۔ ہزاروں گھر ویران ہوگئے۔ لاکھوں خاندان اجڑ گئے۔ مساجد مسمار کردیے گئے۔ اسپتال بمباری کرکے تخت وتاراج کردیے گئے۔ غزہ جو کل تک انسانی آبادی سے لہلہاتے چمنستان کی طرح تھا آج شہر خموشاں بن گیا۔ لہو میں تڑپتے معصوم وبے گناہ بچوں کی تصویریں دیکھ دیکھ کر دل چھلنی ہوگیا ہے۔ جب ان بے گناہ و معصوم بچوں کی سسکیاں سنتے ہیں تو کلیجہ منہ کو نہیں باہر آنا  چاہتا ہے۔ جسم کا انگ انگ درد وکرب سے بلبلا رہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ اب  ہمارا اس دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ کوئی ہمارے زخموں پر مرہم لگانے والا نہیں رہا۔ کوئی ہمارے درد کا مداوا کرنے والا مسیحا نہیں رہا۔ کوئی ہمارا غمخوار وغمگسار نہیں رہا۔ کہنے کو تو ساٹھ سے زائد اسلامی ممالک ہیں۔ متعدد مسلم حکمران ہیں۔ بیت المال کے خزانے بھرے پڑے ہیں۔ لیکن ہماری شامت کہیے کہ ہمارا اپنا کوئی نہیں رہا۔ یہ ایک غزہ کی بچی کی سسکیوں کے ساتھ نکلے ہوئے دبے الفاظ تھے۔

ہم افطاری کے دسترخوان پر بیٹھ کر خوب مزے سے تازے پھلوں سے  لے کر مرغ مسلم تک چٹ کررہے ہیں۔ وہاں ہمارے فلسطینی بھائی بہنوں کو سوکھی روٹی تک میسر نہیں۔ سحریوں میں ہم خوب قیمہ وکباب ہضم کر رہے ہیں وہاں دو گھونٹ پانی تک میسر نہیں۔ یہ مبالغہ آرائی نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے۔ اور ایسی حقیقت جس کا مجھے اور آپ کو جواب دینا ہے۔ جب اسرائیلی جارحیت شباب پر تھی تب ہم سڑکوں پر اتر کر اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کی بات کررہے تھے۔ اور چند دن تک گھڑیالی آنسو بہارہے تھے۔ پھر کیا وہی پرانی روش۔ اس سال غزہ کے لوگوں کی اکثریت کے لیے رمضان استقبال، روایتی خوشیوں اور اس ماہ کی شایان شان تیاریوں کے بغیر ہی گزرے گا۔وہاں خوشیاں نہیں خموشیاں کچھ سرگوشیاں کر رہی ہیں۔ دبے دبے الفاظ ہم سے کچھ مطالبہ کررہے ہیں۔ غذا کی اتنی قلت کہ فلسطینی بچے  کچرے اور ملبے میں کھانے کی اشیاء تلاش کر رہے ہیں۔ یہ سب حیطۂ تحریر میں لاتے وقت آنسوؤں کا ایک قطار جاری ہے۔ یہ اتنا بھی آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔ یہ تو رمضان کی بات ہے تو سوچیں عید کا کیا عالم ہوگا بیکل اتساہی  نے کیا خوب کہا کہ

افلاس کی آنکھوں سے چھلک جائیں گے آنسو

کاہے کو کوئی تذکرۂ عید کرے ہے

کچھ بد قماش سمجھتے ہیں کہ ان حالات کو لکھ مار کر کیا فائدہ تو وہ سن لیں کہ کم سے کم ان درد مندوں کے درد میں تحریری طور پر تو ہمدردی ہوگی۔ یہ سوچ ہی تمہاری بد اطواری کی روشن دلیل ہے۔ اس درمیان کچھ  بد معاش مولویوں کو سنا جو من گھڑت توحید کے قصے سناکر امت کے اتحاد واتفاق کو تار تار کر رہے ہیں کہ فلسطینی ایمان سے عاری ہیں اس لیے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کاش ان دریدہ ذہنوں اور مریض العقلوں کو انسانیت ہوتی تو ایسی بکواس نہیں کرتے۔ یہی بد اطوار فرقہ واریت کی بھی بات کہتے ہیں اور امت مسلمہ کو جوڑنے کے بجائے توڑ رہے ہیں۔ بات آگئی تو ہم نے کہہ دی۔

نہ تم صدمے ہمیں دیتے نہ ہم فریاد یوں کرتے

نہ کھلتے راز سربستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

رمضان کے شروعات میں ہم نے ایک معصوم اور درد والم سے ماری ایک ماں کا روح فرسا ویڈیو دیکھا تھا۔ شاید کہ آپ بھی دیکھے ہوں اور پڑھا بھی ہوں۔ ویڈیو میں سہام حسین نامی ایک نڈھال ماں اپنے خیمے کے سامنے پریشان بیٹھی ہیں اور کسی بھی سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔غزہ کی رہائشی چھ بچیوں کی ماں سہام حسین سے سوال پوچھا گیا کہ ’آپ اس سال رمضان کی تیاری کیسے کر رہی ہیں؟‘ تقریباً ایک منٹ کی خاموشی کے بعد انھوں نے مختصر جواب دیا کہ ’کاش اس سال غزہ میں رمضان نہ آتا۔‘ یہ ایک سہام حسین کی حسرت نہیں بلکہ ہزاروں اجڑے بکھرے فلسطینییوں کا درد والم ہے۔ جیسے ایک انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔ غزہ کے جو مسلمان پہلے ہی سے دن میں ایک وقت کی خوراک کے لیے مارے مارے پھر رہے ہوں وہ رمضان المبارک کا اہتمام کیسے کریں گے؟؟؟؟۔ یہ ایک بڑا سوال ہے اور المیہ بھی۔ ماؤں کو کھانے کے لیے کھانا نہیں ہے جس سے بچوں کو دودھ کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کو ایک وقت کا کھانا کھلانے کے لیے فلسطینی خاندان کے بڑے فاقہ کشی وقحط سالی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ کاش قیامت قائم ہوجاتی تو اچھا ہوتا۔ ہم نے اوپر ایک ماں کا درد بیان کیا۔ اس بوڑھے باپ کا درد بھی سن لیجیے جو علاقہ رفح کا باشندہ ابو شدی العشر ہے۔ وہ کہتے ہیں ہمارے پاس رمضان کے لیے ہر چیز کی کمی ہے اور اس بار ہم صرف صبر کے ساتھ مقدس مہینے کا استقبال کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں۔ یہ کوئی تخیلاتی افسانہ یا شاعر کی فکری دنیا کی تخلیق نہیں بلکہ ایک سچی حقیقت ہے جس کا انکار ہمارے لیے ننگ وعار ہے۔

ہمارے مضمون کے دو پہلو ہیں ۔ایک رمضان دوسرا اہل غزہ ہم نے اس مضمون میں صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ کیونکہ دوسرا پہلو تو ہر کوئی جانتا ہے۔ کسی کے ذہن میں  یہ سوال آسکتا ہے کہ دوسرا پہلو بھی کافی پڑھا اور سنا گیا ہے۔ لیکن محسوس نہیں کیا گیا ہے اس لیے ہم نے اس پہلو کو زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی تاکہ سینے میں دل رکھنے والے احباب اہل غزہ کے درد کو اپنے نہاں خانوں میں محسوس کریں۔ یہ مہینہ درد مندوں کے آنسو پونچھنے والا مہینہ ہے۔ حدیث کی رو سے شہر المواساۃ یعنی غمخواری وغمگساری اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔ اس لیے چاہیے کہ رمضان کے اس مہینہ میں ہم اہل غزہ وفلسطینی بھائیوں کو یاد کرکے ان کے درد کو محسوس کرکے ان کےحق میں دعا کریں۔ اگر ہوسکے تو ریلیف پہچانے کی کوشش میں لگے رہے۔ الحمدللہ ثم الحمدللہ چند دن پہلے ہندوستان سے مدرسہ تاج الشریعہ، گجرات والوں  نے مصر کے ذریعے اپنا ریلیف پہچانے کی کوشش کی۔ اللہ انہیں اجر جزیل عطا فرمائے۔ اس سال ۱۵۰؍ دنوں میں ۳۰؍ ہزار سے زائد اہل غزہ شہید اور ۷۱؍ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ سب گزشتہ پانچ ماہ سے زائد عرصہ سے جاری ہے اور عالمی برادری اسرائیلی جارحیت کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ نيز ہمارے مسلم حکمران اسلامی ممالک میں شراب خانے اور جوا کے اڈے افتتاح کر نے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں ہم دل کی اتاہ گہرائیوں سے جنوبی افریقہ کی حکومت اور ارباب حکومت کو مبارکباد پیش کرنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے عالمی عدالت میں جینوسائڈ (نسلی تطہیر، نسلی صفایہ) کیس داخل کیا اور اب نئے سرے سے گزارش کی ہے کہ نئے واقعات کے پیش نظر نئی تدابیر اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سلام ہے جنوبی افریقہ کی حکومت کو جنہوں نے آگے بڑھ کر اسرائیل کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی۔ اللہ انہیں اس اقدام میں کامیابی عطا فرمائے۔ آخیر میں ہم جملہ قارئین سے اپیل کرتے ہیں کہ اس رمضان کو عیاشیوں میں نہ گزاریں بلکہ انسانیت کے ناطے فلسطینیوں کو نظروں کے سامنے رکھ کر اپنے حالات سدھارنے کی کوشش کریں اور رمضان کے تمام انوار وبرکات سے مالامال ہوں۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter