شب قدر : امت مسلمہ کے لیے سوغات ربانی

ایسے تو رمضان المبارک کے پورے مہینے میں انعامات الہیہ کی موسلادھار بارش ہوتی رہتی ہے۔ رمضان کی سب سے بڑی عظمت یہی ہے کہ اسی مبارک مہینے میں اللہ تبارک وتعالی کا کلام پاک نازل ہوا۔ جیسے کہ قرآن کہتا ہے۔ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی ہے اور فیصلے کی روشن باتوں پر مشتمل ہے۔(بقرہ :185) اب اس سے بڑی عظمت وشرافت اور کیا ہوسکتی ہے۔ قرآن کریم کے نازل ہونے کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔ پھر مکمل قرآن کریم رمضان المبارک کی شب ِقدر میں لوح محفوظ سے آسمانی دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا۔ پھر وہاں سے حسب حاجت تیئیس سال کے طویل عرصے میں حضور کشور رسالت ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ تو گویا نزول قرآن مجید کی وجہ سے  ماہ رمضان کو بھی عظمت نصیب ہوئی اور یوں ہی شب قدر کو بھی قرآن سے عظمت حاصل ہوئی۔ آج اسی عظمت ورفعت اور شان و شوکت والی رات کے فضائل حیطۂ تحریر میں لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ وہ رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل واعلی، ارفع وبالا ہے۔

خود منزل من اللہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی شب قدر کے تئیں بیان کرتا ہے۔ "بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا، اور تم نے کیا جانا  شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر، اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے، وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک(قدر)-

شب قدر کی عظمت کی وجہ صاف اور شفاف لفظوں میں قرآن نے بیان کردیا کہ اسی رات میں قرآن مجید کا نزول ہوا۔ اسی نزول کی وجہ سے فرشتے اور فرشتوں کے سردار حضرت جبرئیل بھی نازل ہوتے ہیں۔ جیسے کہ سرکار دو جہاں ﷺ فرماتے ہیں۔ جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں  کی جماعت میں  اترتے ہیں  اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں  دیتے ہیں  جو اللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (شعب الایمان)-

احادیث نبویہ کی روشنی میں شب قدر کے فضائل:

جس طرح قرآن نے اس رات کی عظمت وشرافت کو بیان کیا اسی طرح امام الانبیاء ﷺ نے بھی اس شب کے فضائل وجلائل کو بیان فرمایا۔  لیلۃ القدر میں کل نو حروف ہیں اس کی  مناسبت سے ہم یہاں نو حدیثیں نقل کرتے ہیں۔

1- حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول ُاللّٰہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے اس رات میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تو اللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ) گناہ بخش دیتا ہے (بخاری)-

2- حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا توحضور پُرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے، جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ تمام نیکیوں  سے محروم رہا اور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے ( ابن ماجہ)-

3- حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں  فرمائی (مسند فردوس)-

4- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص لیلۃ القدر میں قیام کرے اور اس کو پا لے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے (مسلم)-

5- حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ثقہ (یعنی قابل اعتماد) اہل علم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو سابقہ امتوں کی عمریں دکھائی گئیں یا اس بارے میں جو ﷲ تعالیٰ نے چاہا دکھایا تو آپ ﷺ نے اپنی امت کی عمروں کو چھوٹا خیال فرمایا کہ وہ کم عمری کی وجہ سے اس قدر کثیر اعمال نہ کر سکیں گے جس قدر دیگر امتوں کے افراد اپنی طوالتِ عمری کی وجہ سے کر پائیں تھے. تو ﷲ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے (مؤطا امام مالک)-

6- حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ (رات) ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے۔ اس رات کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ بے شک یہ رات طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں میں سے کوئی ایک یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں (معجم الطبرانی) -

7- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں، اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے پر جو اللہ کا ذکر کرتا ہے، سلام بھیجتے ہیں (شعب الایمان للبیہقی)-

 8- حضرت کعب أحبار فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی کچھ ساعتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے فرض نمازیں بنائیں، اور دنوں کو منتخب کرکے اُن میں سے جمعہ بنایا، مہینوں کو منتخب کرکے اُن میں سے رمضان کا مہینہ بنایا، راتوں کو منتخب کرکے اُن میں سے شبِ قدر بنائی اور جگہوں کو منتخب کرکے اُن میں سے مساجد بنائی (شعب الایمان)-

 9- اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ! اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں ؟‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی)

شب قدر کی وجہ تسمیہ: اس مقدس وبابرکت رات کو قدر رکھنے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ جن میں ہم چند اہم وجوہات پیش کریں گے۔

1-لَیْلَۃُالْقَدْر اِس لیے کہتے ہیں کہ اِس میں سال بھر کے اَحکام نافذ کیے جاتے ہیں اور فرشتوں کو سال بھر کے کاموں اور خدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں پرشرافت وقدر کے باعث اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں نیک اَعمال مقبول ہوتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں ان کی قَدر کی جاتی ہے اس لیے اس کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں (تفسیر خازن)-

2-امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں ‘چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لیے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے (تفسیر قرطبی) -

3- امام ابوبکر الوراق قدر کہنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے‘ اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا (قرطبی) -

4- قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے (تفسیر خازن)-

5- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب‘ قابل قدر امت کے لیے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی‘ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے (تفسیر رازی)-

 

شب قدرکب ہے اور اسے پوشیدہ کیوں رکھا گیا؟

شب قدر کب ہوگی تو اس کا جواب سرکار دوجہاں ﷺ فرماتے ہیں کہ شَبِ قَدْر کو رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عَشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو“ (بخاری)- یعنی آخری عشرے کے طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائسویں اور انتیسویں) میں تلاش کریں۔ اسی وجہ سے عموماً ہندوستان کے اکثر علاقوں میں ان طاق راتوں کا خوب انتظامات کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے۔ پھر خاص  کسی طاق رات کے سلسلے میں کافی اختلاف ہے۔ مگر بعض علماء فرماتے ہیں کہ ستائسویں شب  کو شب قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔ ان علماء کی دلیلیں کچھ اس طرح ہے:

1- حافظ ابن حجرعسقلانی رحمۃُ اللہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جمہور علماء ستائیسویں شب کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کہتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضیَ اللہُ تعالٰی عنہُما فرماتے ہیں کہ اللہ تعالٰی کا پسندیدہ عدد طاق ہے اور طاق اعداد میں سا ت کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے سات زمینیں، سات آسمان بنائے، سات اعضاء پر سجدہ مَشْروع (یعنی اس کا حکم) فرمایا، طواف کے سات پھیرے مُقَرَّر کیے، ہفتے کے سات دن بنائے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ سات کا عدد زیادہ پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخری عشرے کی ساتویں رات ہونی  چاہیے (فتح الباری)-

2- بعض علماء کے نزدیک  رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شبِ قدر ہوتی ہے اور یہی حضرتِ امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ( تفسیر نسفی)-

 3-سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ستائیسویں کو شب قدر قرار دیتے ہوئے تین دلیلیں بیان کیا کرتے تھے۔ جس کو امام رازی رحمة اللہ علیہ نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔ (الف) لفظ لیلۃ القدر کے 9 حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ 27 ہو گا۔ (ب) سورۃ القدر کے کل 30 الفاظ ہیں، جن کے ذریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورہ میں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ’’ھِيَ‘‘ ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورہ کا ستائیسواں لفظ ہے۔ (ج) سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے شب قدر کی تعین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ تعالی کو طاق عدد پسند ہے اور طاق عددوں میں سے بھی سات کے عدد کو ترجیح حاصل ہے‘ کیونکہ اللہ تعالی اپنی کائنات کی تخلیق میں سات کے عدد کو نمایاں کیا ہے مثلاً سات آسمان‘ سات زمین‘ ہفتہ کے دن سات‘ طواف کے چکر سات وغیرہ (تفسیر رازی وقرطبی)-

یہ تو ستائسویں رات کے شب قدر ہونے کی دلیلیں تھیں۔ جو ائمہ اپنے اپنے قوت استنباط اور استخراج کے ذریعے بات کو وزن دار بنائیں۔ اب ہم ذرا اس رات کو مخفی رکھنے کے چند وجوہات پر بات کرتے ہیں۔ اس سے شب قدر کی عظمت و شرافت بھی اجاگر ہوگی مزید برآں طاق راتوں کا خوب اہتمام کا شوق بھی بڑھ جائے گا۔

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شب قدر کو پوشیدہ رکھنے کے اسباب بیان فرماتے ہیں کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے۔

(1)… جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا، مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رضا کو اطاعتوں  میں  پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں  رغبت حاصل کریں۔ اپنے غضب کو گناہوں میں  پوشیدہ فرمایا تا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں۔ اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں  میں  پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں میں  مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں  پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں  میں  پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں کی پابندی کریں۔ توبہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔

(2)…گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں  شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں  گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں  تو اگر کبھی شہوت تجھے اس رات میں  گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں  نے اسے پوشیدہ رکھا ۔

(3)…گویا کہ ارشاد فرمایا میں  نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں  محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔

(4)…جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں  اس امید پر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں  کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو (تفسیر رازی)-

شب قدر کا انمول وظیفہ

آخر میں ہم بات کریں گے کہ اگر کسی خوش قسمت کو یہ مقدس و بابرکت رات نصیب ہو جائے تو کیا کریں؟ تو اس سلسلے میں اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے معاملہ آسان کردیا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسالت مآب ﷺ سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ ﷺ نے ان الفاظ کی تلقین فرمائی: "اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ" یعنی اے اللہ! تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے (مسند احمد)- بحمداللہ ہم نے کافی تلاش وجستجو کے بعد یہ مضمون قلم بند کیا تاکہ قارئین کو بآسانی ایک ہی جگہ سے تمام باتیں میسر ہو جائے کہیں حوالہ جات نقل کرنے میں اختصار نظر آئیں تو یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ آپ کی سہولت و آسانی کے لیے ایسا کیا گیا ہے، لہذا کوشش کریں کہ ان  طاق راتوں میں خوب عبادات ہوں اور اپنی مغفرت و بخشش کی فکر کریں رب قدیر سے دعا ہے کہ ہم سب کو شب قدر زندگی میں بار بار نصیب فرمائے اور اس شب کی تمام برکتوں سے مالامال فرمائے آمین۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter