اللہ کے رسول ﷺکی دعائیں (قسط 4)
"سورہ بنی اسرائیل" جسے "سورہ إسراء" بھی کہاجاتا ہے، میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے 'نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور صبح کا قرآن بے شک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھو یہ خاص تمہارے لیے زیادہ ہے۔ قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں۔ یہ سورہ اسراء کی دو آیتوں 78 اور 79 کا ترجمہ ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺپر تہجد کی نماز فرض تھی جبکہ آپ کی امت کے لیے یہ سنت ہے۔ حدیث کی کتابوں میں اللہ کے رسول ﷺکی عبادت کے طریقوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے رسول ﷺتہجد کے لیے بیدار ہوتے تو یہ دعا کیا کرتے: "اللھم لک الحمد أنت قیم السموات والأرض ومن فیھن ولک الحمد لک ملک السموات والأرض ومن فیھن ولک الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فیھن ولک الحمد أنت ملک السموات والأرض ولک الحمد أنت الحق ووعدک الحق ولقاؤک حق وقولک حق والجنۃ حق والنار حق والنبیون حق ومحمد ﷺحق والساعۃ حق اللھم لک أسلمت وبک آمنت وعلیک توکلت والیک أنبت وبک خاصمت والیک حاکمت فاغفرلی ما قدمت وماأخرت وماأسررت وماأعلنت أنت المقدم وأنت المؤخر لا الہ الا أنت یا لا الہ الا أنت کی جگہ لا الہ غیرک"۔ دعا کا ترجمہ اس طرح ہے"اے اللہ سب تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمان و زمیں اور جو کچھ اس میں ہے تو ان سب کو قائم رکھنے والا ہے سب تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے سب کا تو ہی مالک ہے سب تعریفیں تیرے لیے ہیں آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے تو ہی ان کا نور ہے سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو ہی آسمان و زمین کا بادشاہ ہے سب تعریفیں تیرے لیے ہیں تو حق ہے تیرا وعدہ حق ہے تیری ملاقات حق ہے تیرا قول حق ہے جنت حق ہے جہنم حق ہے تمام انبیاء حق ہیں اور محمد ﷺحق ہیں قیامت حق ہے اے اللہ میں تیری اطاعت میں ہوں تجھ پر ایمان لاتا ہوں اور تجھی پر بھروسہ کرتا ہوں تیری ہی طرف لوٹ کر آتا ہوں تجھے ہی اپنا خصم بناتا ہوں اور تجھے ہی اپنا حکم بناتا ہوں تو میری مغفرت فرماان اعمال کی مغفرت جو ہوچکے ہیں اور ان کی بھی جو آئندہ ہوں گے ان اعمال کی بھی جو میں نے چھپائے ہیں اور ان کی بھی جو علی الاعلان ہوئے ہیں تو ہی اول ہے اور تو ہی آخر ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ یہ حدیث امام بخاری نے کتاب التہجد میں روایت کی ہے۔حدیث کی شرح میں اس پر بحث ملتی ہے کہ اللہ کے رسولﷺیہ دعا نماز میں تکبیر کے بعد پڑھا کرتے تھے یا نماز سے پہلے بہرحال ہمارے لیے اس دعا میں بہت سی مفید باتیں ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺکی دعا کی ایک خصوصیت آپ کا انداز مدح و ثناء ہے جہاں آپ مختلف طریقوں سے اللہ تعالی کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ دعا بھی پوری کی پوری اللہ تعالی کی تعریف اور اس کی مدح و ثناء میں ڈوبی ہوئی ہے۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ اس کی روانی، الفاظ کے حسن انتخاب اور جملوں کی ترکیب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ پوری دعا میں اللہ کی تعریف ہے اور صرف ایک چیز کا سوال کیا گیا ہے۔ یہ بات بجائے خود اپنے اندر کئی سبق رکھتی ہے کہ بندے کو جب رب سے کچھ مانگنا ہو تو وہ اس کی حمد و ثناء میں زیادہ وقت بتائے اور جو کچھ مانگنا ہے اس میں کم وقت لگائے کیوں کہ حمد و ثناء سے جو قربت یا انکساری اور خشوع خضوع پیدا ہوتا ہے وہ دعا سے نہیں ہوتا لہذا اللہ کے کسی چیز کا سوال کرتے وقت اس کے اوصاف کثرت سے بیان کرنا اور اسی کے ضمن میں اپنی مراد اس سے مانگنا زیادہ لذت رکھتا ہے۔
دعا کی شرح سے پہلے مغفرت کا مفہوم واضح کرنا ضروری ہے۔ مغفرت اتنی اہم کیوں ہے کہ اس کے لیے اللہ کے رسول ﷺنے اللہ کی اتنی حمد بیان کی اور دنیا و آخرت کی تمام چیزیں پرے رکھ کر صرف اسی کا سوال کیا۔ مغفرت دراصل عربی زبان میں چھپانے کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالی جب اپنے بندےکے گناہوں کو چھپا دیتا ہے اور اسے معاف کردیتا ہے یعنی اس پر کسی طرح کا عذاب یا سزا نہیں دیتا بلکہ اس سے چشم پوشی کرکے درگزر کردیتا ہے تو اسی کو مغفرت کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالی بندے کو گناہوں کو چھپادے اور ان پر کوئی پکڑ نہ کرے تو یہ اس کا فضل ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے یہ بعید بھی نہیں ہے کیوں کہ بندہ سراپا تقصیر ہے ہر انسان چاہے جتنی کوشش کرلے اس سے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور سرزد ہوجاتا ہے جو اللہ کی ناراضگی کا باعث ہوتا ہے لہذا ایسی صورت میں یہی بہتر ہے کہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی سترپوشی اور اسے درگزر کیے جانے کی اپیل کرے اور بے شک اللہ تعالی اپنے بندے کی دعا ؤں کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔بندہ جب اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے اس سے مغفرت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ بھی اپنی تمام تر رحمت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ مغفرت کا یہ مفہوم سمجھنے کے بعد آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا سوال کتنا اہم ہے کہ آخرت کی کامیابی دراصل اسی پر موقوف ہے۔ لہذا اللہ کے رسول ﷺ اگر اپنی دعا میں صرف مغفرت کا سوال کریں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ ہر گناہ سے پاک ہیں لہذا آپ کی دعا میں مغفرت کا سوال یا تو تواضع اور عجز و انکساری کی وجہ سے ہے یا آپ اللہ تعالی کی تعظیم میں مبالغہ کررہے ہیں کے اے خدا میں سراپاتقصیر ہوں جیسا تیرا حق ہے ویسا ادا کرنا ناممکن ہے یا اپنی امت کو تعلیم دینا چاہتے ہیں کہ دعا اس طرح مانگو اور مغفرت کا سوال زیادہ کروکیوں کہ اللہ نے جس کی مغفرت کردی وہ یقینا کامیاب ہوجائے گا۔ مزید یہ کہ دعا میں اللہ کی تعریف میں جو الفاظ ذکر کیے گئے ہیں وہ بھی تعلیم ہی کا حصہ ہیں کہ بندہ ان الفاظ میں اللہ کی تعریف و توصیف بیان کرسکتا ہے۔
اس تمہید کے بعد دعا کی طرف آتے ہیں۔ دعا کا ایک اول حصہ پانچ حمدوں میں محصور ہے اور ان پانچ حمدوں کے درمیان اللہ کی چار خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور یہ چاروں خصوصیات آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے آن سے متعلق ہیں۔ سب سے پہلے اللہ کو قیّم کہا گیا پھر زمین و آسمان کی ملکیت کا ذکر ہے پھر اللہ کے نور ہونے کا بیان ہے اور آخرت میں زمین و آسمان کے بادشاہ ہونے کا ذکر ہے۔قیم اللہ کی صفت ہے جس کا معنی ہے ایک ایسی ذات جو ہمیشہ موجود ہو اور دوسروں کو ایسی چیزیں فراہم کرے جس سے ان کا وجود باقی رہتا ہو۔ اللہ تعالی آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے یعنی تمام دنیا تمام عالم جس میں اللہ کے علاوہ ہر کوئی شامل ہے سب کو ان کی ضروریات اور لوازمات فراہم کرتا ہے۔ سورج چاند پانی ہوا چرند پرند غرض دنیا میں جو کچھ ہے اور دنیا کے نظام کو صحیح طریقہ پر چلانے کے لیے جن چیزوں کی بھی ضرورت ہے وہ سب اللہ تعالی ہی فراہم کرتا ہے اسی لیے یہاں اللہ کو قیم السموات والارض کہا گیا ہے۔قیم کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ وہ خود سے اپنا وجود رکھتا ہے اسے اپنے وجود کے لیے دوسروں کی ضرورت نہیں ہے اور دوسروں کو اپنے وجود کے لیے اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ قیّم کا ایک اور معنی مخلوق کے رزق عمر اور دیگر چیزوں کا فیصلہ کرنے والا ہے اور یہ سب چیزیں اللہ ہی کے فیصلوں سے طے ہوتی ہیں۔
دوسری صفت ملکیت کی ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے سب اللہ ہی کا ہے۔ تیسری صفت اللہ کے نور ہونے کی ہے یعنی پوری دنیا کو روشن کرنے والا یا روشنی دینے والا اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہی سورج چاند ستارے اور دیگر چیزیں بنائی ہیں جن سے انسانوں کے کام آسانی سے ہوجاتے ہیں اور انہیں کسی مشقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ نور کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہی اس دنیا کو وجود بخشا ہے اگر اللہ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے انہیں پیدا نہ کرتا تو یہ تمام چیزیں ہر گز موجود نہ ہوتیں - تو نور سے مراد وجود دینے والا بھی لیا جاسکتا ہے۔ اللہ کی چوتھی صفت ملک یعنی بادشاہ کی ہے۔ یہ صفت اور دوسری صفت دونوں کا آپس میں تعلق ہے دوسری صفت میں ہرچیز کو خداکی ملکیت کہاگیا تھا اور یہاں اللہ کو ہر شئے کا بادشاہ کہا جارہا ہے لہذا یہ دونوں صفات آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔
دعا کے اگلے حصے میں نو چیزوں کا ذکر ہے جنہیں حق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان تمام چیزوں کو اس لیے حق کہاگیا ہے کہ ان کے ہونے میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ وہ نو چیزیں یہ ہیں ۱۔اللہ کی ذات ۲۔اللہ کا وعدہ. اللہ تعالی جو وعدہ کرتا ہے اس کا پورا ہونا یقینی ہے مگر کوئی اور کتنا بھی وعدے کا پکا ہو وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنا کیا ہوا وعدہ ضرور پورا کروں گااسی لیے یہاں خصوصیت کے ساتھ اللہ کے وعدے کو حق کہا گیا ہے. ۳۔اللہ کی ملاقات. ۴۔اللہ کا قول اس کا فرمان. ۵۔جنت. ۶۔جہنم. ۷۔انبیاء علیہم السلام. ۸۔محمد یعنی خود اللہ کے رسول ﷺ. آپ نے تمام انبیاء کے بعد اپنا نام خصوصی طور پر ذکر فرمایا کیوں کہ آپ خاتم النبیین ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کو دیگر تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے. ۹۔قیامت۔ یہ نو چیزیں ہیں جن کے حق ہونے میں کسی طرح کا کوئی شبہ نہیں ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے اپنی دعا میں ان چیزوں کو اس لیے بیان کیا کیوں کہ اس سے ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور بندہ از سر نو ان تمام چیزوں کا اقرار کرتا ہے۔ دعامیں ایسا کرنے سے دعا کی قبولیت کے امکان میں اضافہ ہوجاتا ہے-
دعا کا آخری حصہ اسلام ایمان توکل رجوع اور اللہ کو خصم اور حکم بنانے پر مشتمل ہے۔ 'أسلم' دراصل اطاعت کو کہتے ہیں اسی سے 'مسلم' یعنی اطاعت گزار اور فرماں بردار بنتا ہے۔ مسلم اور مومن قریب قریب ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں۔ قرآن میں یہ دونوں الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ توکل سب کچھ اللہ کے سپردکردینے کو کہتے ہیں اسی طرح انابت کا معنی رجوع ہوتا ہے یعنی بندہ ہر چیز سے جدا ہوکر خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ وہی آخری سہارا ہے۔ خصم اسے کہتے ہیں جس کے پاس کوئی مضبوط دلیل ہو جس کی بنیاد پر وہ مقدمہ جیت لے۔ انبیاء کو اللہ کی طرف سے دلیل فراہم کی جاتی ہے جو وہ اپنی قوم کو پیش کرتے ہیں۔ حکم اسے کہتے ہیں جو دولوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے۔ اللہ تعالی کل بروز قیامت انبیاء اور انہیں جھٹلانے والوں کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔
اللہ کی حمد و ثناء کے بعد اپنے جملہ اعمال کی مغفرت کا سوال ہے۔ اس میں ہر طرح کے اعمال شامل ہیں۔ جو ہو چکے ہیں وہ بھی اور جو ہونے والے ہیں وہ بھی۔ جو چھپ کر کیے جاتے ہیں وہ بھی اور جو علی الاعلان کیے جاتے ہیں وہ بھی۔ مغفرت کے سوال کے بعد ایک بار پھر اللہ کا وصف بیان کیا گیا ہے کہ اے مغفرت عطا کرنے والے تو ہی معبود ہے تیرے علاوہ میں کسی اور کی بندگی کا قائل نہیں لہذا میری دعا قبول فرما۔ اس طرح یہ دعا بھی اپنے آپ میں بہت ہی جامعیت اور تاثیر رکھتی ہے۔