رمضان گناہوں کو جلا دیتا ہے

اس میں بالکل شک کی گنجائش نہیں کہ رمضان، اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اس کا جس قدر بھی شکر و احسان کیا جائے وہ کم ہے۔
رمضان کے لفظ و معنی پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ لفظ رمض سے مشتق ہے جس کا معنی ہے جلا دینا۔ اس لیے رمضان کا معنی علما و مفسرین نے گناہ کو جلا دینے والا مہینہ بیان کیا ہے۔ 
چوں کہ یہ مہینہ رحمت، مغفرت اور نجات کا مجموعہ ہے اور جو بندہ خدا رحمت ربانی، مغفرت حقانی اور جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کر لے جائے تو اس واضح مطلب ہے کہ اس کے تمام گناہ جلادیے گئے اور ختم کردیے گئے، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ رمضان میں ہر نیک عمل کا اجرو ثواب انتہائی کثرت کے ساتھ رب کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک فرض کی ادائیگی کے بدلے ستر فرائض کا ثواب اور نفل کو فرض کے برابر ثواب ملتا ہے اور اسی قدر اس کے گناہوں میں کمی آجاتی ہے، تو اس سبب بھی بندگان خدا کی تقصیر و گناہ کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ علاؤہ ازیں ہر مسلمان رمضان میں روزہ رکھتے ہوئے بالخصوص تمام منہیات سے پرہیز کرتا ہے اور تمام مامورات کی بجا آوری میں لگا رہتا ہے تو منہیات سے پرہیزی اور مامورات کی بجاآوری کے سبب انسان ہر عیب و نقص سے پاک و صاف اور ستھرا ہو جاتا ہے۔
منہیات میں دیکھا جائے تو جھوٹ، غیبت، چغلی، فتنہ و فساد، لڑائی جھگڑا، منافع خوری میں فریب کاری، عیب دار مال کی فروختگی، اشیا کی قیمتوں میں غیر مناسب اور بے تحاشا اضافہ، حرام اشیا سے دوری وغیرہ اور مامورات میں دیکھا جائے تو صدق مقال، اخوت و مروت کا اظہار، صدقات و خیرات کی کثرت، مسنون افطار و سحری کے ساتھ تراویح کی پابندی، ذکر و تہلیل کے ساتھ تلاوت کی کثرت، غربا و مساکین کی خاطر داری و خیال داری وغیرہ ایسے اعمال ہیں جن میں اخلاص کے باعث گناہوں کا خاتمہ یقینی ہے۔
اس پر مستزاد یہ کہ مسنون اعتکاف اور شب قدر کی شکل میں دو ایسے انمول اعمال عطا کیے ہیں جن کی ادائیگی سے جملہ گناہوں سے آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔ 
اعتکاف کے بارے میں آیا ہے کہ جس نے صدق نیت اور خلوص دل کے ساتھ دس روزہ مسنون اعتکاف کرلے تو اسے دو حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے اور اس سے بڑی بات یہ کہ ساری دنیا اور امور دنیا سے کنارہ کش ہوکر بندہ دس دنوں تک بارگاہ ربانی میں دھونی رمائے رہتا ہے اور اس پر مسلسل رحمت ربانی اور فضل رحمانی کی برسات ہوتی رہتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ رمضان کی آخری پانچ طاق راتوں میں بندہ اللہ جل و علا کے حکم پر اس کے روبرو رہتا ہے۔ اس کے لیے بکثرت دوگانہ ادا کرتا ہے۔ اس کی تسبیح و تقدیس کرتا ہے اور اس کے تصور و خیال میں گم رہتا ہے اور یہ سب بھی ان اعمال میں شامل ہیں جن کے باعث بندگان خدا کے گناہوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ 
گناہوں کے خاتم ان باتوں کے ساتھ رمضان میں ان باتوں کا رکھنا بھی لازم ہے کہ جن سے جسمانی فوائد حاصل ہوتے ہیں اور معہ گناہوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رمضان میں غذائی اشیا پر توجہ دینا ضروری ہے کہ کم خوردنی پر زور ہو۔ ایسا نہیں کہ افطاری شروع ہوتو سحری تک کھایا جائے۔ بلکہ جیسے عام دنوں میں صبح ناشتہ، دوپہر اور رات میں  کھایا جاتا ہے اسی طرح افطار و سحری اور عشائیہ کا بھی اہتمام ہو۔ پھر رمضان صدقات و خیرات تو کیا جائے لیکن نام و شہرت کے لیے نہیں بلکہ اللہ ورسول کی رضا کے لیے ہو۔ یہی سبب ہے کہ فرمایا گیا ہے کہ جب تم کسی کو کچھ دو یا مدد کرو تو خیال رہے کہ دائیں ہاتھ سے تو بائیں ہاتھ کو پتا نہ چلے اور یہ بھی خیال رہے کہ جسے تم کچھ دے رہے رہو اس کی عزت نفس بھی پامال نہ ہونے پائے۔ جیساکہ آج کل یہ غیرشرعی اور غیر اخلاقی عمل رواج پاگیا ہے کہ ہر چھوٹی بڑی اشیا دیتے ہوئے تصویر کشی کی جاتی ہے اور اسے شائع و ذائع کیا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایسے اعمال نہ دنیا میں قابل قبول ہوتے ہیں اور نہ آخرت میں قابل قبول ہوں گے کیوں کہ دکھاوے والے اعمال، صاحب اعمال کے منھ پر مار دیے جائیں گے۔
خلاصہ کلام یہ کہ رمضان اسم با مسمی ہے۔ جس طرح لفظی اور ظاہری اعتبار سے اس کا معنی گناہ کو جلانے والا ہے۔ اسی طرح معنوی اور باطنی کے اعتبار سے بھی اس کا معنی گناہوں کا خاتمہ کرنے والا ہے۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter