جنگ بدر امت مسلمہ کے لیے اعجاز سے کم نہیں

اسلامی تاریخ کی اگر ورق گردانی کی جائے تو ہمیں  ایسے بے شمار واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جس سے روح کے ساتھ ساتھ دل بھی منور ہو جاتا ہے اور ہمارے اندر ایک ایمانی جذبہ پیدا ہو جاتا ہے ساتھ ہی یہ ایمان میں پختگی آجاتی ہے۔ انہیں اہم ترین تین مشہورو تاریخ ساز واقعات میں سے دل کو کو منور کر دینے والا اصحاب بدر کا واقعہ ہے جو فقط کچھ ہی تعداد میں دشمنانِ اسلام کے خلاف لڑی گئی تھی اور مسلمان ان پر غالب آ چکے تھے حالانکہ دشمنوں کی فوج کثیر تعداد میں ایک مضبوط بہت پہاڑ کی طرح مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کے لئے اتاولے اور بے چین کھڑے تھے ۔ 

کسی بھی قوم کی تعداد کو دیکھ کر مرعوب نہ ہونا یہ اصحابہ بدر کا امت مسلمہ کے لئے پہلا پیغام ہے اور دوسرا یہ کہ رب ذوالجلال ہر آزمائش میں اپنے بندوں کو کو خود سے قریب کرنا چاہتا ہےاور تیسرا پیغام یہ ہے کہ جب تک یہ امت مسلمہ ایک جماعت کے ساتھ اور ایک لیڈر کے اطاعت میں رہیں گے تو کامیاب ہوتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے ایسے پیغام ہیں جن پیغامات پر آج ہم اس ماڈرن زمانے میں اگر عمل پیرا ہو گئے تو  یقیناً پوری دنیا میں انقلاب آ سکتا ہے ۔ کسی بھی حالات کا سمجھوتا حسن و اخلاق اور اچھے انداز سے ہونا چاہیے اگر کوئی قوم کسی بات کو اقرار نہ کرے تو اسے ضمنا وقولا قرآن و حدیث کے دلائل اور اسلامی شریعت کے ماتحت رہتے ہوئے اس کے قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے ان تمام امور کا انہیں یاد دہانی کرانی چاہیے تاکہ وہ راہ مستقیم پر گامزن ہو سکے اور اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور جنگ پر آمادہ ہوجائے تو جنگ کرنا ہی بہتر ہے بالکل اسی طریقے کا ایک جنگ جنگ بدر کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔ جس جنگ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں اپنے اصحابہ کرام  کے ساتھ دو ہجری میں کفار کے ساتھ لڑنی پڑی جس میں کافروں کا سردار ابو جہل تھا۔ 

حضور صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سے بحرین کا ایک سردار عبدالقیس مدینہ کی طرف آ رہا تھا کہ قریش مکہ نے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہوسکتی۔ اور رجب 2 ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ بن حجش کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب عبدالله حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدی رہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیے خون بہا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔ مکہ اور مدینہ کے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے رسول اللہ کے مویشی لوٹ لیے۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نے کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا اب اس کے بعد جنگ کا آغاز ہو جاتا ہے 

ابوجہل نے اپنی قیادت میں کفار مکہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کر لیتا ہے اور کفار مکہ پورے جوش و خروش کے ساتھ  تیاریاں شروع کر دیتے ہیں اور گھوڑ سواریوں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے ساتھی ساتھ ابوجهل اپنی فوج کی تعداد بھی بہت زیادہ کر لیتا ہے تاکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ سکے اور اپنی قوت سے سب کے اندر خوف ڈال سکے کے اور پیغامات محمد کو جڑ سے ختم کر سکے ۔ مدینہ میں قریشی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی تو آپ نے مجلس مشاورت بلوائی اور خطرے سے نپٹنے کے لیے تجاویز طلب فرمائیں۔ مہاجرین نے جانثاری کا یقین دلایا۔ آپ نے دوبارہ مشورہ طلب کیا تو انصار میں سے سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ غالباً آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا کہ: " یا رسول اللہ! ہم آپ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ کی تصدیق کی ہے اور گواہی دی ہے کہ جو منور کتاب آپ لائے ہیں وہ حق ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی شک کی گنجائش نہیں اور ہم نے آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا ہے۔ یا رسول اللہ جس طرف مرضی ہو تشریف لے چلیے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو معبوث کیا اگر آپ ہم کو سمندر میں گرنے کا حکم دیں گے تو ہم ضرور اس میں گر پڑیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی باقی نہ رہے گا " ۔ حضرت مقداد نے عرض کیا: ”ہم موسیٰ کی امت کی طرح نہیں ہیں جس نے موسیٰ سے کہا کہ تم اور تمہارا رب دونوں لڑو۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ کے ساتھ لڑیں گے۔ اور سب کے سب ایمانی جذبے کے ساتھ کفار مکہ کے خلاف جہاد کرنے کے لئے  میدان بدر کی طرف رواں دواں ہوئے۔  

مسلمانوں کے ذوق شہادت کا یہ عالم تھا کہ ایک نوعمر صحابی حضرت عمیر بن ابی وقاص اس خیال سے چھپتے پھرتے تھے کہ کہیں کم عمر ہونے کی وجہ سے واپس نہ بھیج دیے جائیں۔ اس کے باوجود مجاہدین کی کل تعداد ٣١٣ سے زیادہ نہ ہو سکی۔ یہ لشکر اس شان سے میدان کارزار کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی کے پاس لڑنے کے لیے پورے ہتھیار بھی نہ تھے۔ پورے لشکر کے پاس صرف ٧٠ اونٹ اور ٢ گھوڑے تھے جن پر باری باری سواری کرتے تھے۔ مقام بدر پر پہنچ کر ایک چشمہ کے قریب یہ مختصر سا لشکر خیمہ زن ہوا۔ مقابلے پر تین گنا سے زیادہ لشکر تھا۔ ایک ہزار قریشی جوان جن میں سے اکثر سر سے پاؤں تک آہنی لباس میں ملبوس تھے وہ اس خیال سے بدمست تھے کہ وہ صبح ہوتے ہی ان مٹھی بھر فاقہ کشوں کا خاتمہ کر دیں گے لیکن قدرت کاملہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

 رمضان المبارک 2ھ کو فجر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کی تلقین کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انہوں نے صف بندی کی اور آہن پوش لشکر کو شکست دینے کا آہنی عزم لے کر میدان کی طرف چلے۔ قریشی لشکر تکبر و غرور میں بدمست نسلی تفاخر کے نعرے لگاتا ہوا سامنے موجود تھا۔ مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا وقت تھا اس لیے کہ اپنے ہی بھائی بند سامنے کھڑے تھے۔ ابوبکر اپنے بیٹے عبد الرحمن سے اور حذیفہ کو اپنے بات عتبہ سے مقابلہ کرنا تھا۔ عرب کے دستور کے مطابق پہلے انفرادی مقابلے ہوئے۔ سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر میدان میں نکلا اور مدمقابل طلب کیا۔ مقابلے پر حضرت عمر کا ایک غلام نکلا اور اس نے چشم زدن میں اس مغرور کا خاتمہ کر دیا۔ جو اپنے بھائی کا انتقام لینے کے لیے آیا تھا۔ اس کے بعد عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبه اور اس کا بیٹا ولید بن عتبه میدان میں نکلے اور مبارز طلب کیے۔ تین انصاری صحابہ میدان میں نکلے لیکن ان تینوں نے یہ کہہ کر ان سے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ ہمارے ہم پلہ نہیں ہیں اور پکار کر کہا اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مقابلے پر قریشی بھیجو۔ ہم عرب کے چرواہوں سے مقابلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چنانچہ آپ کے ارشار پر حضرت حمزہ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ مقابلے کے لیے نکلے۔ مغرور قریشی سرداروں نے ان کے نام پوچھے اور کہا۔ ’’ہاں تم ہمارے ہم پلہ ہو‘‘مقابلہ شروع ہوا۔ چند لمحوں میں حضرت حمزہ نے شیبہ کو جہنم رسید کر دیا اور حضرت علی نے ولید کو قتل کر ڈالا اور لشکر اسلام سے تکبیر کی آواز بلند ہوئی۔ اس دوران میں عتبہ اور حضرت عبید ہ نے ایک دوسرے پر بھرپور وار کیا اور دونوں زخمی ہو کر گر پڑے۔ حضرت علی اپنے مدمقابل سے فارغ ہو کر عتبہ کی طرف لپکے اور ایک ہی ضرب سے اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ کو لشکر میں اٹھا لائے۔ قریش نے اپنے نامور سرداروں کو یوں کٹتے دیکھا تو یکبارگی حملہ کر دیا تاکہ اکثریت کے بل بوتے پر لشکر اسلام کو شکست دیں۔ 

 مجاہدین اسلام اور کفار مکہ آپس میں جنگ کرنا شروع کر دیتے ہیں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی تھیکہ اے اللہ اگر آج یہ تری امت تباہ و برباد ہو گئی تو تیری اس سرزمین پر عبادت کرنے والا کوئی بندہ نہ رہے گا اسی لئے الله تبارک و تعالی نے نے اپنے فرشتوں کے ذریعے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کی مدد فرمائی مجاهدین اسلام اس جنگ کو فتحیاب ہوے حلانکہ اس میدان بدر میں ابوجہل کے علاوہ امیہ بن خلف جس نے حضرت بلال پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اور ابوبختری جیسے اہم سرداران قریش بھی مارے گئے۔ اور یہ مغرور لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ تعالٰی نے اسلام کو فتح دی تھی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ فتح و شکست میں مادی قوت سے زیادہ روحانی قوت کا دخل ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کل ١٤ آدمی شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں قریش کے ٧٠ آدمی مارے گئے جن میں سے ٣٧ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ ٧٠ سے زیادہ گرفتار ہوئے۔ قریشی مقتولین میں ان کے تقریباً تمام نامور سردار شامل تھے اور گرفتار ہونے والے بھی ان کے معززین میں سے تھے۔ مثلاً حضرت عباس بن عبد المطلب ’’حضور کے چچا‘‘ عقیل بن ابی طالب، اسود بن عامر، سهیل بن عمرو اور عبد اللہ بن زمعہ وغیرہ۔

اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ تجارتی قافلہ اور قریشی لشکر میں ایک ضرور مفتوح ہو گیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو برسر ظلم ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالٰی نے فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور باطل پر کون ہے۔

تین سو تیرا کے آگے تھی ہزاروں کی سپاہ
دیکھتی تھی فتح لیکن مرد مومن کی نگاہ
موت کے ڈر سے تھے سب انجان اصحاب بدر 
میری امت کے تھے وہ پہچان اصحاب  بدر 
جہاد  راہ  حق میں تین  سو  تیرا
یقینا ہے وقار دین اکرم تین سوتیرا

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter