اللہ کے رسول ﷺ کی دعائیں ( قسط دوم)

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا دعا ہی عبادت ہے یعنی دعا بھی دراصل عبادت ہی ہے۔دعا کو عبادت اس لیے کہا گیا ہے کہ اس میں بندہ پوری انکساری کے ساتھ اپنے رب سے ان چیزوں کا سوال کرتا ہے جن کے بارے میں اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر وہ رب سے ان چیزوں کا سوال کرے گا تو وہ ضرور وہ چیزیں اسے عنایت کرے گا۔دعا کے وقت بندہ بالکل عاجز اور بے بس ہوتا ہے۔وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ جس سے مانگ رہا ہے وہ ہر شئے کا مالک ہے۔کوئی بھی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے۔بندہ خود کو لاچار اور بے ہمت مانتا ہے لیکن دل سے سمجھتا ہے کہ جس کی بارگاہ میں ہا تھ ا  ٹھا رہا ہے اس کی ملکیت میں زمین و آسمان کی ہر شئے ہے۔دعا کے وقت بندہ بلاواسطہ رب سے مخاطب ہوتا ہے۔یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جس میں اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی اور نہیں ہوتا۔اللہ کے رسولﷺ نے اسی لیے دعا کو عبادت کہا کہ اس میں عبودیت کی ساری صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
 سورہ غافر کی آیت نمبرساٹھ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ”وقال ربکم ادعونی استجب لکم“ اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرومیں تمہاری دعا قبول کروں گا۔اللہ تعالی ہر شئے سے بے نیاز ہے۔اسے نہ کسی کی عبادت کی ضرورت ہے اور نہ ہی وہ کسی چیز کا محتاج ہے۔آسمان و زمین کی ہر شئے اسی کی ملکیت ہے۔اسے یہ بات بہت پسند آتی ہے کہ بندہ اس سے مخاطب ہو اور اپنی ضروریات کا سوال کرے۔حدیث میں ہے اللہ تعالی نے فرمایا: ”اے انسانو! اگر تم سب کسی میدان میں جمع ہوجاؤ اور سب اپنی اپنی حاجت مانگو اور میں سب کی حاجتیں پوری کردوں پھر بھی میرے خزانے میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔جب رب کی یہ شان ہے تو بندے کو بھی اس سے مانگتے وقت شرم یا ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے یا کسی کمتر چیز کا سوال نہیں کرنا چاہیے بلکہ مانگو تو دل کھول کر مانگو کہ اللہ ہی دے سکتا ہے اور وہی دیتا ہے اور ایسے کرنے سے اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آتی۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:  ”دعامانگو تو دل کھول کر مانگو کیوں کہ تم جس سے مانگ رہے ہو وہ تمہارا رب ہے“۔یعنی تمہاری ہر ضرورت ہر حاجت کو پوری کرنے والا وہی ہے تو مانگنے میں کسی بھی طرح کی ہچکچاہٹ یا یہ سوچنا کہ پتہ نہیں یہ ملے گا یا نہیں یہ اس کی شان ربوبیت کے خلاف ہے۔
 دعا کے آداب میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ اللہ سے مانگتے وقت دل میں کسی بھی طرح کا شک یا تردد نہیں ہونا چاہیے کہ پتہ نہیں میری یہ ضرورت پوری ہوگی بھی یا نہیں بلکہ دل پوری طرح مطمئن ہو کہ اللہ تعالی میری حاجت ضرور پوری کرے گا۔دعا کے وقت ایک اور بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر دعا کرتے ہوئے کچھ مدت گزر جائے اور آپ کو وہ نہ ملے جس کے لیے آپ دعا کررہے تھے تو اس سے دل برداشتہ ہوکر یا مایوس ہوکر دعا کو مطلقا چھوڑنا بہت بڑی بد نصیبی ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”مومن جب بھی صدقِ دل سے اللہ سے مانگتا ہے تو اللہ اس کا بدلہ ضرور عطا کرتا ہے یا تو اس کی مانگی ہوئی شئے اسے دے دی جاتی ہے اور دنیا میں ہی اس کا فائدہ اسے حاصل ہوجاتا ہے یا تو اس کی دعا آخرت کے لیے محفوظ کرلی جاتی ہے اس طرح کہ اس نے جو مانگا ہے وہ تو نہیں دیا جاتا البتہ اس کے بدلے میں اسے آخرت میں کچھ نہ کچھ دینے کا ذمہ لے لیا جاتا ہے“۔آپ غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگاکہ دوسری صورت یقینا پہلی صورت سے زیادہ بہتر ہے کیوں کہ آخرت میں جو بھی چیز ملے گی وہ دنیا سے بہتر ہی ہوگی۔اللہ کے رسول ﷺ یہ دونوں صورتیں بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ بندہ جلد بازی نہ کرے۔پھر خود ہی جلد بازی کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جلد بازی یہ ہے کہ بندہ کہے کہ میں نے دعا کی لیکن میری دعا قبول نہیں ہوئی۔جب یہ خیال دل میں جگہ پکڑ لیتا ہے تو وہ بندہ بیان کردہ دونوں صورتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ایک دوسری حدیث میں اسی نکتے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ”اللہ تعالی ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو دعا میں ڈٹے رہتے ہیں“۔ 
 قرآن میں جابہ جا دعا کے الفاظ ملتے ہیں۔سورہ فاتحہ میں ہی”اھدنا الصراط المستقیم“  آیا ہے جو کہ ہر لحاظ سے ایک جامع دعا ہے۔ انبیاء و مرسلین کی دعاؤں کو بھی قرآن میں محفوظ کر لیا گیا ہے۔اس مضمون میں قرآن میں وارد دعاؤں پر بحث کرنا مطلوب نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اللہ کے رسولﷺ کی دعاؤں کا مطالعہ ہے۔اللہ کے رسول ﷺ سب سے افضل رسول ہیں۔آپ ﷺکو اللہ سے جو قربت حاصل تھی اور ہے وہ کسی اور کے بارے میں سوچی بھی نہیں جاسکتی۔ایسے میں آپ کی دعائیں ایک خاص معنی اور ایک خاص لطف رکھتی ہیں کہ معرفت اور قربت کے اس عظیم الشان مقام پر فائز ہونے کے بعد آپ نے اللہ سے کن چیزوں کا سوال کیا۔آپ کی دعا کا انداز کیا تھا۔آپ کن چیزوں کا سوال کرتے تھے۔کن چیزوں سے رب کی پناہ مانگتے تھے۔دنیا میں کن چیزوں کا سوال کیا اسی طرح آخرت میں کیا کیا مانگا۔یہ تمام باتیں اسی وقت آشکارا ہوں گی جب ہم اللہ کے رسول ﷺ کی دعاؤں کا مطالعہ کریں گے۔
 اللہ کے رسولﷺ کی دعاؤں کا مطالعہ اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے ہمیں خود اپنی دعا کو بہتر کرنے کا موقع ملے گاکیوں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے لیے جن چیزوں کا سوال کیا یقینا ہم بھی ان سب چیزوں کے محتاج ہیں اور جن چیزوں کا سوال اللہ کے رسول ﷺ نے کیا وہ چیزیں بقیہ چیزوں سے زیادہ حق رکھتی ہیں کہ ہم انہیں اپنی دعاؤں میں شامل کریں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کی حاجت اور ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ہر شخص اپنی حاجت یا ضرورت کا سوال اپنی زبان میں اپنے انداز سے کرسکتا ہے۔مگر ہمیں اپنی دعاؤں میں حتی الامکان ان چیزوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جو اللہ کے رسولﷺکی دعا کا حصہ تھیں کیوں کہ دنیا و آخرت کی ساری بھلائیاں اسی میں مضمر ہیں۔
 یہ مضمون اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے جس میں دعا سے متعلق بعض ابتدائی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ قسط وار اللہ کے رسول ﷺکی منتخب دعاؤں کا ترجمہ اس کی شرح اس کی اہمیت و معنویت اور دیگر چیزیں زیر بحث آئیں گی۔رمضان کے ان بابرکت لمحات میں جہاں دیگر عبادتیں ہمارے معمول کا حصہ ہیں وہیں دعا کو بھی اپنے معمولات میں داخل کرنا عین سعادت ہوگا۔

Related Posts

Leave A Comment

Voting Poll

Get Newsletter