ماہ رمضان کی قدر کیجیے ورنہ!
رمضان المبارک کا مہینہ پورے آب وتاب کے ساتھ پھر ایک بار جلوہ گر ہے۔ اپنے دامن میں رحمت، مغفرت اور خلاصئ جہنم کا پروانہ لیے ہوئے سایہ فگن ہے۔ اس ماہِ کریم کا بڑا اہتمام ہونا چاہیے کیونکہ یہ مہینہ امت مسلمہ کی مغفرت اور بخشش کا ذریعہ اور انوار وبرکات کا خزینہ ہے۔ اس کی آمد پر خوشیاں منانا ایمان کا حصہ ہے۔ سرکار دوعالم ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص رمضان کی آمد پر خوشیاں مناتا ہے اللہ تبارک وتعالی اس پر جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے (حدیث)-
سرکار دو جہاں ﷺ رمضان کا بڑا اہتمام کیا کرتے تھے۔ تین مہینہ روزہ رکھا کرتے تھے۔ کثرت کے ساتھ نوافل پڑھا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ہمارے بزرگانِ دین بھی بڑے اہتمام کے ساتھ عبادت وریاضت میں مگن رہتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کی ترغیب وتلقین کیا کرتے تھے۔ رمضان کی آمد سے قبل آمد کی دعائیں کیا کرتے تھے اور جب رمضان پالیتے تو بڑے شوق وذوق کے ساتھ عبادتوں میں خوب محنت کرتے اور دلجمعی کے ساتھ عبادت میں اپنا سارا وقت گزارتے۔ رمضان کا ایک ایک لمحہ انمول گردانتے ہوئے اسے ضائع ورائگاں ہونے نہ دیتے تھے۔ رمضان کے بعد رمضان میں کیے گئے اعمال کی مقبولیت کی دعائیں کیا کرتے رہتے۔ گویا پورا سال رمضان المبارک کے بہاروں سے معطر رہتے اور خدا کی ذات سے امید لگائے بیٹھے رہتے۔ یہ ہمارے اسلاف کا طریقہ کار ہے۔ مگر ہم اس کے عین مخالف ہیں۔ نہ ہمیں رمضان کی قدر ہے نہ ہمیں رمضان میں ہماری مغفرت کروانے کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ اس کے خلاف ہم رمضان میں روزے کا بھی اہتمام نہیں کرتے اور کچھ بد نصیب تو رمضان کے مہینے میں بھی دن دھاڑے کھاتے رہتے ہیں۔ جب سوال ہوتا ہے تو بے جا عذر سناتے تھکتے نہیں۔ المیہ تو یہ کہ رمضان کے مہینے میں مسلمانوں کی ہوٹلیں کھلی رہتی ہیں اور کچھ بد بخت سر پر ٹوپی چڑھائے ہوئے بیٹھ کر بے شرمی وبے غیرت کے ساتھ کھاتے رہتے ہیں۔
یہ تمام افعالِ بد رمضان کی بے قدری نہیں تو اور کیا ہے؟ اب ذرا دل تھام کر احادیث رسول ﷺ کی سیر کیجیے کہ سرکار دو عالم ﷺ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو رمضان میں اپنی مغفرت نہ کروائیں، اسے بھی سن لیجیے۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں: "شقِيَ عبدٌ أدركَ رمضانَ فانسلخَ منهُ ولَم يُغْفَرْ له" یعنی کہ بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا (الادب المفرد)
مزید فرماتے ہیں کہ: "منْ أدركَ شهرَ رمضانَ ، فلم يُغفرْ له، فدخلَ النارَ؛ فأَبعدهُ اللهُ" یعنی جس نے رمضان کا مہینہ پایا، اس کی مغفرت نہ ہوئی اور وہ جہنم میں داخل ہوا اسے اللہ دور کرے گا (الترغيب والترھیب)-
ایک جگہ یوں فرماتے ہیں "مَن أدرك شهرَ رمضانَ فماتَ فلم يُغْفَرْ لهُ فأُدْخِلَ النَّارَ فأبعدَه الله" ترجمہ: جس نے رمضان کا مہینہ پایا، مرگیا، اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور وہ جہنم میں داخل کردیا گیا اسے اللہ اپنی رحمت سے دور کردے گا (صحیح الجامع)-
اب ذرا مشہور ومعروف حدیث بھی سن لیجیے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا:" منبر کے پاس آجاؤ، ہم آ گئے۔ جب ایک درجہ چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ جب دوسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘ اور جب تیسرا چڑھے تو فرمایا: ’’آمین‘‘۔ جب اترے تو ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! ہم نے آج آپ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو پہلے نہیں سنا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہا جسے رمضان ملا لیکن اسے بخشا نہ گیا وہ بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین۔ جب میں دوسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس کے سامنے آپ کا نام لیا گیا اور اس نے درود نہ بھیجا وہ بھی بد قسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین جب میں تیسرے درجے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: جس شخص کی زندگی میں اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بوڑھا ہوگیا اور انہوں نے اسے (خدمت و اِطاعت کے باعث) جنت میں داخل نہ کیا، وہ بھی بدقسمت ہوگیا۔ میں نے کہا: آمین!‘‘(المستدرك للحاكم)-
آپ کو خوب اندازہ ہو گیا ہوگا کہ رمضان المبارک کی قدر نہ کرنے سے کیا ہوتا ہے۔ ان احادیث کی روشنی میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رمضان کا وہی شخص نا قدری کرے گا جو مخلوق خدا میں بڑا بدنصیب اور بدقماش ہو گا۔ ورنہ ہمارا مشاہدہ تو یہ ہے کہ غیر بھی رمضان کی قدر کرتے ہیں اور بعض تو ایسے بھی ہیں جو روزوں اور افطار کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اگر ہم سچے پکے مسلمان کہلانا چاہتے ہیں تو چاہیے کہ رمضان کی قدر کریں۔ روزوں، عبادتوں، تراویح، اعتکاف اور صدقہ وخیرات کا خوب اہتمام کریں۔ بالخصوص غریب ونادار لوگوں کی غمخواری وہمدردی کریں۔ کیونکہ یہ غمخواری کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں رمضان کا قدردان بنائیں اور اپنی مغفرت وبخشش کروانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے آمین۔